مہسا امینی کا نوحہ کون لکھے گا؟


یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کے خلاف ایرانی عوام کی مزاحمت، جب اپنے عروج پر تھی تو آیت اللہ خمینی صاحب، امریکہ کے صدر جمی کارٹر کے ساتھ ایک لمبے عرصے سے رابطوں میں تھے اور یہ تجویز دی تھی کہ اگر صدر کارٹر ایرانی فوج پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ان کے اقتدار پر قبضے کو ہموار بنا دیں تو وہ ایرانیوں کو پرسکون کر دیں گے اور بدلے میں ایران میں امریکی مفادات اور شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم، بی بی سی فارسی سروس کے ممتاز صحافی کامبیز فتاحی کے مطابق 27 جنوری 1979 کو اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ خمینی نے، جو خود امریکہ کو ’شیطان بزرگ‘ کہتے تھے، واشنگٹن کو ایک خفیہ پیغام بھیجا تھا۔ جس میں صدر کارٹر کی انتظامیہ کو بڑے واضح الفاظ میں یہ پیغام دیا گیا تھا کہ ایران کے فوجی رہنما تمہاری بات سنیں گے لیکن ایران کے عوام صرف میرا حکم مانیں گے۔ خمینی نے اپنے پہلے پیغام میں وائٹ ہاؤس کو یہ بھی کہا کہ وہ اس اہم اتحادی کے جانے پر پریشان نہ ہو جس کے اس کے ساتھ 37 سال سے تعلقات ہیں۔ انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ بھی ان کے دوست رہیں گے۔

فتاحی کے مطابق آیت اللہ خمینی کے پیغام کا یہ حصہ امریکی حکومت کے ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والے دستاویزات میں موجود ہے۔ یہ دستاویزات سفارتی پیغامات، پالیسی میموز اور میٹنگز کے ریکارڈز پر مشتمل ہیں جو امریکہ کے خمینی کے ساتھ خفیہ رابطوں کے متعلق بتاتے ہیں۔ ان سے اس بات کا بھی تفصیلی ریکارڈ ملتا ہے کہ کس طرح خمینی نے امریکہ کی طرف احترام اور فرمانبرداری کی زبان استعمال کرتے ہوئے اپنی ایران واپسی کو یقینی بنایا تھا اور اس طرح صدر کارٹر کے قائل کرنے پر ایران کے آمر حکمران، محمد رضا شاہ پہلوی جو شاہ کے نام سے مشہور تھے، ’چھٹیاں گزارنے‘ کے لیے ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے ایران میں تمام عوامی قوتوں اور پارٹیوں نے مل کر رضا شاہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، بلکہ وہاں کی کمیونسٹ اور قوم پرست جماعتیں بہت پہلے سے انقلاب کی ہموار کر رہی تھیں۔ شاہ کے خلاف منظم تحریک کی منصوبہ بندی کا تمام کام ایران کی زیر زمین جماعت حزب تودہ نے سرانجام دیا تھا، لیکن چونکہ یہ ایک کمیونسٹ تنظیم تھی اور اسے سوویت یونین کی اعانت حاصل تھی تو امریکہ کسی صورت میں ایران کو ایک کمیونسٹ پارٹی کے حوالے کرنے پر رضامند نہیں ہو سکتا تھا۔

لہذٰا ایرانی انقلاب کے چوری کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ انقلاب کا ایندھن تو وہاں کے ترقی پسند، کمیونسٹ اور لبرل لوگ بنے، لیکن اقتدار تازہ دم ملاؤں کے سپرد ہوا۔ جنہوں نے انقلاب کے نام پر لوگوں کو سرعام چوک چوراہوں پر لٹکانے کا اہتمام کیا اور آگ و خون کا ایسا کھیل کھیلا کہ خمینی کے حامی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ: ہم دھوکے میں رہ گئے، ہمارا مقصد یہ نہیں تھا، ہم سے کچھ اور کام لے لیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خمینی استعمار اور آمریت کے خلاف جدوجہد کے رہنما کے طور پر نمودار ہوئے، لیکن حقیقت میں وہ پچھلے نظام سے بھی بدتر نظام کے بانی بن گئے۔

اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایران میں داڑھیوں کا ایک جنگل اگنے لگا۔ ملائیت کو فروغ حاصل ہوا اور ولایت فقیہ کے نام پر ایسے قوانین کا اطلاق کیا گیا جو ہیومن رائٹس کی عالمی تنظیموں کے مطابق صریحاً انسانی حقوق کے منافی قرار پائے گئے۔ عورتوں اور مردوں کے چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، حلیے اور لباس کو قانون کے دائرے میں داخل کیا گیا۔ خوف کی ایسی فضا قائم کی گئی، جس میں سانس لینا بھی دشوار ہے اور آج بھی آیت اللہ العظمیٰ کے دیس میں جب کسی مہسا امینی جیسی بچی کے سر سے دوپٹہ سرک جاتا ہے تو وہاں کی اخلاقی پولیس ایسے سر کو تن سے جدا کر کے اسلام کو زندہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ فردوسی اگر آج زندہ ہوتے تو ایسے ظلم اور بربریت کے خلاف ضرور تہران کی سڑکوں پر نکلتے، اپنا مجسمہ توڑ دیتے، دیوانہ وار ماتم کرتے، شاہ نامے کو آگ لگا دیتے اور مہسا کے غم میں ایک نوحہ تحریر کرتے۔

نوٹ: مضمون کی تیاری میں بی بی سی اور وکیپیڈیا سے مدد حاصل کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments