ایک کہانی کچھ نئی کچھ پرانی دوسرا حصہ


زندگی پھر اپنی ڈگر پر رواں دواں ہو گئی۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ زندگی بھی پانی کی طرح کبھی رکتی نہیں اپنا راستہ خود بناتی ہوئی آگے ہی آگے نکلتی جاتی ہے۔ حلقے والوں کے معمولات بھی وہی رہے اور عام پبلک کے ان سے متعلق رویے میں بھی کوئی خاص فرق واقع نہ ہوا۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت نہ کی کہ وہ جو پہلے انسان تھے، اب کیسے اچانک انسان نہ رہے تھے۔ شاید ان میں کوئی ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ جیسا پاگل نہیں تھا جو یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو جاتا۔

یا شاید وہ وقت ابھی آیا نہیں تھا۔ البتہ اس کی بنیاد ضرور رکھ دی گئی تھی۔ زمیندار بلکہ نمبردار اس بات پر نازاں تھا کہ اس نے اس گنجلک سمسیا کا کیا خوب حل نکالا ہے اور اندر ہی اندر خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا کہ مذہبی طبقہ تو اب اس کی جیب میں ہے۔ اس کا جو سیاسی فائدہ اسے ہونے والا تھا وہ بے حد و بے حساب تھا۔ مگر افسوس، جب وقت آیا تو یہی دھارمک نیتا اس کے خلاف ہو گئے۔ اسے ماس خور مشہور کر دیا اور سب نے مل کر ایسا اکٹھ بنایا کہ زمیندار عرف نمبردار کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔

رفقاء نے بات چیت سے مسئلے کا حل نکالنے کا مشورہ دیا مگر اس نے رعونت سے رد کر دیا کہ ان مذہبی لیڈروں کی اس کے نزدیک ٹکے کی اوقات نہیں تھی۔ البتہ بعد میں جب حالات مزید دگر گوں ہوئے اور روز روز کے ہنگاموں سے نظام زندگی تلپٹ ہو کر رہ گیا تو اسے بات چیت کی تجویز سویکار کرتے ہی بنی مگر اب دیر ہو چکی تھی۔ کھشتری جاتی کے لوگ بھی جو قدیم سے دھرتی کے رکھشک رہے تھے اور زمیندار کے دست و بازو تھے، اب اس سے برگشتہ ہو چکے تھے۔

انھی کا ایک سرکردہ سورما اٹھا اور اپنے چند متروں کے ساتھ زمیندار کی ماڑی پر چڑھائی کر دی۔ زمیندار جز بز تو بہت ہوا مگر فقط دانت پیس کر اور خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ یہی لوگ اس کے احکامات پر عمل درآمد کروانے والے تھے۔ مگر اب معاملہ الٹ گیا تھا اور وہ اسے یہی بات بتانے آئے تھے کہ اب احکامات بھی انھی کے ہوں گے، لہٰذا اس کے لیے یہی بہتر ہے کہ گھر میں بند ہو کے بیٹھ جائے اور رام نام کی مالا جپے۔

بازاروں میں نئے بندوبست کی منادی ہونے لگی۔ زمیندار کے حامی سٹپٹائے، تلملائے اور پھڑپھڑائے مگر چند ایک کو ٹکٹکی پر چڑھایا گیا تو بیشتر نے چپ سادھ لی۔ عام جنتا کا اس سے کیا لینا دینا تھا اپنے کام دھندوں میں جٹ گئے۔ جلد ہی لوگ زمیندار کو بھول بھال کر نئے بندوبست کی شانتی کا لطف اٹھانے لگے۔ حلقے والوں کے معمولات وہی رہے البتہ ان کے مخالفوں کو کچھ عرصے کے لیے چپ سی لگ گئی۔ یہ چپ حلقے والوں کے لیے معاون ٹھہری اور ان کا پیغام غیر محسوس طریقے سے سوسائٹی میں سرایت کرنے لگا۔

یہ خاموشی مگر ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اندر ہی اندر ایک کھچڑی سی پک رہی تھی۔ کھشتری بندوبست کو کچھ عرصے بعد عوامی حمایت کی طلب نے ستایا تو دھارمک نیتاؤں کی ایک بار پھر بن آئی۔ اشارے کی دیر تھی، وہ آگے بڑھ بڑھ کر شاہ کے وفاداروں میں شامل ہونے لگے۔ شاہ بہت خوش ہوا اور جذب و مستی کی کیفیت میں ڈوب کر بولا : مانگو کیا مانگتے ہو؟ سب نے داڑھیوں میں انگلیاں پھیر کر دست بستہ عرض کی : حضور والا!

باقی تو سب خیر ہے۔ آپ کی راجشاہی میں انصاف کا بول بالا ہے۔ خلق خدا بھرے پیٹ کے مزے لوٹتی ہے مگر حلقے والوں کے باب میں آپ ضرورت سے زیادہ نرمی برت رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کی ریشہ دوانیاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ شاہ نے حیران ہو کر پوچھا : ”وہ کیسے؟ ہم انھیں انسانیت کے دائرے سے خارج تو کر چکے ہیں۔ اور آپ کو کیا چاہیے؟ بولے“ اسی بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے سرکار، اب دیکھیے نا! انسانیت کے دائرے سے نکالے جانے کے باوجود ان کا رہن سہن، بول چال، خوراک، لباس، چال ڈھال سب کچھ انسانوں جیسا ہی ہے ”۔“ تو پھر کیا کریں؟ ”سینا پتی نے حیران ہو کر بھنویں اچکائیں۔

لمبی داڑھیوں والے سنتوں نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کھنکار کر گویا ہوئے ”سرکار! نمبردار جی جیسے بھی تھے مگر ہمیں یہ کہنے دیجیئے کہ انھوں نے ان موذیوں کا بندوبست کر کے اپنے سورگ کا سامان کیا تھا۔ اب آپ کی باری ہے۔ بھلے قانون موجود ہے مگر اس کا پالن بھی تو ہو۔ اس سلسلے میں اگر آپ ایک فرمان جاری کر دیں تو سرکار کے جنموں کے پاپ دھل جائیں گے۔ جنتا بھی راضی ہوگی اور دھرم کی سیوا کا جو پن ملے گا وہ الگ۔ ہم دھرم واسی تو حکم کے غلام بن کر ہر کٹھنائی میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

رانا صاحب کو سوچتا چھوڑ کر وہ لوگ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ اس مدعے پر باقی بات چیت اب اگلی بیٹھک میں ہوگی۔ قصہ مختصر، سرکار جس کے مدارالمہام صرف سینا پتی ہی تھے اس بات پر تیار ہو گئی کہ ایک ایسا حکم جاری کیا جائے جو پہلے سے موجود قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور اس کی خلاف ورزی پر مواخذہ کر سکے۔ البتہ راجہ کا خطاب حاصل کرنے کی خواہش میں مبتلا سینا پتی جب اس الجھن کو سلجھانے میں ناکام رہے کہ آخر شاہی فرمان میں اچھے بھلے انسانوں کو انسانی بودوباش سے یکسر روک دینے کے لیے کن لفظوں کا سہارا لیا جائے تو انھوں نے مسودے کی تیاری کا کام بھی یہ کہتے ہوئے مذہبی پیشواؤں کے سپرد کر دیا کہ وہ مذہب کے معاملات میں دخل اندازی کے مرتکب نہیں ہونا چاہتے۔

لیجئیے جناب! بندروں کے ہاتھ استرا آ گیا۔ راجیہ کے سبھی نمائندہ سنتوں، رشیوں اور پنڈتوں نے سر جوڑ لیے۔ خاص اہتمام اس بات کا کیا گیا کہ کوئی مکتبہ فکر اس مشاورت میں شامل ہونے سے رہ نہ جائے۔ اس طرح مکمل باہمی رضامندی سے جو شاہکار وجود میں آیا وہ اپنی مضحکہ خیزی میں پچھلے قانون کو کہیں پیچھے چھوڑ گیا۔ اس کے مطابق حلقے والے چونکہ قانونی طور پر انسان نہیں تھے اس لیے ان کے بر سر عام انسانی اوصاف کا مظاہرہ کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی کیونکہ اس سے بقیہ انسانوں کی دلآزاری ہوتی تھی اور وہ مشتعل ہو کر کوئی انتہائی قدم اٹھا سکتے تھے۔ اس کے بعد ان سزاؤں کا ذکر تھا جو انسانوں جیسی حرکات کرنے پر ان لوگوں کے لیے مقرر کی گئی تھیں۔

راجہ جی نے مسودہ قانون پر سرسری نظر ڈالی اور اسے شاہی حکمنامے کا درجہ دے کر منادوں کے حوالے کر دیا جو ریاست کے طول و عرض میں اس کا ڈھنڈورا پیٹنے لگے۔

( جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments