بولان ریلوے کا شکستہ پل


7مئی کو وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ رواں سال ملک میں مون سون میں معمول سے زیادہ بارشیں ہو سکتی ہیں اور سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا تھا، اس سے پہلے موسمیات کے ایک ایشین ادارے بھی ایسی ہی پیشین گوئی کی تھی اور اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بلوچستان اور سندھ سے معمول سے ہٹ کر بارشیں ہو سکتی ہیں، خیبرپختونخوا کے جنوبی اور بلوچستان کے شمالی علاقوں کا اس میں خصوصی ذکر شامل تھا، مون سون کے پہلے اسپیل میں شمالی بلوچستان کے مختلف علاقے شدید متاثر ہوئے جن میں قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، پشین و دیگر اضلاع شامل تھے، ان اضلاع میں مختلف واقعات میں متعدد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، فصلات تباہ ہوئیں، مکانات منہدم ہوئے، مختلف علاقوں میں ڈیمز میں شگاف پڑنے سے سیلابی ریلے آئے، بلوچستان کے مختلف ڈیموں جن میں دس لاکھ ایکڑ فٹ پانی کھڑا ہونے کی گنجائش تھی وہاں بارہ لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوا، لیکن اگست میں ہونے والا اسپیل نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے، اگست کے آخری عشرے میں ہونے والی بارشوں نے صوبے کو مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دیا، 30 گھنٹوں سے زائد جاری بارش نے تمام اضلاع میں تباہی مچا دی، پی ڈی ایم اے نے ابتدائی رپورٹس میں بتایا تھا کہ دو مجموعی طور پر تین سو کے قریب افراد جاں بحق، ہزاروں کی تعداد میں مکانات تباہ ہوئے، لاکھوں مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے، محکمہ زراعت کے مطابق صوبے میں صرف زرعی شعبے کو 98 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا، جولائی کے مہینے میں ہونے والے نقصانات کے حوالے سے انہوں نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے حکومت کو 52 ارب روپے منظور کرنے کے لئے سمری بھجوائی تھی لیکن اگست کے اسپیل نے نقصانات کو ایک کھرب تک پہنچا دیا

25 اگست کو ہونے والی بارش (جو تیس گھنٹے تک جاری رہی) نے صوبے کے اکثر اضلاع کو پچاس سال پیچھے دھکیل دیا، کئی اضلاع میں درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، لوگوں کی جان و مال کو وہ نقصان ہوا جو شاید 35 کے زلزلے میں بھی نہیں ہوئے ہوں گے

بارش کے بعد بلوچستان میں مواصلاتی نظام درہم برہم ہوا، بلوچستان کا تمام صوبوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوا، 1890 میں تعمیر ہونے والا ریلوے پل بھی بہہ گیا جس کے باعث ریلوے سروس بھی معطل ہوئی (تاحال معطل ہے ) ، ٹرانسمیشن لائن ٹرپ ہو گئے، بارشوں سے متاثرہ علاقوں میں بجلی کے ٹاور گر گئے، دادو خضدار ٹرانسمیشن لائن بند ہوا، صوبے کے تمام اضلاع تاریکی میں ڈوب گئے، صرف کوئٹہ کو متبادل ذرائع سے تین سے چار گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی رہی، یہ سلسلہ دس دن سے جاری رہا، بی بی نانی کے مقام پر پل ٹوٹنے کے بعد کوئٹہ کا سبی سے بھی رابطہ منقطع ہو گیا، جن بڑی قومی شاہراہوں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا وہاں بھی سیلابی ریلوں کی وجہ سے ٹریفک جزوی طور پر بھی بحال تھی، بی بی نانی کے قریب 12 انچ کی گیس پائپ لائن بھی سیلابی ریلے میں بہہ گئی جس کے بعد کوئٹہ سمیت مختلف اضلاع کو گیس کی فراہمی معطل رہی، گیس کی سپلائی 4 ستمبر کو بحال ہوئی، پی ٹی سی ایل اور موبائل نیٹ ورک سسٹم بھی بیٹھ گیا، جس کے باعث متاثرین کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا

اب تو مختلف شاہراہوں کو ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا ہے لیکن مسئلہ اب تک مستقل طور پر حل نہیں ہوا ہے جس پر کام تاحال جاری ہے

چیف سیکرٹری بلوچستان نے گزشتہ ہفتے وزیراعظم اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں بارشوں کا سلسلہ 13 جون سے شروع ہوا جس میں اب تک 270 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، صوبے میں 13 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں جبکہ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق 1 لاکھ 85 ہزار مکانات متاثر ہوئے ہیں صوبے میں اب تک 5 لاکھ مویشی اور 1 لاکھ مرغیاں بھی ہلاک ہو چکی ہیں۔ چیف سیکرٹری نے کہا کہ بلوچستان میں سیلاب کے باعث اب تک 9 لاکھ ایکڑ زرعی زمین بھی سیلاب سے تباہ ہوئی ہے جبکہ ہزاروں کلو میٹر روڈ، انفراسٹرکچر، ریلوے اور سڑک کے پل متاثر ہوئے ہیں

ریلوے کا جو پل شدید بارشوں کی وجہ سے گر گیا تھا وہ 1890 میں انگریزوں نے بنایا تھا، اس منصوبے پر کام شروع کرنے سے قبل برطانوی حکومت اور خان آف قلات کے درمیان ”سندھ قندھار اسٹیٹ ریلوے“ کے نام سے معاہدہ ہوا، ریلوے لائن کے لئے درہ بولان میں زمین اجارہ داری پر حاصل کی گئی تھی، خان آف قلات کی جانب سے ریلوے لائن کی تعمیر کے لئے ٹریک کی دونوں جانب دو سو گز اور اس کے علاوہ ریلوے اسٹیشنوں کے لئے زمین برطانوی حکومت کو بطور تحفہ فراہم کی تھی، سندھ سے ڈھاڈر تک سٹینڈرڈ سائز کی لائن بچھائی گئی، اس کے بعد دشت تک کم کم چوڑائی والا ٹریک بچھایا گیا، کم چوڑائی والی لائن کے لئے بعض سرنگ آج بھی بولان کے مقام پر موجود ہیں، 1890 میں شدید بارشوں کی وجہ سے بعض پل اور لائن بہہ گئی تھی لیکن اس پر کام جاری رہا اور 1895 میں یہ منصوبہ مکمل ہوا اور دو سال بعد اس ریلوے ٹریک پر ٹرین چل پڑی۔

اس منصوبے کو دنیا کا مشکل ترین منصوبہ بھی قراردیا گیا تھا بعد میں اس لائن کو کوئٹہ کے ساتھ منسلک کیا گیا، اس سے قبل تاریخ میں پہلی بار 27 مارچ 1887 کو ٹرین کوئٹہ پہنچی تھی۔ بولان میں یہ ٹریک بچھانے سے قبل انگریزوں نے سبی سے سپین تنگی، ہرنائی، شاہرگ، کھوسٹ، کچھ اور بوستان سے ہوتے ہوئے کوئٹہ تک لائن بچھائی تھی، اس وقت درہ بولان خان آف قلات کی ریاست کا حصہ تھا اور ان دونوں کے درمیان کوئی معاہدہ بھی نہیں ہوا تھا۔

سبی سے ہرنائی اور بوستان تک لائن بچھانا دنیا کا مشکل ترین منصوبہ تھا اس کے لئے برطانیہ سے ریلوے لائن اور آئینی پلوں کی تعمیرات کے لئے ماہر میجر جنرل براؤن کو خصوصی طور پر بلایا گیا تھا، سبی سے بابر کچھ تک علاقوں میں آبی گزرگاہیں تھیں، ان علاقوں میں تین سرنگ اور تین پل تعمیر کر کے ریلوے لائن گزاری گئی، ناکس اور شاہ رگ تک چارپل تعمیر کیے گئے اور کھوسٹ سے درگئی تک مزید چار پل تعمیر ہوئے، اس کے بعد دنیا کا مشکل ترین علاقہ شروع ہوا، سنگلاخ پہاڑوں سے ریلوے لائن گزارنا کوئی آسان کام نہیں تھا، ایک جگہ پر آ کر کام بھی روکنا پڑ گیا

اس جگہ پر دو پہاڑوں کے درمیان لائن ملانے کے لئے 220 فٹ پل بنانا تھا، لائن کو ایک پہاڑ کے سرنگ سے گزار کر دوسرے پہاڑ میں گزارنا تھا، اس مقام چپررفٹ کہا جاتا ہے، جس کی نشاندہی ایک مقامی چرواہے نے کی تھی، یہ جگہ سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع ہے، یہاں پل کی تعمیر میں ہزاروں مزدوروں نے حصہ لیا، منصوبے پر کام کے دوران سینکڑوں مزدور حادثات اور وبائی امراض کی نذر ہو کر اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے، بعض بزرگوں کے مطابق یہ تعداد پندرہ سو سے بھی زیادہ تھی، اس ریلوے پل کو ایک

شاہکار بھی کہا جاتا ہے، پل کو چپررفٹ کے نام دینے کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے، کہا جاتا ہے کہ پل تعمیر کرنے والے انجینئر کا نام رفٹ جبکہ پل کی تعمیر کے لئے جگہ کی نشاندہی کرنے والے چرواہے کا نام چپر تھا، اور ان دونوں کے نام پر ریلوے کے اس عظیم پل کو چپررفٹ کا نام دیا گیا، 1942 میں شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے پل گرگیا اور پھر اس کی تعمیر کبھی نہ ہو سکی، پل کا افتتاح برطانوی شاہی جوڑے نے کیا تھا۔

زیارت سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی صادق خان کا کہنا ہے کہ انگریز سامراج کو یقین ہو گیا تھا کہ ہم یہاں زیادہ دیر تک حکمرانی نہیں کر سکتے، اب ہمارا یہاں رہنا مشکل ہو گیا ہے، انہوں نے جانے سے دو سال قبل بوستان تا ہرنائی ریلوے لائن کو اکھاڑنا شروع کیا اور ساری لائن اکھاڑ دی، ان کا خیال تھا کہ اس خطے میں جنگ ہونے کی صورت میں یہ ایک محفوظ راستہ ہو گا، فوج کو یہاں نقل و حرکت میں آسانی ہوگی اور انہیں اس راستے پر کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہو گا، اس لئے سازش کے تحت اس لائن کو اکھاڑ دیا۔

1887 میں ایک اور منصوبے بوستان سے چمن تک لائن بچھانے کے منصوبے کا آغاز ہوا، اس ٹریک کو خواجہ عمران کے پہاڑی سلسلے سے گزارنا تھا، جس کے لئے 1888 میں کو ژک ٹنل پر کام شروع ہوا۔ انگریز انجینئر نے اس ٹنل کی تعمیر کے لئے تین سال کا وقت دیا تھا، ہزاروں مزدوروں کی دن رات محنت کے بعد آخر وہ دن آ گیا جس کا انگریز انجینئر نے وعدہ کیا تھا لیکن اس دن بدقسمتی سے حقیقت سامنے آئی، دراصل بات یہ تھی کہ دو نوں اطراف کی سرنگیں ایک دوسرے کے بالکل سامنے نہیں تھیں، پروجیکٹ پر کام رک گیا، پل پر کام کرنے والے انجینئر نے دلبرداشتہ ہو کر پہاڑ سے چھلا نگ لگا کر خودکشی کی لیکن افسوسناک بات یہ تھی، عین اس کی خودکشی کے وقت دوسرے انجینئر نے ایک جوڑ کے ذریعے دونوں سرنگوں کو آپس میں ملا دیا اور یہ منصوبہ اسی روز مکمل ہوا جس دن کا انگریز انجینئر نے وعدہ کیا تھا۔ اس ”خطرناک“ جوڑ کی خطرناکیت کم کرنے کے لیے سرنگ میں ایک گھنٹی لگا دی گئی۔ جونہی ٹرین سرنگ میں داخل ہوتی ہے وہ گھنٹی بجنا شروع ہوجاتی ہے

سندھ سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے افغانستان اور ایران کی سرحد تک ریلوے ٹریک بچھانے کا اصل مقصد برطانوی حکومت کو دونوں ممالک سے خوف تھا کہ وہاں سے ہم پر حملے نہ ہوں (ایران کی سرحد تک لائن بچھانے کا منصوبہ 1902 میں شروع ہوا اور اگلے بیس سال میں منصوبہ مکمل ہوا، لائن زاہدان تک بچھائی گئی)

جس وقت کوئٹہ سے چمن تک ٹرین شروع کا آغاز ہوا اس وقت برطانیہ کو گریٹ گیم میں شکست ہوئی تھی اور افغانستان سے نکل گئے تھے

نوٹ۔ بلوچستان میں ریلوے کی تاریخ کے حوالے سے چند معلومات ہمارے پیارے دوست عثمان قاضی صاحب کے والد محترم قاضی فضل الرحمان صاحب کی کتاب ”روداد ریل کی“ اور دیگر ذرائع سے حاصل کی گئی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments