میں تو اپنے ہی ’پروردگان‘ کی سازش کا شکار ہو گیا” احمد ندیم قاسمی“


لیجیے، اس بار ”ہم سب“ کے توسط سے ندیم خطوط پیش خدمت ہیں۔ یہ سات خط ممتاز شاعر و ادیب اور مدیر فنون جناب احمد ندیم قاسمی نے سن دو ہزار ایک اور سن دو ہزار چھ کے دوران تحریر کیے۔

جہاں تک اس قدآور ادبی شخصیت کی ادبی زندگی کا تعلق ہے تو ترقی پسند تحریک کی صورت حال، محترم وزیر آغا اور فیض صاحب سے تعلقات کے حوالے سے بھی اور ادبی گروہ بندیوں کے سبب جنم لینے والے تنازعات کی خبروں کے تناظر میں بھی ندیم صاحب کا نام ہماری ادبی دنیا کی شہ سرخیوں میں رہا۔ تفصیلات میں جانے کا یہ موقع نہیں تاہم اس حقیقت سے انکار کیونکر ممکن ہے کہ اردو نعت، نظم، غزل، افسانے، کالم نویسی، صحافت اور ادارت کے شعبوں میں بیک وقت ایسی نمایاں خدمات انجام دینے والے اور کتنے نام ہیں پاکستانی ادب و صحافت کی کتاب میں۔ شاید بہت کم۔

ان سے بالمشافہ ملاقاتوں اور ان کی باتوں کا سلسلہ ایک جداگانہ تحریر کا متقاضی ہے۔ فی الوقت تو مجھے یہی عرض کرنا ہے کہ مجھے موصول ہونے والے ندیم خطوط کو میں تین ادوار میں تقسیم کر سکتا ہوں۔ پاکستان میں ملنے والے خطوط، جرمنی میں موصول ہونے والے خطوط اور کینیڈا میں ملنے والے خطوط۔

درج ذیل سات خط تیسرے دور سے ہیں یعنی یہ مجھے کینیڈا میں موصول ہوئے۔ انھوں نے مجھے آخری خط بارہ فروری سن دو ہزار چھ کو تحریر کیا اور اس کے پانچ ماہ بعد یعنی دس جولائی سن دو ہزار چھ کو اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ پاکستان اور جرمنی میں ملنے والے ان کے خط لاہور میں، امید ہے، محفوظ ہوں گے۔

خط کا جواب تحریر کرنے کا ان کا معمول بہت شان دار تھا۔ اب کون مدیر اتنا وقت نکال سکتا ہے۔ ہر نئے آنے والے شمارے سے پہلے تخلیقات روانہ کرنے کی یاددہانی کرواتے۔ کیا یہ بات کسی اعزاز سے کم ہے؟

زیر نظر خطوط میں جہاں ان کی مسلسل گرتی ہوئی جسمانی صحت کا ذکر ملتا ہے وہاں جریدے ’فنون‘ سے ان کی دل بستگی بھی ہم پر واضح ہوتی ہے۔ جہاں وہ تخلیقات کی موصولی اور اشاعت کی رسید فراہم کرتے ہیں وہاں اپنے ہی منظور نظر احباب کی طرف سے دکھ پہنچنے کی اور ادب سے افسر شاہی کے سلوک کی دل سوز داستان بھی مختصر سے الفاظ میں بیان کر جاتے ہیں۔

خیر، یہ چند خطوط میری یادوں کے تھیلے میں ان مول اور خوب صورت تحائف کی طرح مہکتے رہتے ہیں آج آپ کی نذر کر رہا ہوں۔ اللہ پاک ندیم صاحب کے درجات مزید بلند کرے۔ آمین

———————–

ندیم خطوط بہ نام حامد یزدانی
(1)
2006۔ جولائی 25
عزیز حامد صاحب،
عزیزی ماجد نے آپ کے کینیڈا جانے کا بتایا جب کہ میں آپ کے حوالے سے شاکی بیٹھا تھا کہ ملتے ہی نہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو برکت دے اور جس مقصد سے آپ کرۂ ارض کی پشت پر جا بسے ہیں، وہ ہر لحاظ سے پورا ہو۔
منصورہ آپ کو بہت سلام (اور شکریے ) کہہ رہی ہیں۔
نظمیں تینوں معیاری ہیں۔ فنون کی زینت میں اضافہ کریں گی۔
دعا اور محبت کے ساتھ
خیر اندیش
احمد ندیم———————–
(2)
2003۔ جنوری 10
عزیز مکرم۔ دعا

آپ کتنے اچھے، کتنے پیارے ہیں کہ کرۂ ارض کی دوسری طرف رہتے ہیں، مگر مجھے اور بیٹی کو ہر اہم تقریب پر یاد کر لیتے ہیں۔ اللہ آپ کو برکت دے اور صحت مند رکھے۔

آپ کا سیدھا سادا، مگر پیار سے چھلکتا ہوا عید کارڈ ملا۔ بے حد مسرت کا احساس ہوا۔

منصورہ بیٹی کی شاعری پر آپ نے جو مختصر، مگر نہایت موثر نظم بھجوائی تھی، وہ بیٹی کی یادوں کے تھیلے میں محفوظ ہے۔ اللہ آپ کا بھلا کرے۔

منصورہ کی طرف سے آداب و دعا
خیر اندیش
احمد ندیم
———————–
(3)
2004۔ فروری 15
محب عزیز

آپ اتنی محبت سے یاد کرتے اور یاد رکھتے ہیں کہ جب بھی آپ کا خط آتا ہے، میں خود کو تندرست محسوس کرنے لگتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو روحانی اور مادی لحاظ سے آسودہ رکھے۔

منصورہ بیٹی بھی سلام بھجوا رہی ہیں اور دعا کہہ رہی ہیں۔ میں علیل رہنے لگا ہوں اور آپ کی دعا کا محتاج ہوں۔

خیر اندیش
احمد ندیم
———————–
(4)
2004 مئی۔ 13
عزیز مکرم۔ دعا

آپ کا نہایت پیارا خط مل گیا تھا، مگر میں اپنی علالت سے پنجہ آزما رہا۔ افاقہ ہوا تو فنون 121 مرتب کرنے اور پیسٹ کرانے بیٹھ گیا۔ اب ادھر سے فراغت ہوئی ہے تو یہ عریضہ لکھ رہا ہوں۔ آپ نے جس بے پایاں محبت کا اظہار کیا ہے (اور ہمیشہ کیا ہے ) اس نے سرشار کر رکھا ہے۔ اللہ آپ کو مزید برکت اور مزید عزت دے۔

آپ کی ایک مختصر سی نظم فنون 121میں شامل ہے۔ غزلیں بہت عمدہ ہیں۔ ان سے فنون 122 کی زینت میں اضافہ کروں گا۔

منصورہ بیٹی بہت ممنون ہیں کہ آپ نے ان کے بارے میں اتنی عمدہ باتیں لکھیں۔ ان کی طرف سے سلام
آپ کا خیر اندیش
احمد ندیم
———————–
(5)
2004۔ اکتوبر 3
عزیز مکرم۔ دعا

آپ کا خوب صورت خط مل گیا تھا۔ ساتھ ہی نظم اور غزلیں بھی۔ غزلیں آئندہ فنون 123 کے لیے کمپوز کرا رکھی ہیں، مگر نظم ”کاسانودا“ اسی شمارے (122) میں شامل ہے جو کل چھپ کر تیار ہوا ہے۔

شاید دوری کی وجہ سے آپ کو علم نہیں ہو سکا کہ میں مجلس ترقی ادب کی ڈائریکٹری کے حوالے سے خود اپنے ہی ”پروردگان“ کی سازش کا شکار ہو گیا تھا۔ میں مستعفی ہو گیا، مگر وزیر اعلیٰ صاحب نے مجھے دوبارہ ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔ انھوں نے میری شکایات کے ازالے کے سلسلے میں چند خوب صورت وعدے کیے، مگر افسر شاہی کو یہ وعدے ناپسند تھے اس لیے ان پر عمل در آمد نہ ہوا۔ حد یہ ہے کہ مجلس بالکل ہی مفلس ہو گئی اور تین چار مہینے تک تو خود میں اپنے عملے کو اپنی جیب سے تنخواہیں دیتا رہا، مگر میری جیب بہت چھوٹی سی تھی۔

جلد خالی ہو گئی اور آخر مجھے ایک بار پھر اپنے عہدے سے احتجاجاً مستعفی ہونا پڑا۔ اہل ادب کے خاصے اہم حصے نے نہایت شدید رد عمل ظاہر کیا تو وزیر اعلیٰ صاحب نے ایک بار پھر میرا استعفیٰ نامنظور کر کے مجلس کا ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔ آج کل دن میں دو تین گھنٹے وہیں گزارتا ہوں اور کوشاں ہوں کہ کم سے کم اب تو وزیر اعلیٰ کے ارشادات پر عمل ہو جائے۔ چلیے۔ دوچار مہینے رک کر دیکھتے ہیں۔

میری صحت کمزور ہے۔ استھما کا مریض ہو چکا ہوں، مگر علاج باقاعدگی سے کر رہا ہوں اور دعا کا طالب ہوں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی امان میں رکھے۔
میرے لائق کوئی خدمت؟

منصورہ بیٹی آپ کے خط کی آخری سطریں سن کر بے حد مسرور ہوئی۔ آپ کو دعا دیتی ہے۔ وہ بدستور میرا نوے فی صد کام سنبھالے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی ہمت برقرار رکھے۔

آپ کا خیر اندیش
احمد ندیم
———————–
(6)
2006 جنوری 20
محب عزیز حامد صاحب۔ سلام و دعا

آپ مجھے جس محبت سے یاد رکھتے ہیں، اس کے لیے آپ کا بے حد و بے حساب ممنون ہوں کہ آپ کی یاد آوری سرشار کر دیتی ہے۔ جیتے رہیے۔ اللہ آپ کو ہمیشہ کامرانیوں سے سرفراز فرمائے۔

میں دمے کا مریض ہو چکا ہوں اور اس ضمن میں کئی بار ہسپتالوں میں پڑا رہا ہوں۔ بہرحال اب چلتا پھرتا ہوں اور کوشاں ہوں کہ گھر میں پڑا نہ رہ جاؤں۔ میری واحد مصروفیت فنون کی ایڈیٹنگ ہے۔ باقی کام منصورہ بیٹی انجام دیتی ہیں۔

تازہ کلام بھجوائیے۔ آپ کا کلام گزشتہ شمارے (521) میں شامل ہو چکا ہے۔
ایک بار پھر آپ کی عنایات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
طالب دعا
احمد ندیم
———————–
(7)
2006 فروری 20
عزیز مکرم۔ سلام محبت
آپ کی طرف سے تہنیتی خط ملتا ہے تو بے حد مسرت محسوس ہوتی ہے کہ ہم لوگ آپ کی یاد میں زندہ ہیں۔
غزل اور نظم کا دلی شکریہ۔ دونوں عمدہ ہیں۔

اب کے تو یہاں بھی سردی کی انتہا ہو گئی، مگر آپ تو برفوں میں رہتے ہیں۔ آپ کو اس سردی سے کیا شکایت ہو سکتی ہے۔ شکایت ہم جیسوں کو ہوتی ہے کہ موسم کی شدت کی وجہ سے مرض (دمہ) میں بھی شدت پیدا ہو جاتی ہے۔

میں آپ کو محبت سے یاد رکھتا ہوں۔
دعا اور محبت
آپ کا
احمد ندیم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments