پروفیسر لبنی اعجاز کی مسیحائی!


”میم، ضروری بات کرنا چاہتا ہوں، زندگی اور موت کا سوال ہے۔ میری بیوی کا فیس بک اکاؤنٹ ہے یہ اور مجھے علم ہے کہ وہ آپ کو میسج کیا کرتی تھی۔

میں سخت پریشان ہوں۔ وہ اس وقت آئی سی یو میں ہے، وینٹی لیٹر پہ، پنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں۔ حالت نازک ہے، میری مدد کیجیے ”

چھبیس اگست کی سہ پہر سو کر اٹھے تو میسنجر ان میسیجز سے بھرا پڑا تھا۔ یا اللہ خیر۔ میسج تو بہت لوگ کرتے ہیں، دیکھوں تو یہ کون سی بچی ہے؟

پرانے میسج بھی موجود تھے۔

”میم، میری شادی پچھلے برس جولائی میں ہوئی تھی۔ دسمبر میں حمل ہوا اور دس ہفتے کا ہو کر ضائع ہو گیا۔ اب میں پھر چار مہینے کی حاملہ ہوں۔ لیکن شروع حمل سے مجھے ہلکی بلیڈنگ ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر نے مجھے دوائیں دی ہیں اور میں بستر پہ ہوں لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔ اب میں تنگ آ چکی ہوں۔ ڈاکٹر نے الٹرا ساؤنڈ پہ بتایا کہ آنول تھوڑی نیچے ہے۔ بتائیے میں کیا کروں؟“

”الٹرا ساؤنڈ کی رپورٹس بھیج دو اور دواؤں کی پرچی بھی“
”جی اچھا“
”دوائیں تو ٹھیک ہیں اور بلیڈنگ کو رک جانا چاہیے ابھی تک۔ تھوڑا صبر اور تھوڑا انتظار“
”میں سارا وقت لیٹی رہتی ہوں۔ کل نہائی تو بلیڈنگ زیادہ ہو گئی“

”اگر بلیڈنگ زیادہ ہو تو فوراً ہسپتال جانا چاہے رات کا پچھلا پہر ہی کیوں نہ ہو۔ دن چڑھنے کا انتظار نہیں کرنا“

”جی اچھا“
یہ سولہ اگست کے پیغامات تھے۔
اوہ نہ جانے کیا ہوا اس بچی کو؟ وینٹی لیٹر پہ کیسے جا پہنچی؟

”سلام میم، میں شوہر ہوں اس کا۔ بچہ ضائع ہو گیا تھا ہمارے شہر کے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں۔ پھر بلیڈنگ شروع ہوئی بہت زیادہ برساتی نالے کی طرح۔ ہیموگلوبن بارہ تھا جو چھ رہ گیا۔ وہ بے ہوش ہو گئی۔ بلڈ پریشر بہت لو تھا۔ ان لوگوں نے ہمیں پنڈی ہولی فیملی ہسپتال بھیج دیا۔ اب وہ وینٹی لیٹر پر ہے۔ حالت نازک ہے۔

مجھے پتہ ہے آپ سینئیر ڈاکٹر ہیں، پلیز مدد کریں میری۔ اگر آپ کسی کو جانتی ہوں تو کہہ دیں، پلیز۔

تین دن سے وہ وینٹی لیٹر پہ ہے۔ ابھی تک کوئی بہتری نہیں ہوئی۔ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔ ایک سال ہی تو ہوا ہے ہماری شادی کو۔ وہ بہت اچھی ہے۔ اسے واپس بلا لیجیے پلیز۔ میری مدد کریں ”

ڈھیروں وائس میسجز میں سسکیاں اور کراہیں بھی شامل تھیں۔

”ہم عام لوگ ہیں ہمیں نہیں پتہ مختلف ٹیسٹوں کے نتیجے کا۔ میں نے پڑھنے کی کوشش کی ہے جب میں باہر سے ٹیسٹ کروا کر لاتا ہوں۔ اندر تو جانے نہیں دیتے۔ لیکن ڈاکٹرز نے کہا ہے کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے کسی بھی وقت۔ پلیز کسی ڈاکٹر سے بات کریں“

”آپ مجھے ساری رپورٹس بھیجو۔ اور اگر کسی ڈاکٹر سے بات کروا سکو تو اچھا ہے۔ اور سنو کسی پروفیسر کا نام پتہ چل جائے تو اور بھی اچھا ہو گا شاید کوئی جاننے والا مل جائے“

”پروفیسر تو صبح آتے ہیں پھر سارا دن تو ان کے ٹرینی ڈاکٹرز ہی کام کرتے ہیں“
”تشخیص کیا ہے اب؟“

”بتایا نہیں ٹھیک طرح۔ شاید پھیپھڑوں میں انفیکشن چلی گئی ہے۔ جو کچھ بھی ہوا، ہمارے اپنے شہر میں ہوا۔ اب ہر طرح کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ میں نے کہا ہے ان کو، جو بھی ٹیسٹ ہونا ہے جہاں سے بھی، میں کرواؤں گا۔ بس اسے زندگی ملنی چاہیے۔

گائنی پروفیسر کا نام مجھے نہیں پتہ۔ اس وقت رات کے بارہ بجے ہیں۔ صبح کسی سے پوچھوں گا ”

ہولی فیملی میں گزرے دو برس ہمیں یاد آ گئے اور ساتھ میں یہ بھی کہ ہر وارڈ کے باہر پروفیسرز کے نام کی تختی لگی ہوتی ہے۔

”دیکھو بیٹا، آئی سی یو سے وارڈز کی طرف جاؤ۔ وہاں جتنے بھی پروفیسرز کے نام تختیوں پہ لکھے ہوں ان کی تصویر لے کر ہمیں بھیج دو“

”جی میں ابھی جاتا ہوں“
دس منٹ کے اندر سب کے ناموں کی تصویریں ہمارے میسنجر میں۔

واہ بھئی، ہماری دوست پروفیسر لبنی اعجاز موجود ہیں یہاں تو۔ 2003 کا وہ زمانہ یاد آ گیا جب وہ پروفیسر اسلم کے ساتھ اسسٹنٹ پروفیسر تھیں اور ہم سینئیر رجسٹرار۔ وہ باتیں سننے کی شوقین، ہم باتیں بگھارنے کے۔ نت نئے لباس ان کا بھی شوق، ہمارا بھی، وہ بھی دو بیٹیوں کی ماں، ہم بھی۔ وہ بھی فاطمہ جناح میڈیکل کالج کا چراغ، ہم بھی۔ مشہور گائناکالوجسٹ پروفیسر فخر النسا کی بھتیجی۔ یہاں ہم مار کھا گئے کہ اکلوتی پھوپھی ذہین تو بہت تھیں مگر سادات کی بیٹیوں کے لیے نام لکھ لینا ہی کافی تھا۔

رات کے بارہ بجے تھے سو فون کرنے کی بجائے میسیج کرنا ہی ٹھیک تھا۔
”دیکھو بیٹا، میں نے پروفیسر لبنی اعجاز کو میسیج کر دیا ہے۔ اب ان کے اور اللہ کے حوالے“
”میم، آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں؟“
”ضرورت نہیں بیٹا“
اگلی صبح واٹس ایپ میں ڈاکٹر لبنی کا جواب آ چکا تھا، میں دیکھتی ہوں۔
دوپہر کو شوہر کا وائس میسج پھر۔
”میم، گائنی کی پوری ٹیم آئی۔ سب آپ کو سلام کہہ رہے تھے۔ ہمارا بہت زیادہ خیال رکھا جا رہا ہے“
”تشخیص کیا ہے؟“
”میم، کہہ رہے ہیں کہ پھیپھڑے کام نہیں کر رہے اور خون بہت پتلا ہو گیا ہے“
”کووڈ تو نہیں؟“
”نہیں جی“

سوچا ڈاکٹر لبنی سے پوچھ لیتے ہیں۔ علم ہوا کہ مریضہ ARDS کے ساتھ ہولی فیملی پہنچی تھی۔ ایکیوٹ ریسپائٹری ڈسٹریس سنڈروم ایک ایسی بیماری جس میں انفیکشن پورے جسم میں پھیل جاتی ہے اور پھیپھڑے سانس کھینچنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس بیماری میں مریض کی شرح موت تیس سے پچاس فیصد ہے۔ یعنی اگر شدت کم ہے تو تین میں سے ایک اور شدت زیادہ ہے تو دو میں سے ایک کو ضرور موت لے اڑے گی۔

تیس اگست تک ہمیں شوہر کے پیغام آتے رہے کہ ابھی مریضہ وینٹ پہ ہی ہے اور پھر یہ سلسلہ رک گیا۔
دل بوجھل سا تھا۔ کئی بار سوچا کہ پوچھیں لیکن پھر رک گئے۔
تیرہ ستمبر کی شام اسی اکاؤنٹ میں بہت سے وائس میسج موجود تھے۔
پہلے دل کچھ زور سے دھڑکا، نہ جانے کیا خبر ہے؟ پھر سوچا کہ سننا تو ہے ہی، چلو ہمت کرو۔
کلک کلک۔ میسیج ڈاؤن لوڈ ہو رہا ہے۔ انٹر نیٹ کے سگنلز آہستہ ہیں اور ہمارے دل کی دھڑکن تیز، تیز۔

ہو گیا ڈاؤن لوڈ، چلو اب انگلی رکھو اور پلے دباؤ۔ کیا جادو کا کھلونا ہے یہ سمارٹ فون اور یہ میسنجر، واٹس ایپ۔ کیا کبھی سوچا تھا ہم نے کہ ایسے جڑ جائیں گے دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے لوگ۔

کاش ابا زندہ ہوتے، کاش جب لاہور پڑھنے گئے تھے تب یہ سمارٹ فون ہوتا، روز اماں ابا سے باتیں کرتے۔ چھ طویل برس جن پہ دوری لکھی گئی اور دوری کا مطلب حقیقی دوری، نہ فون، نہ وڈیو کال، نہ کمپیوٹر۔ کچھ بھی تو نہیں۔ بس ہفتہ واری ایک خط اور بس۔ اب پیاس کیسے بجھے؟ مسافر تو لوٹ گئے بہت جلدی میں تھے شاید۔

ایک کمزور تھکی ہوئی آواز۔

”میم میں بچ گئی ہوں۔ وینٹ پر ڈھائی ہفتے رہی ہوں۔ بہت کمزوری ہے لیکن مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا ہے اور آپ کے توسط سے پروفیسر لبنی اعجاز کا بھی۔ انہوں نے مجھے بچا لیا“

”شکر ہے، ہوا کیا تھا؟“

میم، درد تھا پیٹ میں، رات کے ڈھائی بجے ڈی ایچ کیو پہنچے۔ نرس نے معائنہ کر کے بتایا کہ بچے کی ٹانگیں ویجائنا میں آ چکی ہیں۔ اب ڈرپ لگے گی اور پھر بچہ نکل آئے گا۔ ایسا ہی ہوا لیکن پھر بہت خون نکلا۔ نرس نے میرے اندر کی صفائی کی۔ پھر مجھے وارڈ بھیج دیا۔

وارڈ میں کچھ دیر ٹھیک رہی لیکن پھر اندر سے خون نکلنا شروع ہوا اور اتنا خون تھا کہ میں اس میں لت پت تھی۔ میں تو بے ہوش ہو چکی تھی۔ اسی بے ہوشی میں مجھے پنڈی ریفر کیا گیا۔ پنڈی میں رحم کی صفائی دوبارہ ہوئی۔ پتہ چلا کہ ہمارے شہر والوں نے نامکمل صفائی کی تھی اور شاید گندے اوزار استعمال کیے تھے جس سے انفیکشن پورے جسم میں پھیل گیا۔

میں گھر آ گئی ہوں لیکن ابھی اچھی طرح بات نہیں کر سکتی۔ آپ پروفیسر لبنی کو میرا پیغام پہنچا دیں۔

اس مریضہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چھوٹے شہروں میں صحت کے نظام کی کیا حالت ہے؟ ڈاکٹرز اور نرسز کی تربیت ناقص، ہسپتالوں میں صفائی کا انتظام نہ ہونے کے برابر، بلڈ بینک خالی۔

عورت کی زندگی جو تمام عمر زچگی کی پیچیدگیوں سے بار بار گزرتی ہے، کبھی موت سے ہار مانتی ہے اور کبھی موت کی سرحد سے واپس آتی ہے، اس کے متعلق کسی پالیسی میں کوئی جگہ نہیں۔

فالتو مہرہ ہے، پٹ گیا تو اور آ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments