قدرتی آفات کیوں آتی ہیں؟


پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے قدرتی آفات کی زد میں ہے۔ ہماری اجتماعی زندگی میں طوفان، زلزلے، سیلاب، وبائیں، فسادات، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں، ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی کہ بڑے عذاب میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں، اور اس طرز فکر و عمل کو چھوڑ دیں، جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا کہ بالکل آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ اس سے بالاتر کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سوال کہ آفات و بلیات، طوفان و سیلاب کون لایا ہے؟ بہ ظاہر غیر ضروری سوالات ہیں لیکن اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بعض دانشوروں کی طرف سے کھلے عام یہ کہا جا رہا ہے کہ طوفان اور سیلاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ یا سزا سمجھنے کی بجائے فطری قوانین اور نیچرل سورسز کی کارروائی سمجھا جائے کہ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور نیچرل سورسز کے حوالے سے یہ معمول کی کارروائی ہے، مگر ہم مسلمان ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ کائنات میں کسی درخت کا ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورہ السجدہ کی آیت نمبر 21 اور 22 میں ارشاد فرمایا ہے کہ: ”اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے ) عذاب کا مزا چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ اپنی (باغیانہ روش سے ) باز آ جائیں۔ اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جسے اس کے رب کی آیتوں سے سمجھایا جائے پھر وہ ان سے منہ موڑے، ہمیں تو گنہگاروں سے بدلہ لینا ہے۔“ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ فرقان کی آیت نمبر 68 اور 69 میں ارشاد فرمایا کہ: ”اور وہ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور اس شخص کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام کر دیا ہے اور زنا نہیں کرتے، اور جس شخص نے یہ (غلط کام) کیے وہ گناہوں میں جا پڑا۔ قیامت کے دن اسے دگنا عذاب ہو گا اور اس میں ذلیل ہو کر پڑا رہے گا۔“

اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قیامت سے پہلے اپنی امت میں آنے والی قدرتی آفتوں کا پیش گوئی کے طور پر تذکرہ فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا یا تنبیہ کے طور پر ان کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے چند احادیث کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا۔ ترمزی شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”جب مال غنیمت کو ذاتی دولت بنا لیا جائے اور امانت کو مال غنیمت سمجھ لیا جائے، زکٰوۃ کو ایک تاوان سمجھا جانے لگے اور جب علم دین کو دنیا طلبی کے لیے سیکھا جانے لگے، جب بیوی کی اطاعت کی جانے لگے اور ماں کی نافرمانی شروع ہو جائے، جب دوست کو قریب کیا جائے اور باپ کو دور رکھا جائے اور مسجدوں میں شوروغل ہونے لگے، قبیلہ کا سردار ان کا فاسق بدکار بن جائے اور جب قوم کا سردار ان کا بدترین آدمی بن جائے، جب شریر آدمی کی عزت اس کے خوف سے کی جانے لگے، جب گانے والی عورتیں اور باجوں گاجوں کا رواج عام ہو جائے، جب شرابیں پی جانے لگیں اور اس امت کے آخری لوگ پہلے گزرے ہوئے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں تو اس وقت تم انتظار کرو ایک سرخ آندھی کا، زلزلے کا اور زمین میں دھنس جانے اور صورتیں بگڑ جانے کا اور قیامت کی ایسی نشانیوں کا جو یکے بعد دیگرے اس طرح آئیں گے جیسے کہ ہار کی لڑی ٹوٹ جائے اور اس کے دانے بیک وقت بکھر جاتے ہیں۔

“ سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو مالک اشعریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”میری امت میں بعض لوگ شراب پی رہے ہوں گے اور اس کا نام انہوں نے کچھ اور رکھا ہو گا، مردوں کے سروں پر گانے کے آلات بج رہے ہوں گے، اور گانے والیاں گا رہی ہوں گی کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے کچھ کو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کر دے گا۔“

چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون اور ضابطہ ہے جس کی نبی اکرم ﷺ وضاحت فرما رہے ہیں۔ اس کے مطابق ہمیں جہاں یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہے، سزا ہے، تنبیہ ہے، اور عبرت کے لیے ہے جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ہمارا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ہم توبہ و استغفار کریں، اپنے جرائم اور بداعمالیوں کا احساس اجاگر کریں، اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش کریں، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اہتمام کریں، معاشرے میں برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی محنت کریں، اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریں۔

اس کے بعد ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں، ان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں کہ یہ ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ یہ وقتی مسئلہ نہیں ہے اس پر کئی سال لگ سکتے ہیں اور اس کے لیے غیر معمولی محنت اور قربانی کی ضرورت ہوگی۔ اس سلسلہ میں بہت سی سیاسی جماعتیں و رفاہی ادارے جیسے (الخدمت فاؤنڈیشن، بیت السلام، تحریک لبیک پاکستان) سمیت بہت سی این جی آوز سیلاب متاثرین کی دن رات مدد کر رہی ہیں اور ہمیں بھی بڑھ چڑھ کر اپنے مصیبت زدہ بھائیوں اور بہنوں کی مدد کرنی چاہیے۔

اس کے ساتھ ہی ہمیں جاں بحق ہونے والی خواتین و حضرات کے لیے دعائے مغفرت کا اہتمام کرنا چاہیے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ چونکہ وہ لوگ اچانک اور حادثاتی موت کا شکار ہوئے ہیں اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک ارشاد کے مطابق وہ شہداء میں شامل ہیں۔ ان کے لیے مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعا بھی ہم پر ان کا حق ہے اور ہمیں اپنی دعاؤں میں انہیں یاد رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفاظت رکھے اور نیک کام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments