جنگ ستمبر کے شہدا کو سلام


یہ نصف صدی کاقصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں 6 ستمبر 1965 ء کی صبح 3 بجے بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا لیکن پاکستان کی مسلح افواج نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر لاہور کی جانب بڑھنے والے بھارتی فوج کے قدم روک دیے اور بھارتی جرنیلوں کا جیم خانہ کلب میں ”جشن فتح“ منانے کا خواب چکنا چور کر دیا 57 سال قبل بھارت نے پاکستان کی بین الاقوامی سرحد عبور کر کے جارحیت کا مرتکب ہوا تھا پاکستانی قوم بھارتی جارحیت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوا بن گئی تھی جنرل ایوب خان کے تاریخی الفاظ ”ہندوستان کو معلوم نہیں اس نے کس قوم کو للکاراہے“ نصف صدی گزرنے کے باوجود آج بھی ہمارے کانوں میں گونج رہے ہیں میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال روڈ راولپنڈی میں فرسٹ ائر کا طابعلم تھا میں پاکستان کے ان فوجی افسروں اور جوانوں کو خراج عقید ت پیش کرنے طلبا ء کا ایک وفد لے کر قصور کے پاس گنڈا سنگھ باڈر پہنچ گیا جہاں پاکستان کی مسلح افواج نے کھیم کرن پر قبضہ کر لیا تھا پاکستان کی سرحدوں پر مسلح افواج کے افسران اور جوانوں نے شجاعت اور بہادری کی داستانیں رقم کی تھیں جنگ ستمبر میں لازوال قربانیاں دینے والوں کو یاد رکھنے کے لئے حکومت پاکستان نے 6 ستمبر کو یوم دفاع اور 7 ستمبر کو یوم فضائیہ کے طور منانے کا فیصلہ جو 57 سال گزرنے کے بعد کسی نہ کسی صورت برقرار ہے ہر سال نہ صرف شہدائے ستمبر کے مزاروں اور یادگاروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں بلکہ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں یہ بات قابل ذکر ہے پاکستان کی مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں نے 1965 اور 1971 ء جنگوں سے زیادہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں اگر آج پاکستان کسی حد تک دہشت گردی سے محفوظ ہے تو اس میں ہمارے ان افسروں اور جوانوں کی قربانیوں کی وجہ سے ہے ابتدا میں یوم دفاع اور یوم فضائیہ جہاں حکومتی سطح پر جوش و خروش سے منایا جاتا تھا ریس کورس راولپنڈی اور مختلف شہروں میں عسکری قوت کا مظاہرہ کیا جاتا تھا اور بھارت سے چھینے ہوئے اسلحہ کی نمائش بھی کی جاتی تھی جس سے عام پاکستانیوں کا مورال بلند ہوتا تھا لیکن وقت کے ساتھ اس جوش و خروش میں ”امن کی پالیسی“ کے ٹھیکیداروں نے اسے پاکستان کا جنگی جنون قرار دے کر کئی پروگرام ترک کرنے پر مجبور کر دیا جب پاکستان نے 1998 ء میں ایٹمی دھماکے کیے تو فیض آباد میں چاغی پہاڑ کا ماڈل اور کے آر لیبارٹیز کے قریب میزائل نصب کر دیا گیا یہ ماڈل دراصل ہماری عسکری قوت کا مظہر تھے جن کی تنصیب پر بھارت نے شدید احتجاج کیا پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے خائف قوتوں نے چاغی ماڈل کو اسلام آباد سے ہٹانے پر مجبور کر دیا بالآخر حکومت پاکستان سڑک کی توسیع کی آڑ میں چاغی پہاڑ کا ماڈل ایف 9 پارک (فاطمہ جناح پارک ) لے گئی

راقم السطو ر غیر نصابی سرگرمیوں میں غیر معمولی دلچسپی لیتا تھا لہذا گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال میں پہلا یوم دفاع 6 ستمبر 1966 ء کو منایا اس کے لئے رات کے تین بجے کا انتخاب کیا گیا کیونکہ اس وقت بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا بھارت کا خیال تھا کہ پاکستان کی سرحدوں اس وقت سوئے ہوں گے اور اس کی افواج صبح کا سورج طلوع ہونے پر لاہور میں داخل ہو چکی ہوں گی لیکن پاکستان کے مٹھی بھر فوجیوں نے بھارت کے ٹینکوں کو بی آر بی نہر سے آگے نہیں بڑھنے دیا اور پھر بھارت کوپسپائی پر مجبور کر دیا گورنمنٹ پاسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال کالج راولپنڈی کے زند ہ دل طلباء نے یوم دفاع کے موقع پر اپنے خون سے قراداد تحریر کی اوردفاع پاکستان کا عہد کیا پروفیسر وثیق احمد مرحوم سیاسیات کے استادتھے ان کی نگرانی میں یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا میں نے کالج سے فراغت کے بعد صحافت جائن کر لی توپھر یوم دفاع کی تقریب راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب میں باقاعدگی سے منعقد کی جانے لگی پچھلے چند سالوں سے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (دستور) اور راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کا وفد ہر سال 6 ستمبر کو کسی نہ کسی نشان حیدر کے مزارپر جا کر خراج عقیدت پیش کرتا ہے خطہ پوٹھوہار غازیوں اور شہداء کی سرزمین ہے سوار محمد حسین شہید نشان حیدر، کیپٹن سرور شہید نشان حیدر، میجر اکرم شہید نشان حید ر اور لانس نائیک محفوط شہید نشان حیدر کے مزارات خطہ پوٹھوہار میں ہیں گجرات راولپنڈی ڈویژن کا حصہ رہا ہے دو شہداء میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر اور میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر کا مدفن گجرات ہے اس لحاظ سے 10 میں سے 6 نشان حیدر کا اعزاز پانے والوں کاتعلق خطہ پوٹھوہار سے ہے ہم پچھلے کئی سالوں سے اسلام آباد سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر کہوٹہ روڈ پر پنڈملکاں میں لانس نائیک محفوظ شہید کے مزار پر حاضری دے رہے ہیں حکومت پاکستان نے پنڈ ملکاں کا نام پاک فوج کے بہادر سپوت لانس نائیک محفوظ شہید سے منسوب کیا لیکن علاقے کے کچھ تنگ نظر لوگوں نے گاؤں نام تبدیل کرنے کی مخالفت کی ان کے شو رشرابے کے بعد حکومت گاؤں کا نام تبدیل کرنے کا نوٹیفیکیشن واپس لینے پر مجبور ہو گئی جب تک لانس نائیک محفوظ شہید کے والد زندہ رہے وہ مزار پر حاضری دینے کے لئے آنے والوں کا خود استقبال کرتے اب وہ بقید حیات نہیں ہیں اب یہ فریضہ ان کے بھتیجے کرنل نوخیز معروف اور اسد معروف ادا کر رہے ہیں اسد معروف نے بتایا کہ ان کے چچا لانس نائیک محفوظ شہید کی شہادت کے وقت تنخواہ بہت کم تھی ان کے والد کو ان کی زندگی میں 1100 وپے ماہانہ شہید کی پنشن ملتی رہی جو ان کی وفات کے بعد بند کر دی گئی اس رقم کی بندش پنشن قانون کے مطابق کی گئی لیکن اس قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے نشان حیدر کے جائز وارثوں کو نہ صرف ہمیشہ کے لئے ایک معقول رقم اعزایہ کے طور پر ملنی چاہیے بلکہ ان کو دیگر ممالک میں نشان حیدر کے مساوی اعزازات حاصل کرنے والے شہداء کے برابر مراعات ملنی چاہیے۔ برطانیہ میں ”وکٹوریہ کراس“ بہادری کا سب سے بڑا اعزاز ہے یہ اعزاز نشان حیدر کے مساوی ہے انگریز کے دور میں بھی برصغیر پاک وہند میں جہلم کے ایک فوجی کو وکٹوریہ کراس مل چکاہے برطانیہ میں وکٹوریہ کراس حاصل کرنے والے فوجی کو گریڈ 22 کے افسر کے برابر مراعات دی جاتی ہیں نشان حیدر حاصل کرنے والے شہداء کو زرعی اراضی الاٹ تو کی گئی لیکن و غیر آباد تھی جس کو آباد کرنے کے لئے خاصا سرمایہ درکا رتھا بعض ورثا ء نے آدھی زمین بیچ کر الاٹ شدہ غیر آباد زمین کو آباد کیا لانس نائیک محفوظ شہید کے بڑے بھائی محمد معروف نے اس وقت آرمی چیف جنرل راحیل کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان سے ستدعا کی گئی تھی نشان حیدر کے ورثا ء کو ملنے والی اراضی کو سیراب کرنے کے لئے نہری نظام سے منسلک کیا جائے لیکن ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس معاملہ پر کوئی پیش رفت نہیں مجھے توقع ہے کہ حکومت پاکستان نشان حیدر کے اعزازات پانے والوں کے ورثاء کی مراعات میں اضافہ کرے گی نشان حیدر کے اعزات پانے والے شہداء کے مزاروں اور یادگاروں کی نہ صرف تزئین و آرائش کرے گی گی بلکہ ان کے مزاروں تک جانے والی شاہراہوں کو بھی از سرنو تعمیر کرے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments