جرائم کی گاڈ فادر پنجاب پولیس


جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور اور رحیم یار خان کے کچے کے علاقوں میں کسی گینگ کے پنپنے اور اس کے خلاف پولیس آپریشن اور اس آپریشن میں ناکامی کی جب بھی خبریں آتی ہیں تو مجھ سے لاہور میں کولیگز کا ہر دفعہ یہی سوال ہوتا ہے کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ وہاں (جنوبی پنجاب) ہر چند سال بعد ہی نیا گینگ سامنے آ جاتا ہے۔ نہ صرف یہ گینگ انتہائی تیزی سے جڑیں پکڑتا ہے بلکہ پولیس کو بھی ناکوں چنے چبوا دیتا ہے اور ہر دفعہ پولیس ہی کیوں ناکام ہوتی ہے؟ اور مدد کے لئے آرمی یا رینجرز کو ہی کیوں آنا پڑتا ہے؟

کچھ جذباتی دوست تو جواب بھی ساتھ ہی داغ دیتے ہیں چونکہ کوہ سلیمان کا قبائلی علاقہ اور بلوچستان کی سرحدیں ان علاقوں سے ملتی ہیں، تبھی ان کے پاس پولیس والوں سے زیادہ جدید اور بہتر اسلحہ موجود ہوتا ہے اور بیچارے (ان چند کرم فرماؤں کے بقول) پولیس والوں کے پاس تو پرانی رائفلز ہوتی ہیں اور بنیادی سہولیات کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا، اسی وجہ سے ہمیشہ ہی یہ ناکام و نامراد لوٹتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ وہ کہاوت ہے کہ جنگ اسلحوں سے نہیں جذبوں سے جیتی جاتی ہے تو دراصل انتقام اور نفرت کا وہ جذبہ ہے کہ جس کی وجہ سے ہمیشہ ایسی کارروائیوں میں پولیس کو ان مٹھی بھر گینگز سے شکست ملی۔

دوسری طرف پاک آرمی یا رینجرز جب بھی یہاں پہنچی، ہمیشہ بغیر گولی چلائے ہی ان ملزمان نے ہتھیار ڈالے۔ جس کی ایک بڑی مثال چھوٹو گینگ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ اب ایسا نہیں کہ پاک آرمی کے پاس ہیلی کاپٹر یا جدید اسلحہ تھا تو یہ اقدام کیا گیا۔ بلکہ یہ قدم پاک آرمی پر اعتماد، عزت اور محبت کے باعث اٹھایا گیا۔

قارئین کرام میرا مقصد کسی مجرم، ملزم یا گینگز کو اچھا بنا کر پیش کرنا نہیں ہے۔ مگر ایک تو میرا گاؤں دریائے سندھ کے پاس کچے کے اس علاقے میں موجود ہے جہاں یہ گینگز اور پولیس کے آپس میں مڈبھیڑ کا عینی شاہد ہوں، دوسرا ان کارروائیوں سے بھی پہلے چند مٹھی بھر افراد کا آنا فانا گینگ کی صورت اختیار کر لینے کا عینی شاہد بھی ہوں۔ قارئین کرام جنوبی پنجاب کے اس ریجن کو نہ صرف تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے بلکہ دیگر بنیادی سہولیات بھی یہاں عنقا ہیں۔

یوں سمجھئے کہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں کی سیاست کو وڈیرا سسٹم اور پولیس تھانوں کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ دہائیوں سے یہاں سے منتخب ہونے والے ایم این ایز، ایم پی ایز نے یہاں کے وڈیروں، اٹھائی گیروں، زمینداروں اور آگے پولیس سمیت محکموں میں اپنے انہی وفاداروں کے عزیز و اقارب کو نوکریاں دلوا کر ایک جال بنا ہوا ہے۔

اب ایسے ہے کہ ایک بندا تاجر کے روپ میں معزز علاقہ ہے اسی کا بھائی پولیس میں سب انسپکٹر ہے، اسی بھائی کا سسر واپڈا میں افسر ہے، دوسرا بھائی وکیل ہے، تیسرا بھائی کسی اخبار سے منسلک ہے، تاجر مقامی ایم این اے کا خاص کارندہ ہے۔ بہرحال مافیا کی اس پیچیدہ تعریف میں الجھائے بغیر آپ کو مدعے کی طرف واپس لے آتا ہوں۔

مشرف دور میں بوسن گینگ نے میرے گاؤں اور کچے کے علاقے میں ڈیرے ڈالے۔ اب یہ بوسن ذات کے کچھ افراد تھے جو یہاں کے وڈیروں کے ہاتھوں پیدا کردہ تھے، انہی کے فراہم کردہ اسلحہ اور انہی کی شہ پر معمولی چوریاں کرنے والے ان افراد سے چوریاں کروا کر پھر متاثرین کے ان وڈیروں سرداروں کے پاس پہنچنے پر نہ صرف ”بھنگا“ (بھنگا کو سادہ الفاظ میں تاوان سمجھ لیں ) دے کر بلکہ الیکشن میں ووٹ کا وعدہ لے کر چوری شدہ مال واپس دے دیا جاتا تھا (یہ طریقہ ابھی بھی جاری ہے ) اب بیچ میں انہی کی طرف سے تعینات کروائے گئے کسی پولیس افسر کو کارکردگی دکھانے یا ترقی کی ضرورت پڑتی تھی (اس زمانے میں پولیس مقابلوں یا گرفتاریوں کی صورت میں کئی افسران کو ترقیاں ملی تھیں ) تو انہیں افراد کو یہی وڈیرے گرفتار بھی کروا دیتے تھے۔

اب یہ گرفتار ہونے اور پولیس مقابلوں میں پار ہونے سے بھی بچ جانے والے یہ معمولی چوری چکاریوں کے ملزمان نے رہا ہو کر آنے کے بعد نہ صرف اس وڈیرے کے بلکہ پولیس کے خلاف باقاعدہ بغاوت کے طور پر جتھہ بنایا، بلکہ ان پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے ملزمان کے بھائی، بیٹے نے بطور انتقام اسلحہ اٹھا کر اعلان جنگ شروع کر دیا۔ اب چونکہ اس گینگ نے ہمارے گاؤں کے پار دریائے سندھ میں موجود جزیروں میں پناہ لینی ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ روز ہی کوئی واردات ہوتی روز ہی پولیس ان کا پیچھا کرتے ہوئے آتی تھی اور اکثر یہ چھاپے وہاں موجود مکینوں کے ہاں مرغن کھانوں پر منتج ہوتے تھے۔

اگر کھانا نہ کھلایا جاتا یا آؤ بھگت نہ ہونے کی صورت میں ان ریڈنگ پارٹیوں کے جلال کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ایسے میں یا تو وہ کسی بھی نوجوان کو بطور شک کے ساتھ لے جاتے یا پھر چادر چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے سرچ آپریشن کے نام پر گھروں میں گھس جاتے تھے۔ ایک وقت آیا کہ جب اس گینگ کے خلاف گرینڈ آپریشن کا حکم ملا تو یہ پولیس اہلکار جس گھر سے کھانا کھاتے تھے وہاں پر ہی چھاپے مارنے شروع کر دیے۔ پورے علاقے کے مردوں نے گرفتاری کے خوف سے گھروں میں رہنا چھوڑ دیا تو پیچھے یہ پولیس اہلکار خواتین پر آوازے کسنے، اور حقارت بھری باتیں کرنے میں لگ جاتے تھے۔

میں تب پانچویں کلاس میں تھا اور گاؤں میں ننھیال کی طرف گیا ہوا تھا، پولیس کی جانب سے چھاپا مارا گیا تو حسب معمول مرد گھروں سے نکل کر روپوش ہو گئے، ریڈنگ پارٹی کو لیڈ کرنے والے افسر (بدتہذیب جانور) نے حاملہ عورت کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ یہ الفاظ کہے ”او مٹکے والی مائی، کدھر گیا تیرا خصم“ یقین مانیں یہ الفاظ میرے ذہن میں آج تک نقش ہیں۔

پھر یوں ہوا کہ روز روز کے چھاپوں سے تنگ آ کر اور خواتین کی پردہ دری پر بطور انتقام میرے ہی علاقے کے نوجوانوں نے اسلحہ اٹھایا۔ ان نوجوانوں کو پورے علاقے کی عوام کی ہمدردی حاصل ہوتی تھی، یوں پولیس کے چھاپے کی اطلاع بھی ان کو پہلے مل جاتی تھی۔ والد محترم مرحوم چونکہ صحافی بھی تھے تو مجھے یاد ہے کہ ہمارے ہاں شاہ عالم نام کے ایک پولیس انسپکٹر تعینات ہوئے تو انہوں نے ایک مطلوب ملزم کو گرفتار کیا مگر گرفتاری نہیں ڈالی اور تین دن تک اس ملزم پر اعتراف جرم کرنے اور ساتھیوں کا پتہ بتانے کے لئے ٹارچر کیا جاتا رہا، تنگ آ کر چوتھے روز جعلی پولیس مقابلے میں پار کر دیا گیا۔

اہلخانہ کو اس ملزم کی میت بھی تین روز کے بعد دی گئی۔ اس ملزم کے ہاتھ پاؤں کے ناخن اکھڑے ہوئے تھے اور تشدد کے نشان موجود تھے۔ جس کے بعد اس ملزم کے بھائی نے پولیس سے انتقام لینے کے لئے اسلحہ اٹھایا۔ وہ انسپکٹر صاحب کو ڈی ایس پی کے عہدہ پر ترقی ملی، شاید اب وہ ریٹائر ہو چکے ہوں۔ مگر چونکہ میں والد صاحب کے ہمراہ ہوتا تھا تو اس پروموشن اور قصے کا عینی شاہد ہوں۔

تحریر طوالت اختیار کر گئی ہے تو قارئین کرام کچھ ویسا ہی واقعہ پرسوں خود میرے اپنے خاندان میں پیش آیا۔ جب میں اہلخانہ کے ہمراہ جام پور شہر سے گاؤں پہنچا تو کال موصول ہوئی کہ پولیس نے چھاپا مارا ہے اور میرے ساتھ ہی موجود کزن کے چھوٹے بھائی کو اس وجہ گرفتار کر کے لے گئے کہ اس کزن کو پیش کرو گے تو یہ بندا چھوڑ دیا جائے گا۔ بہرحال میں نے مقامی صحافی برادرم نفیس شیروانی سے واقعہ کی تحقیق کی درخواست کی تو عقدہ کھلا کہ میرے اس کزن کے خلاف پولیس کی مدعیت میں سات ماہ پہلے کا ڈکیتی کا مقدمہ درج ہے اور وہ اس مقدمے میں اشتہاری ہے۔

میں نے تعجب کے مارے دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ کیونکہ انہی دنوں میں اس کزن کی شادی کی تقریبات چل رہی تھیں اور ڈکیتی تو کیا کسی معمولی چوری سے بھی اس شخص کے سرے سے لینا دینا نہیں تھا۔ دوسری بات اس مقدمہ کے اندراج سے لے کر اشتہاری ہونے کے عمل سے بھی پورا خاندان اور وہ کزن لاعلم تھا۔

میں چونکہ پڑھے لکھے اور صحافی ہونے کے زعم میں سوالات اٹھائے تو مجھے یہی جواب ملا کہ یہاں یہی قانون چلتا ہے، یہی قانون ہے۔ اس ایف آئی آر کے وقتوں کے ایس ایچ او سے دریافت کیا تو انہوں نے بھی جواب دیا کہ چونکہ یہ کزن کسی ملزم سے انجانے میں فون پر رابطے میں رہا ہو گا یا پھر کسی نے ذاتی پرخاش نکالنے کے لئے اصل ملزمان کے ساتھ فرمائشی نام لکھوا دیا ہو گا۔

قصہ مختصر چھاپے نما اغوا کی اس کارروائی میں پکڑے گئے بڑے جتن کرنے کے بعد چھوٹے بھائی کو مٹھائی کے پیسے لے کر چھوڑ دیا گیا۔ جبکہ وہ کزن جس نے آج تک چیونٹی بھی نہیں ماری وہ ناکردہ گناہ کے سلسلے میں ضمانتیں اور انکوائریوں کی درخواستیں دیتا پھر رہا ہے۔ اس سب پراسس میں جتنا پیسہ لگ رہا ہے وہ مال مویشی بیچ کر یا زمین بیچ کر لگ رہا ہے۔ قارئین کرام اب ایسے ہی درجنوں فرمائشی مقدمات کا شکار لوگ گاڈ فادر پنجاب پولیس کے خلاف نہیں اٹھ کھڑے ہوں گے تو کیا کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments