لارڈ پیار سے بچہ بگڑتا تو ہے لیکن!


میں گزشتہ بائیس سالوں سے وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوں۔ میری زیادہ تر پریکٹس کریمنل سائیڈ کی ہے۔ اکثر ڈیفنس کونسل کی حیثیت سے پروسیکیوشن کے خلاف ملزمان کی طرف سے ان کی ضمانتوں اور کیس کی پیروی کرتے ہوئے ان کو ضمانتوں پر باہر کرنے یا ٹرائل کروا کر بری کرنے بلکہ ہائی کورٹ میں اپیلوں تک بھی پیش ہوتا رہتا ہوں۔

لیکن کبھی کبھار ایسا کیس بھی آ جاتا ہے کہ ماں باپ اپنے کسی بگڑے ہوئے بچے کو جن کو نشے کی بھی لت پڑ چکی ہوتی ہے کو ضمانت یا بری کروانے کے بجائے خود پولیس کے حوالے کر کے ہم سے عدالت کے ذریعے جیل کسٹڈی کرواتے ہیں۔

جب ہم ان سے وجہ دریافت کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں پر اتر آتے ہیں باپ کہتا ہے ماں کے لاڈ پیار کی وجہ سے بگڑ گیا ہے اور ماں کہتی ہے کہ باپ نے ان کو سر پر چھڑایا ہے۔ باپ کہتا ہے کہ میں نے اپنی محدود آمدنی میں ان کو کسی چیز کی کمی محسوس ہونے نہیں دی۔ سارا دن محنت مزدوری کر کے گھر واپس آتا ہوں ماں کو چاہیے کہ بچے کو کنٹرول کرے اور ماں کہتی ہے کہ میں تو عورت ذات ہوں میں تو ان کو گھر میں کنٹرول کر سکتی ہوں لیکن باہر تو ان کے پیچھے گھوم پھر نہیں سکتی۔

لڑکا ہے سارا دن تو ان کو گھر میں بھی نہیں بٹھا سکتی کوئی نہ کوئی دوست آ کر بلا لیتا ہے اور ان کے ساتھ نکل جاتا ہے۔ باپ بولتا ہے کہ یہی ان کی غلطی ہے کہ بغیر دیکھے ہر ایرے غیرے کے ساتھ بچے کو گھر سے باہر چھوڑ دیتی ہے۔ ماں کہتی ہے کہ میں جوان بیٹے کے پاؤں میں رسی تو ڈال نہیں سکتی اور نہ کسی کے ماتھے پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ کون برا ہے اور کون اچھا۔ باپ بولتا ہے کہ بروقت تو مجھے بتا سکتی تھی آپ ان پر پردے ڈالتی تھی جب میں کچھ بولتا تو اپ آ کر ان کے سر پر کھڑی ہوجاتی تھی کہ بچہ ہے سدھر جائے گا بلا وجہ میرے بچے کو نہیں ڈانٹنا سب بچے بچپن میں ایسے ہی ہوتے ہیں اب جب بگڑ گیا تو کہتی ہو آپ کا بچہ بگڑ گیا ہے اب سنبھالو اپنے بیٹے کو۔

میں اس بحث تکرار میں کود کر ان کو خاموش کرا کر کہتا ہوں کہ ان کا جیل بھجوانا بھی تو درست طریقہ نہیں ان کا علاج معالجہ کراتے، تو بولتے ہیں کئی بار علاج معالجہ کیا ہے ہسپتال سے ٹھیک ہو کر نکلتا ہے لیکن پھر ان دوستوں کے صحبت میں بیٹھ کر پھر سے نشہ شروع کر دیتا ہے۔ آخر میں تنگ آ کر اس فیصلے پر پہنچے ہیں۔ کون اپنے بچے لخت جگر اور لاڈلے کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈالتا ہے یا ان کا برا سوچتے ہیں لیکن اس کے بغیر کوئی چارا نہیں۔

اب اپنے گھر اور آس پاس کے گھروں اور آس پڑوس کے گاڑیوں سے سامان بھی چوری کرنے لگا تھا آئے دن ان کی شکایتوں کے انبار لگے رہتے تھے۔ کل کوئی ایسی حرکت کر جائے گا کہ شرمندگی کا باعث تو ہو گا ہی ہو گا ہمارے بس میں بھی اس کا حل نہیں ہو گا اس سے تو بہتر ہے کہ جیل میں رہے کم ازکم چین سے تو جئے گے۔ لوگوں کی شکایتوں سے تو چٹکارا مل جائے گا۔

ہمارے ہاں آج کل لاڈلہ ایک سیاسی اصطلاح بھی بن چکی ہے لیکن یہ لاڈ پیار والے بڑے شفیق ہوتے ہیں ہر خواہش لاڈلے کی پوری کرتے ہیں تمام ہمجولیوں، ہم سروں اور ہم نشینوں پر ان کو فوقیت دیتے ہیں ان کو پوری ڈھیل دیتے ہیں خوب کہلاتے پلاتے اور تمام سہولیات سے آراستہ و پیراستہ کرتے ہیں لیکن جب یہ بغاوت پر اتر آتا ہے تو پھر ذمہ داری کوئی نہیں لیتا پھر یہ نہ کسی کا بیٹا، نہ کسی کا بھائی، نہ کسی کا دوست، نہ کسی کسی کا رشتہ دار اور نہ یہ پھر کسی کا بندہ ہوتا ہے یہ بس صرف ملزم ہوتا ہے اور اپنے ہی لاڈ اٹھانے والے پھر ان کو اپنے ہی ہاتھوں سلاخوں کے پیچھے بھیج دیتے ہیں اور ان کے کیس کی پیروی کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا کیونکہ ان کے خلاف ان کے لاڈ اٹھانے والے ہی مدعی ہوتے ہیں اور پھر ان کے سدھرنے کی جگہ صرف اور صرف جیل ہی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments