سیلاب کی تباہ کاریاں: وہ باہمت خواتین جو پیروں میں زخم اور ہاتھوں پر چھالوں کے باوجود اپنے گھر خود مرمت کر رہی ہیں

عزیز اللہ خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور


چودھوان
’اپنے گھر کی مرمت میں نہیں کروں گی تو کون کرے گا، شوہر اور بیٹا تو باہر کام کے لیے چلے جاتے ہیں۔ اگر مرد گھر میں ہوں گے تو پھر کھائیں گے کیا؟‘

فاطمہ کی عمر ساٹھ برس ہے۔ ان کے پیروں پر زخم اور ہاتھوں پر چھالے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے کچے مکان کی مرمت خود کر رہی ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ یہاں اکثر کانٹے ہوتے ہیں یا کہیں سے شیشہ مٹی میں آ جاتا ہے جس سے زخم لگ جاتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مزدور لانے کے لیے پیسے نہیں، دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری کر رہے ہیں۔ مکان کی مرمت سے پیروں میں زخم آ گئے ہیں، ہاتھوں پر چھالے ہیں لیکن کیا کریں زندگی جیسے تیسے گزارنی ہے۔‘

یہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا گاؤں چودھوان ہے۔ یہاں بارشوں اور سیلاب سے متعدد کچے مکان مکمل یا جزوی طورپر تباہ ہو گئے ہیں۔

تباہی تو پاکستان بھر میں ہوئی ہے لیکن یہاں انہونی بات یہ ہے کہ ان کچے مکانوں کی مرمت اور تعمیر خواتین خود کر رہی ہیں۔

چودھوان

چودھوان میں ہم ان عورتوں سے ملنے گئے تھے جو تعمیرات اور مکان کی مرمت کر رہی ہیں۔ ہمیں لگا کہ شاید چند ہی خواتین اس کام میں مہارت رکھتی ہوں گی لیکن جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ان خواتین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

ہر گھر میں خواتین کام کر رہی تھیں۔ ان خاندانوں کے مرد روزی کی تلاش میں باہر گئے تھے یا کوئی اس امید پر قریبی تحصیل درابن گیا تھا کیونکہ انھیں کہا گیا تھا کہ وہاں شاید کچھ امداد تقسیم ہو۔

ان خواتین میں جوان اور بوڑھی خواتین شامل تھیں، کسی کے ساتھ کمسن بیٹی، کسی کے ساتھ پوتا یا بیٹا معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔

چہروں پر جھریاں ان کی مشکلات اور اذیت کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔ ان کے ہاتھ زخمی تھے، پیروں میں جوتے نہیں تھے، ہاتھ میں پلاسٹک کی چوڑیاں تھیں لیکن ان پر مٹی کا لیپ تھا۔۔

یہ خواتین اتنی ماہر تھیں کہ انھیں معلوم تھا کہ مٹی کو کتنا گوندنا ہے، دیوار پر پہلے کتنے پانی کا چھڑکاؤ کرنا ہے، مٹی میں کتنا بھوسا ملانا ہے اور کتنی دیر میں یہ سوکھے گا۔

ایک خاتون نے تو اتنا بھی کہا کہ اس میں کونسا بڑا کام ہے یہ تو ہمارا معمول ہے۔

’ابھی تباہی بہت ہو گئی ہے۔ دیواریں گر گئی ہیں، چھتیں کمزور ہو گئی ہیں تو ان کی مرمت میں زیادہ وقت لگ گیا۔‘

یہاں ایک مکان میں داخل ہوں تو اندر کا راستہ دوسرے مکان سے جڑا ہے اور پورا محلہ اسی طرح ایک دوسرے سے منسلک ہے، جہاں مکان در مکان تباہ ہوئے ہیں۔

چودھوان

بزرگ خاتون اسلام بی بی نے بتایا کہ ’بارشیں تو مسلسل جاری تھیں لیکن ایک رات اچانک اعلان ہونے لگے کہ جو سامان اٹھا سکتے ہو اٹھاؤ اور علاقے سے نکل جاؤ۔۔۔ بس پھر کیا تھا جو ہاتھ لگا وہ اٹھایا اور گھر چھوڑ کر چلے گئے۔‘

’سیلاب کا پانی مکانات کی پچھلی جانب اور سامنے، دونوں طرف سے آیا جس سے ہمارے کچے مکان کی دیوار گری۔ اب پردے کے لیے ہم نے یہاں چادر لگا رکھی ہے۔‘

اس گاؤں میں لوگ ہر آنے جانے والے کو اس توقع کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ شاید کہیں کوئی امداد دینے آیا ہو۔

یہاں موجود ایک خاتون نے آگے بڑھ کر ہم سے پوچھا کہ کیا ہمیں کوئی امداد مل جائے گی۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ ’کیوں آپ کو امداد نہیں ملی‘ تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارا آٹا اور گندم تو پانی میں بہہ گئی۔

’بچے بھوکے ہیں، سب کہہ رہے ہیں کہ حکومت امداد دے رہی ہے اور لوگ آ رہے ہیں، ہم تو کب سے انتظار کر رہے ہیں لیکن ہماری طرف تو کوئی نہیں آیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

سوات کے نوجوان واجد علی نے ’زندگی اور موت کے درمیان کا پُل‘ صرف 48 گھنٹوں میں کیسے بنایا؟

سیلاب ڈائری: ’جمع پونجی سیلاب لے گیا، جو بچ گیا وہ لٹیرے لے گئے‘

بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد عوام کس حال میں ہیں؟

چودھوان کی بدقسمی یہ بھی ہے کہ یہ کسی بڑی شاہراہ کے قریب واقع نہیں۔ یہ ضلعی ہیڈکوارٹر ڈیرہ اسماعیل خان سے کوئی 72 کلومیٹر دور ژوب روڈ پر واقع ہے اور مرکزی روڈ سے تقریباً 12 کلومیٹر دور ہے اور یہ 12 کلومیٹر بھی چھوٹی اور تنگ ٹوٹی پھوٹی سڑک ہے اس لیے اس طرف سے عام لوگوں کا گزر نہیں ہوتا۔

یہاں صحت اور تعلیم کی سہولیات بھی دستیاب نہیں، اس لیے یہاں رہنے والوں ڈیرہ اسماعیل خان جانا پڑتا ہے۔ بنیادی صحتب کے یونٹ ہیں لیکن مکمل صحت کی سہولیات دستیاب نہیں۔

منتخب کونسلر کیا کہتے ہیں؟

یہاں کے منتخب کونسلر متین خان بابڑ کا کہنا تھا کہ سیلاب اور بارشوں سے بھاری نقصانات ہوئے ہیں کیونکہ سیلاب دونوں جانب سے آیا اور پندرہ روز تک یہاں بارش ہوتی رہی۔

’چھ بند درمیان میں تھے جس کی وجہ سے کچھ بچت ہوئی وگرنہ پورا گاؤں ہی پانی میں بہہ جاتا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’یہاں جہاں لوگوں کے مکانات گر گئے ہیں وہاں سڑکوں اور دیگر عمارات کو بھی نقصان پہنچا۔ اب بھی جگہ جگہ پانی کھڑا ہے لیکن اب تک حکومت کی جانب سے کوئی باقاعدہ سروے شروع نہیں کیا جا سکا۔‘

عبدالمتین بابڑ کے مطابق ابتدائی اندازوں کے مطابق مقامی سطح پر دس سے بارہ کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ غیر سرکاری تنظیمیں یہاں امداد تقسیم کرنے آئی ہیں لیکن ان سے ان لوگوں کے مکانات تعمیر نہیں ہو سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments