نگہت کی کہانی… بس اب اور نہیں؟


سوچا بہت سوچا کہ بس اب اور نہیں لیکن پھر وہی سوچ کہ نگہت کی بات سن تو لوں۔ اگر اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ ہمدردی کی مستحق ہے۔

 اس کے فلیٹ میں ہم آمنے سامنے بیٹھے تھے۔

’’وہ رات عجیب سی رات تھی ْشدید بارش تھی تیز ہوایں چلیں۔ کئی درخت ٹوٹ گئے اور شہر میں کچھ جگہوں پر بجلی چلی گئی تھی’’۔ مجھے موسم خزاں کی وہ طوفانی رات یاد تھی۔ میرے علاقے کی بجلی بھی کچھ گھنٹوں کے لیئے منقطع ہوئی تھی۔

’’ ندیم نے مسیج کیا کہ اسے کچھ رقم چاہیئے۔ میں نے بنک سے نکلوا لی۔ اس کے اکاونٹ میں ڈال سکتی تھی لیکن وہ کیش ہی مانگتا تھا۔۔ رات ہو چکی تھی جب وہ آیا۔ میں رقم لینے کمرے میں گئی۔ ایک دم بجلی کڑکی پھر زور سے بادل گرجا اور پھر گھپ اندھیرا ہوگیا۔ اچانک ندیم نے اندر آ کر مجھے سینے سے لگا لیا۔ میں کسمسائی لیکن ندیم کی گرفت مضبوط تھی۔ باہر کی تاریکی نے مجھے بھی اندھیروں میں ڈبو دیا۔ ’’ نگہت کے آنسو بہہ رہے تھے۔

’’ باجی میں نے مزاحمت کی اسے منع بھی کیا لیکن شاید وہ کمزور لمحے تھے۔ وہ اندھیرے میں ہی لوٹ گیا۔ رقم کا لفافہ ساتھ لے جانا نہیں بھولا۔ صبح ہوئی تو میرا دل ڈوب گیا۔ اب کیا ہوگا؟۔۔۔ میری زندگی برباد ہو سکتی ہے۔ سلطان سے انہی دنوں جان پہچان ہوئی تھی۔ مجھے وہی ایک راستہ نظر آیا۔ اس سے بات کی شادی کی پیشکش بھی کردی اور کہا کہ فورا آجائے۔ وہ آگیا۔ شادی ہو گئی۔ ہمارا تعلق بھی بن گیا۔ مجھے اطمینان ہوا کہ اب مجھ پر کوئی غلط الزام نہیں لگے گا۔ سلطان بس اتنا جانتا تھا کہ میں بیوہ ہوں۔ اور میں نے کچھ نہیں بتایا۔ آگے کی کہانی تو آپ کو پتہ ہی ہے’’

سمجھ نہیں آ رہا کہ اپنا سر پیٹوں یا اس کا۔

’’تو تمہیں خود بھی نہیں پتہ کہ بچے کا باپ کون ہے؟ ’’

اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔

’’ تم نے سلطان کو استعمال کیا؟’’

’’ اور کیا کرتی؟ آپ ہی بتایں؟’’

’’پولیس میں جا کر رپورٹ کرتیں کہ تمہارا ریپ ہوا ہے’’

’’ ریپ؟ باجی جانے دیں۔۔۔ اب بتایں کرنا کیا ہے؟’’

’’یہ تو تمہیں ندیم سے ملنے پر ہی پتہ چلے گا’’

وہ ندیم سے ملنا نہیں چاہتی تھی لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ میرے بغیر جانے کو تیار نہیں تھی۔

ندیم سے ملاقت طے کی۔ سالار کو بے بی سیٹر کے پاس چھوڑا۔ ایک پارک میں ہم ملے۔ سردی شدید تھی اس لیئے پارک میں رش نہیں تھا۔ نگہت نے بے زاری سے ندیم کی طرف دیکھا۔

’’ اب کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟’’ میں نے کہا۔

’’ میں ڈی این اے کروانا چاہتا ہوں۔ مجھے پتہ چلے کہ وہ میرا بچہ ہے یا نہیں’’

’’اگر تم باپ نہ ہوئے تو پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں لیکن اگر ہوئے تو کیا؟’’

’’ پھر میں اپنا حق مانگوں گا’’

’’کیسا حق؟ نگہت چیخ پڑی۔ ’’ سارے فرض میں ادا کروں اور حق تم جتانے آجاو’’

میں نے نگہت کو تحمل سے بات کرنے کو کہا لیکن وہ بپھری ہوئی تھی۔

’’ میرا حق ہے بچے سے ملنے کا۔ کبھی کبھار اسے اپنے پاس رکھنے کا۔ ’’

’’ہرگز نہیں’’ نگہت ایک بار پھر تڑپ گئی۔

’’ڈی این اے کروا لو نا پھر’’ ندیم نے جواب دیا۔ ’’اگر تم مجھے باپ کا حق نہیں دینا چاہتی تو مکان میرے نام کرو، میں سارے حق سے دستبردار ہو جاوں گا’’ اب تو مجھے بھی غصہ آنے لگا۔ کیسا شخص ہے، اولاد کی قیمت لگا رہا ہے۔

’’ تو رج کے کمینہ ہے۔ ’’ نگہت نے دانت پیسے۔ وہ بے غیرتی سے ہنس دیا۔

’’یہ تو بتاو تم دو سال تک چپ کیوں رہے؟ کہاں تھے اب تک؟’’ میں نے پوچھ ہی لیا۔

’’ ہاں بتاو اب خیال آیا تمہیں۔ ’’نگہت بھی چپ نہ رہی۔

’’وہ میں ایک مشکل میں پھنسا ہوا تھا۔ ’’

’’کیسی مشکل؟’’ میں نے اور نگہت نے ایک ساتھ پوچھا

’’ بس ایسے ہی۔۔۔ کچھ غلط فہمی تھی’’ وہ جھجھک رہا تھا۔

’’ پوری بات بتاو اور سچ سچ بتاو’’ میں نے غصہ سے کہا۔

’’ ایک پب میں دوستوں کے ساتھ تھا۔ کچھ لڑکیاں بھی تھیں۔ وہاں پولیس آ گئی۔ ایک لڑکی نے الزام لگایا کہ میں نے اسے تنگ کیا۔ پولیس نے اس کی بات پر یقین کر لیا۔ آپ کو پتہ ہے نا پولیس کیسے لڑکی کی بات مان لیتے ہیں۔ بس کیس ہو گیا۔ مجھے سزا ہو گئی۔ میں جیل میں تھا۔ باہر آیا تو پتہ چلا کہ نگہت نے طلاق لے لی ہے۔ اس کے گھر گیا تو وہاں کرائے دار تھے کوئی انڈین فیمیلی تھی’’

’’ تو ہے ہی ایسا بد نیت۔ لڑکی ٹھیک کہہ رہی ہو گی’’ نگہت بولی۔

’’ اور تو بڑی نیک پروین ہے’’ اس نے بھی برابر کا جواب دیا۔

’’ تیرے کالے کرتوت۔۔ تو باز ہی نہیں آتا’’

میں نے دونوں کو سمجھایا کہ اصلی مسلئہ پر بات کرو۔

’’ نگہت کی شادی کا مجھے پتہ تھا۔ بچہ ہوا یہ بھی جانتا تھا لیکن جب جیل میں تھا اور میں نے سوچنا شروع کیا۔ تو مجھے شک ہوا’’

ندیم ڈی این اے کروانے پر اڑا ہوا تھا۔ نگہت ڈری ہوئی تھی کہ اگر ندیم باپ نکل آیا تو وہ ایک مستقل عذاب بن کر اس کے سر پر رہے گا۔ اس سے چھٹکارا پانے کے لیئے اسے مکان کی قربانی دینی ہو گی۔

طے یہ ہوا کہ یہ سارا مرحلہ ایک وکیل کے مشورے سے کیا جائے۔ نگہت کے پرانے وکیل سے رابطہ کیا اور وقت لیا۔

ہم وکیل کے دفتر پہنچ گئے۔ وکیل نے بھی ندیم کی بات کی تائید کی کہ ڈی این اے تو کروانا پڑے گا۔ ندیم عدالت کے ذریعہ حکم حاصل کر سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ باہمی رضامندی سے یہ کام کر لیا جائے۔ نگہت بہت پریشان تھی۔ وکیل نے تفصیل سے بات کی۔

اگر ندیم باپ نہیں ہے تو اس کے لیئے پہتر ہے کہ وہ نگہت سے دور رہے گا اور آئیندہ کسی قسم کا کوئی رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کرے۔ نگہت عدالت سے ریسڑینینگ آرڈر بھی لے سکتی ہے۔ لیکن اگر ندیم ہی بچے کا باپ ہے تو اس صورت میں ندیم کو حق بھی ملے گا اور اسے اپنے فرائض بھی ادا کرنے ہوں گے۔ بچے کا ماہانہ خرچہ ادا کرنا ہوگا۔ اگر ندیم چائیلڈ سپورٹ کی ادائیگی نہ کرے یا اس میں تاخیر کرے تو بحکم عدالت اس کے آمدنی سے بچے کا خرچہ ماں کو مل جائے گا۔ نگہت پر بھی یہ لازم ہو گا کہ وہ بچے کو باپ سے ملنے دے۔ بچے کی پرورش، تعلیم اور اس کی پروگرس سے ندیم کو آگاہ کرتی رہے۔ بچے سے باپ کا کتنا رابطہ ہو اور کیسے ہو یہ بھی باہمی رضامندی سے طے کرلیا جائے گا۔

ندیم نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اس پر فرائض بھی لاگو ہو سکتے ہیں۔ وہ تو مانگنے آیا تھا یہاں دینا پڑ رہا ہے۔ وکیل نے ندیم سے یہ بھی کہا کہ وہ جو اپنے حقوق سرنڈر کر نے کے بدلے مکان مانگ رہا ہے، یہ بھی جائز نہیں اور بلیک میلینگ کے زمرے میں آتا ہے۔ کیس عدالت میں گیا تو اس بار لمبی سزا ہو گی۔ وہ پہلے بھی نگہت کو بلیک میل کرتا رہا ہے۔ پھر وکیل نے ندیم سے سوال کیا۔

’’ کیا اب بھی ڈی این اے کروانے پر اصرار ہے؟’’

وہ تو چپ رہا لیکن نگہت بول پڑی۔

’’ میں کروانا چاہتی ہوں۔ مجھے بھی پتہ چل جائے اور اگر یہی باپ ہے تو کرے اپنے فرض پورے۔ دے خرچہ بچے کا۔ ’’

’’ لوگوں کو پتہ چل جائے گا۔۔ آگے ہی تو اتنی بدنام ہے’’ ندیم نے گھٹیا پن سے کہا۔

’’ اب نہیں ڈرتی میں۔ کرو جو کرنا ہے’’ وہ ڈٹ گئی۔

اگلا مرحلہ ڈی این اے کا تھا۔ ایک پرائیوٹ کلینک کے ذریعہ ہنگامی حالت میں ٹسٹ کروایا گیا۔ سالار اور ندیم کا سواب ٹسٹ ہوا اور اسے لیب میں بھیجا۔ دو دن بعد رپورٹ آنی تھی۔ ٹسٹ کی فیس وکیل نے ندیم کو ادا کرنے کو کہا کیونکہ یہ ٹسٹ اس کے کہنے پر ہو رہا تھا۔ رپورٹ وکیل کو بھیجی جانی تھی۔ وکیل نگہت اور ندیم کی موجودگی میں اسے کھول کر پڑھے گا اور انہیں اس کی کاپی بھی دے گا۔

وہ دو دن نگہت کے تو سولی پر گذرے ہی لیکن میں بھی بے چین رہی۔ دو دن گذر گئے۔ تیسرے دن صبح صبح اس کا فون آیا’’ باجی وکیل کا فون آیا ہے رپورٹ آ گئی۔ دوپہر دو بجے بلایا ہے۔ سالار کو بے بی سیٹر کے پاس چھوڑوں گی پلیز میرے ساتھ چلیں’’

میں اسکول سے سیدھی وکیل کے دفتر پہنچی۔ نگہت باہر ہی مل گئی۔ سوجی ہوئی سرخ آنکھیں بتا رہی تھیں کہ رات بھر سوئی نہیں۔

’’ دل ڈوبا جا رہا ہے باجی’’ سوجی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ ندیم آ گیا اور ہم وکیل کے دفتر چلے گئے۔

وکیل نے بند لفافہ دکھایا۔ دونوں کی اجازت سے کھولا۔ نگہت نے میرا ہاتھ زور سے پکڑ لیا۔ سب دم سادھے بیٹھے تھے۔ وکیل نے رپورٹ پڑھی۔ ندیم کی طرف دیکھا۔ ’’ ندیم آپ بچے کے باپ نہیں ہیں’’ نگہت میرے کندھے سے لگ کر سسکیاں لینے لگی۔ ندیم نے سر جھکا لیا۔ وکیل نے رپورٹ کی کاپیاں دونوں کو دیں۔

’’باجی کیا اب میری زندگی پرسکون گذرے گی؟’’ واپسی پر اس نے پوچھا۔

’’ہاں۔ شاید۔ ’’

جانے سے پہلے ملنے آئی۔ گلے لگ کرخوب روئی۔

’’ اپنا خیال رکھنا اور سالار کا بھی۔ حال چال بتاتی رہنا’’

’’ جی باجی کوئی بھی بات ہو گی آپ کو بتاوں گی۔۔ آپ ہی تو ہیں میری اس پوری دنیا میں۔ کوئی ضروری بات ہو گی تو آپ کو ہی بتاوں گی’’

جی چاہا کہہ دوں نہیں اب نہیں۔ اب کوئی ضروری بات نہ کہنا۔ لیکن کہہ نہ سکی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).