لبرل ازم کا بنیادی تصّور اور پاکستانی لبرلز


اکثرپاکستانیوں کے تصور میں ‘لبرل’ وہ ہوتا ہے جو خدا کے وجود سے انکاری ہو، مذہب سے بیزار ہو، سماج میں مغربی طرز کی جنسی آزادی کا خواہش مند ہو، مغربی اقدار کے مطابق عورتوں کے حقوق کا مطالبہ کرتا ہو، مقدس شخصیات یا آسمانی کتب کی توہین پر ‘کھلا ذہن’ رکھتا ہو، شراب پیتا ہو، رقص و موسیقی کا دیوانہ ہو، غرض کہ معاشرے میں مادر پدر آزادیوں کا علمبردار ہو۔ عام پاکستانیوں کی ‘مقامی لبرلز’ سے متعلق اس رائے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں عمومی طور پر خود کو لبرل کہلوانے والے افراد کا تعلق پاکستان کے الیٹ یا انگلش سپیکنگ اشرافیہ سے ہے۔ اشرافیہ کے علاوہ نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے اور خود کو لبرل کہلوائے جانے والے افرادکے طرزِ زندگی اور افکار کو بغور دیکھا جائے تو وہ بھی مغرب سے ہی مرعوب دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے ہاں ایسے خواتین و حضرات کو اسی نسبت سے مختلف تضحیک آمیز ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ یہ افراد خود کو مگر ‘جمہوریت پسند لبرلز’ کہلانا پسند کرتے ہیں۔
لفظ ‘لبرل’ دراصل انگریزی لفظ ‘لبرٹی’ سے نکلا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ لبرٹی سے مراد ‘آزادی’ ہے۔ کیا لبرل ازم کا مطلب مادر پدر آزادی ہے؟ ہر گز نہیں۔ یقیناً ایسا تو خود لبرل افکار رکھنے والے افراد بھی نہیں سوچتے ہوں گے۔ ہر معاشرے میں کلٹ گروہ تو ضرور پائے جاتے ہیں۔ ایسے کئی افراد موجودہیں کہ جو سمجھتے ہیں کہ خدا کو اگر انسان کے جسم کا پردہ مقصود ہوتا تو وہ اُسے بے لباس پیدا نہ کرتا۔ چنانچہ کئی مغربی دارلحکومتوں میں آج بھی برہنہ خواتین و حضرات کے جلوس برآمد ہو تے ہیں۔ تاہم ایسے اور دیگر انتہا پسند اور غیر فطری نظریات رکھنے والے گروہوں کو لبرل ازم سے گڈ مڈ کرنا کسی طور بھی قرینِ انصاف نہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے اسلامی تعلیمات کے بر عکس مذہب کے نام پر درندگی پھیلانے والے سفاک انتہا پسندوں کا تعلق دینِ اسلام سے نہیں جوڑا جا سکتا۔
مغرب میں کئی عوامل کی بنا پر جب تاجر طبقہ اُبھرا تو جاگیر داروں کے دَور کا خاتمہ نظر آنے لگا۔ روشن خیالی کا زمانہ (Age of Enlightenment) طلوع ہوا تو تاجر طبقہ مورثی آمریت کے خلاف صف آرا ہو نے لگا۔ کیونکہ چرچ اس زمانے میں نا صرف کہ بادشاہت کا حلیف تھا بلکہ از خود بھی اس دور کے سب سے بڑے ‘فیوڈل لارڈ’ کی حیثیت رکھتا تھا، چنانچہ بادشاہت سے متحارب تاجر طبقہ چرچ کو بھی اُسی نظر سے دیکھنے لگا۔ دوسرے لفظوں میں آمریت کے ساتھ ساتھ یہ طبقہ مذہب مخالف بھی سمجھا جانے لگا۔ جان لاک نے جب لبرل نظریات پیش کئے تو لبرل ازم کو ایک فلسفے کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ ایک نظریئے کی حیثیت میں لبرل ازم آج بھی دنیا کا مقبول ترین فلسفہ ہے۔
دیکھا جائے تولبرل ازم کی تحریک بنیادی طور پر معاشی عوامل کی پیداوار تھی۔ انگلستان میں تاجروں کی تحریک نے زور پکڑا تو پارلیمنٹ کے ذریعے بادشاہ کے جنگیں چھیڑنے اور ان پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کی خاطر ٹیکس عائدکرنے کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا۔ بتدریج ‘ہاؤس آف کامنز’ عام تاجروں، کسانوں اور ان کے نمائندوں کے قبضے میں آنا شروع ہوا تو قانون سازی کے ذریعے بادشاہوں اور ملکاؤں کے دیگر اختیارات بھی محدود ہوتے چلے گئے۔ معاشرے میں معاشی آسودگی عام ہوئی تو ایک کے بعد ایک، آزاد تجارت، مذہبی آزادیوں، آزادی اظہارِ رائے اور تعلیم سمیت عام شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق ریفارمز بلز آنا شروع ہوگئے۔ برطانیہ کی دیکھا دیکھی آزادی کی تحریک دیگر مغربی ممالک میں پھیلتی چلی گی۔ آنے والے برسوں عشروں میں مغربی یورپ اور شمالی امریکہ کے معاشرے جمہوری رویوں کی بناء پر باقی دنیا کے مقابلے میں صدیوں آگے نکل گئے۔
سوال یہ ہے کہ آخر لبرل ازم ہے کیا؟جیسا کہ بتایا گیا، لبرلز کے آبا ؤ اجدا دیورپ کے تاجر تھے۔ چنانچہ لبرلز وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے آزاد منڈی کی داغ بیل ڈالی۔ لبرلز ہی نے بادشاہت اور چرچ کی جانب سے عائد کردہ ڈیوٹیوں اورخراج کو چیلنج گیا۔ لبرلز نے اپنے بنیادی فلسفے کی بنیاد استدلال اور دلیل (Rationalism) پر رکھی۔ منطق کو معیشت سمیت سیاست، مذہب اور زندگی کے دیگر شعبہ جات کی بنیاد قرار دیا گیا۔ لبرلز ازم سے مراد ‘آزاد معاشرے’ کے اندر شہریوں کی زیادہ سے زیادہ آزادی ہے۔ چنانچہ آج بھی لبرلز شخصی آزادیوں اورانسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ لبرلز سمجھتے ہیں کہ مملکت کا کام صرف قوانین بنانا اور ان پر عمل درآمد کروانا ہے۔ حتی کہ یہ فیصلہ بھی آزاد مملکت کے آزاد شہریوں کی آزادانہ رائے پر چھوڑ دیا گیا کہ امورِ مملکت کون چلائے گا۔
 جنگِ عظیم دوئم کے بعدسوویت یونین دنیا پر حکمرانی کے لئے مغرب کا حریف بن کر سامنے آیا تو سوشلسٹ معیشت کے مقابلے میں آزاد منڈی کی معیشت کو’مغربی آزادیوں’ کے روپ میں پیش کیا گیا۔ ‘گھٹن زدہ’سوشلسٹ معاشروں کے مقابلے میں ‘انسانی حقوق’ اور ‘شخصی آزادیوں’ کو مارکیٹ کیا جانے لگا۔ مگر سب جانتے ہیں کہ قوموں پر تسلط کے پیچھے محکوم سر زمینوں کے نیچے ٹھاٹھیں مارتا تیل کا سمندر اور دیگر معاشی محرکات ہی کارفرما تھے۔ دوسری طرف سرخ انقلاب مغرب کو استعماری سماج کے طور پیش کرتا رہا۔
وطن عزیز وجود میں آیا تو دو متحارب نظریات میں کش مکش عروج پر تھی۔ مذہبی قوتوں، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے سامنے بائیں بازو کی سیاست عزیمت اور مزاحمت کا استعارہ بن کر ابھری۔ بھٹو صاحب اسی سرمایہ کارانہ نظام اور ملّااِزم کے خلاف اسلامی سوشل ازم کا نعرہ لے کر افق پر چھا گئے۔ اَسّی کی دہائی میں سوشل ازم نے پسپائی شروع کی تو خطے میں مغربی اہداف اور ترجیحات بھی بدلنے لگیں۔ پرانے اتحادی حریفوں اور حریف اتحادیوں میں بدلنے لگے۔ اکیسویں صدی کا ظہور ہوا تو کل کے ‘سُرخے’ راتوں رات ‘لبرل’ بنتے چلے گئے۔ آج انہی ‘سرخوں’ میں سے اکثر ‘مغرب زدہ لبرلز’ کے سرخیل ہیں۔ گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے یہی مغرب زدہ لبرلز ایک نیٹ ورک کی شکل میں جمہوریت، سویلین بالا دستی، شخصی آزادیوں سمیت انسانی حقوق کی سر بلندی کے لئے ‘جدو جہد’میں مصروف رہے ہیں۔ آج جب کہ سیاسی شطرنج پر مہروں کا رُخ بدل چکا ہے تو زندگی کے ہر شعبے میں موجود خاندانی باشاہت کے پیرو کاروں اور الیکٹرانک میڈیا کی پیداوار نیم خواندہ ‘میڈیا سٹارز’ کا رویہ تو قابلِ فہم ہے، حیرانی ہے تو جمہوری روّیوں کے علمبردار’مغرب زدہ لبرلز’کے طرزِ عمل پر کہ جن میں سے اکثر پڑے آج کل یا توموسیقی سے دل بہلاتے ہیں یا تو پھر دائیں بائیں کی ہانکتے ہیں۔ والٹیئر  نے اپنے فکری حریف کو مخاطب کیا، ‘مجھے تیری رائے سے اختلاف ہے، مگر میں تیرے حقِ اختلاف کے تحفظ کے لئے اپنی جان دے دوں گا’۔ اگر کسی فرد کا رہن سہن مغربی ہو، لیکن وہ وقتی اور گروہی مفادات کی خاطر جبر کے نظام اور آمرانہ رویوں کی حمایت کرے، تو کیا ہم اسے’جمہوریت پسند لبرل’ کہہ سکتے ہیں؟ افسوس کہ دودھ، سرخ مرچ اور چائے کی پتی سمیت وطنِ عزیز میں زہر بھی خالص دستیاب نہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments