موسم زیادہ گرم یا سرد ہو تو سوشل میڈیا پر نفرت زیادہ دکھائی دیتی ہے


کچھ دن پہلے فیس بک پر کچھ سال پرانی میری اپنی ایک پوسٹ سامنے آ گئی جس میں میں نے نارمن کی سٹی کونسل کے انتخاب میں حصہ لینے والی خاتون کی حمایت میں سائن چرانے والوں کو قانونی چارہ جوئی کی ایک دھمکی آمیز پوسٹ بنائی تھی جس میں لفظ ”ایس“ شامل تھا۔ حالانکہ جو بھی افراد ہمیں حقیقی زندگی میں جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ ہمارے منہ سے ہمیشہ پھول جھڑتے ہیں۔ وہ الیکشن کا وقت تھا اور امیدواروں کے سائن چرائے جا رہے تھے۔ اس کے لیے میں نے بہت شرمندگی محسوس کی اور فوراً ڈیلیٹ کا بٹن دبا دیا۔ لیکن آن لائن کچھ بھی لکھ دینے کے بعد وہ بات امر ہو جاتی ہے۔ شکر ہے کہ نہ ہم مشہور ہیں اور نہ ہی سیاسی امیدوار۔ لیکن کیا ہم میں سے کوئی بھی اپنے آن لائن رویے سے مکمل طور پر بری الذمہ ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب منفی ہے۔ کیا اس دن بہت گرمی پڑی تھی؟

ہماری نسل آج کی نسل کی طرح سوشل میڈیا پر پروان نہیں چڑھی تھی۔ ہم نے سوشل میڈیا کو بہت بعد میں جاکر استعمال کرنا شروع کیا۔ آج جس دنیا میں ہم سانس لے رہے ہیں اس کو دو دنیاؤں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک آف لائن دنیا اور ایک آن لائن دنیا۔ ان دونوں دنیاؤں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے پر  اثر انداز ہیں۔ آف لائن یا حقیقی دنیا میں ہم موسم اور جارحیت کے درمیان ربط سے پہلے سے ہی واقف ہیں جن کو مختلف سماجی ترتیبات میں بیان کیا گیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب گرمی زیادہ پڑ رہی ہو تو ہمارا تحمل کم ہو جاتا ہے، ہم خود کو چڑچڑا محسوس کرتے ہیں۔ بلکہ 1947 میں برٹش راج کے ایک دم سے جنوب ایشیا کو چھوڑ کر چلے جانے کا باعث بھی میں اس علاقے میں جون، جولائی اور اگست کی شدید گرمی کو سمجھا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں جناح نے بمبئی میں پراپرٹی خریدی تھی۔ کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ انگریز اتنی جلدی چلا جائے گا۔ اور پھر پارٹیشن کے فساد اور قتل و غارت گری کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر موسم بہتر ہوتا تو کیا یہ سب کچھ ہوا ہوتا؟ آج جب کہ زندگی کے ہر شعبے کی پہنچ سماجی میڈیا تک پہنچ چکی ہے، موسم کے اثرات آن لائن باہمی تنازعات کی ایک بڑی تعداد کا باعث دیکھے گئے ہیں۔ نفرت انگیز مواد آن لائن ایک عام مسئلہ بن گیا ہے جو ذہنی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے، خاص طور پر نوجوانوں اور پسماندہ گروہوں میں۔ جرنل لینسیٹ میں حال ہی میں ایک دلچسپ سٹڈی چھپی ہے جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر پر نفرت انگیز تحاریر کی موجودگی پر درجہ حرارت کے اثر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اور ان نتائج کی تشریح موسمیاتی تبدیلی، انسانی رویے اور ذہنی صحت کے درمیان تعلق کے تناظر میں کی گئی ہے۔

اس تجرباتی مطالعہ میں، تحقیق دانوں نے 1 مئی 2014 اور 1 مئی 2020 کے درمیان امریکہ بھر کے 773 شہروں سے تقریباً 4 بلین جیو لوکیٹڈ ٹویٹس پر مشتمل ڈیٹا سیٹ میں نفرت انگیز تحاریر کی شناخت کے لیے ایک نگرانی شدہ مشین لرننگ کا استعمال کیا۔ انہوں نے مقامی درجہ حرارت میں تبدیلیوں کے ساتھ نفرت انگیز ٹویٹس کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا۔

نتائج

نفرت انگیز ٹویٹس کا پھیلاؤ اعتدال پسند درجہ حرارت ( 12 سے 21 ڈگری سینٹی گریڈ) پر سب سے کم تھا اور زیادہ گرم اور سرد درجہ حرارت پر نفرت انگیز ٹویٹس کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا، جو 12·5 % تک پہنچ گیا۔ · سرد درجہ حرارت ( 6 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ) میں ان نفرت انگیز ٹوiٹس کی شرح تقریباً 12 فیصد دیکھی گئی اور جب درجہ حرارت کی انتہا ( 42 سے 45 ڈگری سینٹی گریڈ) تک پہنچی تو یہ نفرت والی ٹؤیٹس 22 فیصد تک بڑھ گئیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا کہ جب درجہ حرارت اعتدال  سے باہر تھا تو نفرت انگیز ٹویٹنگ سرگرمی کے تناسب میں بھی اضافہ ہوا۔ یعنی لوگ معمول سے زیادہ ٹویٹ کرنے لگے۔ نفرت انگیز ٹویٹس میں درجہ حرارت کے ساتھ تعلق مختلف آب و ہوا کے علاقوں، ہر قسم کی آمدنی والے افراد، مختلف مذہبی اور سیاسی عقائد رکھنے والے افراد، اور شہر کی سطح اور ریاستی سطح دونوں کے مجموعوں میں دیکھی گئی۔ تاہم، نفرت انگیز ٹویٹس کا سب سے کم پھیلاؤ کسی بھی علاقے کے وسطی مقامی درجہ حرارت کے ارد گرد مرکوز تھا۔

تشریح

یہ نتائج آن لائن نفرت انگیز مواد اور موسمی درجہ حرارت کے باہمی تعلق کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہر علاقے کے لوگ اپنے مقامی درجہ حرارت کے عادی ہوتے ہیں اور اس میں ہی خود کو نارمل محسوس کرتے ہیں۔ اگر مقامی لحاظ سے زیادہ گرمی یا زیادہ سردی ہو تو ان کا موڈ خراب ہو سکتا ہے۔ بات ایک چھوٹے موٹے تنازعے سے بڑھ کر قتل و غارت گری میں بدل سکتی ہے۔ دنیا میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اس اسٹڈی سے ہمیں یہ بھی سوچنے کا موقع ملتا ہے کہ ماحولیات میں خرابی اور زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے مستقبل میں کیا معاشرتی تبدیلیاں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ ذاتی طور پر ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایک مقامی الیکشن اتنا بڑا کوئی مسئلہ نہیں کہ اس پر اتنا غصہ کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments