مذہب کارڈ


سیاست چمکانے کی کوششیں : ایک بار پھر سیاست کو مذہب کارڈ کے ذریعہ چمکانے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ جیسے حالیہ واقعہ جس میں حکمران جماعت کے ایک سرکردہ رہنما نے بلا سبب احمدیوں کے حوالے سے ایسا کیا اور اس بیان کو قومی ٹٰی وی سے نشر کیا گیا۔ لیکن یہ سلسلہ پہلے سے جاری ہے۔ اسی ماہ کراچی میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے ایک گروہ کے جلسہ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے لیڈر شامل ہوئے اور تقریریں کیں۔ بڑی مخالف پارٹی کے ایک جلسے میں ایک لیڈر، پارٹی کے سربراہ کو یہ مشورہ دیتے سنے گئے کہ کچھ مذہبی ٹچ بھی دے دیں۔ گویا ہاتھ میں تسبیح، ریاست مدینہ اور رحمت اللعالمین اکیڈمی کے ذکر اور جلسوں میں پارٹی کے ایک اور لیڈر کے مذہبی نعرے لگوانا کافی نہیں سمجھے جا رہے۔

پرانا طریق: ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ ملک میں موجود مذہبی رجحان رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد کو محض ووٹ بینک گردان کر اپنے حق میں کرنے کے لئے سیا ست میں یہ کارڈ مفید مطلب شمار ہوتا رہا ہے۔ سیاست میں مذہب کارڈ کے استعمال کی بنیاد 1949 میں قرار داد مقاصد منظور کر کے رکھی گئی۔ یہ قائد اعظم کے اس واضح ارشاد کی نفی کرتے ہوئے کیا گیا کہ ریاست کا شہریوں کے مذہب، ذات پات اور عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ بعد کے سب حکمرانوں نے اس سلسلہ کو آگے بڑھایا۔ اسے خود بھی چلایا اور مذہب کی سیاست کرنے والے موجود گروہوں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی نیز ویسے ہی مزید نئے گروہوں کی تشکیل کر کے ان سے بھی چلوایا۔

مذہب کارڈ کے استعمال کی تاریخ: پہلے مارشل لا حکمران نے 1962 کے آئین میں ملک کا نام جمہوریہ پاکستان سے بدل کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کیا۔ بعد میں عام انتخاب میں قائد اعظم کی بہن کے امید وار ہونے پر دین میں عورت کے حکمران نہ ہو سکنے کا نعرہ لگوایا۔ اور اس کے لئے فتووں کا اہتمام کیا۔ پھر پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے جمعہ کی تعطیل۔ شراب اور ریس پر پابندی کے ساتھ آئین میں دوسری ترمیم کے ذریعہ دین کی تعلیم کے بر خلاف ملک کے ایک محب وطن اور خدمت گزار جماعت کو آئین اور قانون کی اغراض کے لئے ناٹ مسلم قرار دے دیا۔

اگلے مارشل لا حکمران نے نظام صلوۃ اور زکواۃ کی جبری کٹوتی کا سلسلہ جاری کیا اور آرڈیننس کے ذریعہ آئین میں دی گئی اس ضمانت کی کہ ہر شہری اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اسے پھیلانے کے لئے آزاد ہے ایک جماعت کے لئے نہ صرف نفی کردی بلکہ ان کے ایسا کرنے کو قابل سزا جرم بنا دیا۔ اگلے ادوار میں نون لیگ نے پیپلز پارٹی کے مقابلہ میں عورت حکمرانی کے خلاف مذہب ہونے کی مہم چلائی اور خود نون لیگ کے خلاف ایک نئی مذہبی سیاست کار جماعت کے ذریعہ دھرنوں کا دباؤ ڈلوایا گیا۔ پھر پچھلی حکومت میں پنجاب اسمبلی کی مذہبی قرار داد اور اسمبلی کی دیوار پر مذہبی نعروں کی تحریر تو کل کی بات ہے۔

مقصد میں ناکام: ایسا کرنے والوں کو وقتی فائدہ تو ہو جاتا ہے لیکن اقتدار کا تسلسل کسی کو نہیں ملا۔ اور مخالف سیاسی قوتیں مزید مذہبی مطالبات اور تجاویز کے ذریعہ ان کا توڑ نکالتی رہیں۔ بھٹو صاحب کو اول نظام مصطفیٰ تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر تقدیر الٰہی آڑے آئی اور 52 سال کی عمر میں تختہ دار پر انجام ہوا۔ ضیا الحق کے خواب بھی اس وقت چکنا چور ہو گئے جب بطور سزا آگ میں بھسم کیے جانے کا اذن ہوا۔ اور لیکن اس کے باوجود ہر بار ایسا کرنے والے یہی خیال کرتے ہیں کہ پہلوں نے جو غلطیاں کیں وہ ان سے بچ کر کامیاب ہو جائیں گے۔ کل قبل از وقت جانے والی حکومت بھی یہی سمجھتی تھی اور آج کے حکمران بھی اسی زعم میں نئے سرے سے کوشاں ہیں۔

کامیابی کی اصل راہ: سیا ست میں کامیابی کی اصل راہ عوام کی خدمت اور ان کو سہولیات کی فراہمی ہے لیکن نا اہلی اور مفاد پرستی کے ہاتھوں اس بھاری پتھر کو وعدوں تک محدود رکھ کر سیاسی کامیابی کے اس راستے کو اختیار کیا جاتا ہے۔ جس میں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے۔ جو اس لئے بہت آسان ہے کہ ملک کی بیشتر آبادی مذہب کی تعلیم سے بے علم، بے عمل، ظاہر پرست، صرف ظاہر عبادات بجا لانے والی اور محض دعوی محبت رسول ﷺ کو نجات کے لئے کافی جاننے والی ہے۔ اور اسی سبب کسی بھی جذباتی نعرے پر عقل و شعور کو تیاگ کر ایک بے قابو ہجوم کی شکل میں مارنے مرنے پر آمادہ اور تیار رہتی ہے۔

عدم برداشت کی ترویج: یہ ہجوم کیونکہ سیاست دانوں کے مقاصد کو زیادہ اچھی طرح پورا کرتا ہے اور اس کا اسی طرح بر قرار رہنا ان کے مفاد میں ہے، اس لئے وہ اس کو باشعور کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ اور اسی سبب دین کی انسان دوستی، رواداری، برداشت اور حوصلہ کی روشن تعلیم اور اعلیٰ نمونوں کا کسی بھی سطح پر پرچار نہیں کیا جاتا۔ نصاب تعلیم میں بھی ان کی جگہ منفی اور اختلافی باتوں کو اجاگر اور مشترکہ باتوں کو چھپایا جاتا ہے اور اس طرح تعصب اور نفرت کی بالواسطہ حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر یہ بظاہر تعلیم یافتہ افراد بھی اختلاف عقیدہ رکھنے والوں سے اپنے سماجی تعلقات اور بات چیت میں اتنے ہی غیر روادار اور بے حوصلہ ہوتے ہیں جتنا کوئی غیر تعلیم یافتہ۔

لوگ کیوں تبدیل نہیں ہوتے : لوگ خود کیوں جذباتی نعروں سے اپنا استحصال ہونے دیتے ہیں۔ اور کیوں ایسا کرنے سے انکار نہیں کرتے۔ اس کی وجہ غالباً ان کو دلائے جانے والا یہ یقین ہے کہ امتی ہونے کے ناتے وہ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور ان کے اعمال کیسے ہی کچھ کیوں نہ ہوں روز حشر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شفاعت کے نتیجہ میں وہ جنت میں جگہ پائیں گے۔ اور ایسا ہونے کے لئے ان کا محبت کا ایسا اظہار ضروری ہے۔ اسی یقین کا نتیجہ اکثریت کا گلی محلہ کے مولوی صاحب کو اپنے دینی معاملات کا ذمہ دار سمجھ کر خود بالکل بے علم رہنا، اور کسی بھی دینی حکم پر عمل کی پروا نہ کرنا ہے۔

وہ جو عمل کی ضرورت سمجھتے ہیں وہ بھی صرف ظاہری حلیہ، ٹوپی، اٹنگا پاجامہ، حجاب اور ظاہری اعمال نماز، روزہ، عمرہ، حج اور دعویٰ محبت رسول ﷺ کو کافی جانتے ہیں۔ سچ بولنا، امانت دار ہونا، دیانت داری، پورا تولنا، ناجائز منافع خوری نہ کرنا اور پڑوسیوں اور دیگر سب بندوں کے حقوق کی ادائیگی ان سب احکامات پر عمل کی حیثیت ثانوی سمجھتے ہیں اور اختلاف عقیدہ رکھنے والوں کے ساتھ تو صفر۔ نسلوں سے پہنچنے والی وہ تعلیم جس میں عقیدہ بلحاظ اہمیت انسان پر فائق ہے اور عقیدہ کا اختلاف نا قابل برداشت۔ ملک میں موجود عدم رواداری کی جڑ ہے۔

بد نتائج: اس سب صورتحال کا نتیجہ ملک میں ہر سطح پر زبوں حالی، بد امنی، کرپشن، بد عنوانی، نا اہلی، بد نظمی، غربت، جہالت، اخلاقی گراوٹ، نا انصافی، تشدد، مذہبی عدم رواداری، تفرقہ، ہر قسم کا تعصب، ہیں۔ ملک قرضوں تلے دبا ہوا ہے۔ مہنگائی کی سالانہ شرح تیس فی صد سے زائد ہے۔ چالیس فی سد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ ترقی کے بیشتر بین الاقوامی اشاریوں میں پاکستان صف آخر کے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ وزیر اعظم ملک کے بھکاری ہونے کا، اور اس بات کا بر سرعام اعتراف کرتے ہیں کہ اب دوست بھی ہمارے مستقل پھیلے ہوئے ہاتھوں سے تنگ آ گئے ہیں۔ یہ بظاہر نکبت اور افلاس کی وہی مار ہے جو اس سے پہلے نافرمان قوموں پر بطور سزا نازل ہوئی۔

ممکنہ بہتری کی صورت: اس صورتحال سے نکالنے کے لئے آج ملک کو پھر قائد اعظم جیسے ایک لیڈر کی ضرورت ہے جو اپنی ذات میں سچا، کھرا، دیانت دار، محنتی، نڈر، منصف مزاج اور ملک و قوم کے مفاد کو اولیت دینے والا ہو۔ جو اپنے اعلیٰ کردار کے بدولت بلا خوف غلط کو دو ٹوک غلط کہے اور موجودہ سب غلط کاریوں پر قوم کی درست سمت میں رہنمائی کرے۔ جو تمام ذمہ داریاں ان کے اہلوں کے سپرد کرے۔ جو حصول انصاف کو سہل اور ہر ایک کی پہنچ میں لے آئے تا ہر مجرم کی گرفت ہو خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ اور ہر نا انصافی کا خاتمہ کر کے ملک میں انصاف کا بول بالا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments