سعادت، آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے


ہر انسانی روح میں کچھ ایسی خفیہ طاقت ہوتی ہیں کہ جب تک اسے دریافت کر کے جگایا نہ جائے وہ سوئی ہوئی رہتی ہیں۔ اور جب تک کوئی شخص اپنے اندر موجود اس سوئی ہوئی طاقت کو نہیں جگاتا تب تک وہ اپنی زندگی سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز بھی نہیں ہو سکتا۔ اسی خفیہ طاقت کو دوسرے الفاظ میں احساس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ

ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان کو اللہ تعالی نے لاتعداد نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ان نعمتوں کو انجوائے وہی کرتا ہے جسے ان کا بر وقت احساس ہو جائے۔ اگر آپ گزشتہ ایک دو عشروں کے دوران اپنے جاننے والوں کی زندگی پر ذرا نظر دوڑائیں گے تو آپ کو ہر شخص ترقی کرتا ہوا اور پہلے سے زیادہ بہتر حالت میں نظر آئے گا لیکن اس کے باوجود زیادہ تر لوگ اضطراب، ڈپریشن اور پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہم میں قناعت کے عنصر کی کمی ہے۔

’قناعت‘ جو کچھ مل جائے اس پر صبر کر لینے کی خو کو کہا جاتا ہے، یعنی ضرورت کی چیزوں کی کم مقدار پر اکتفا کرنے اور اس پر راضی رہنے کو قناعت کہتے ہیں۔ بعض لوگ قناعت اور بخل میں فرق نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے وہ قناعت پسند لوگوں کو بھی بخیل سمجھنے لگتے ہیں، حالانکہ قناعت کا تعلق انسان کے انفرادی اخلاق سے ہے جبکہ بخل کا تعلق اجتماعی اخلاق سے ہے۔ ضرورت کے وقت دوسروں کی مدد نہ کرنا، جہاں خرچ کرنا شرعا یا مروتاً واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا اور معاشرے کو اپنے مال، وسائل اور صلاحیتوں سے محروم رکھنا بخل کہلاتا ہے۔ اگر کسی شخص نے حقیقی معنی میں اس بات کو سمجھ لیا کہ یہ دنیا ایک گزرگاہ ہے، یہ ہماری مستقل رہائش گاہ نہیں ہے اور یہ کہ یہ آخرت تک پہنچنے والی ایک لمبی سڑک کا ایک اسٹیشن ہے جہاں ہم کچھ دیر کے لیے ٹھہرے ہوئے ہیں تو ایسا شخص یقینا

مزید آگے بڑھنے سے پہلے اپنے پاس موجود نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے ان سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرے گا۔

صحیح مسلم کی ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ قد افلح من اسلم، ورزق کفافا، وقنعہ اللہ بما آتاھ۔ یقیناً وہ انسان کامیاب و بامراد ہو گیا جس نے اسلام لایا، اسے گزر بسر کے بقدر روزی ملی اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دیا ہے اس پر اس کو قناعت کی توفیق بخشی۔ ”

اس کو ایک مثال سے سمجھ لیجیے کہ ایک طرف ایک امیر ہے جس کے پاس لذیذ ترین کھانا رکھا گیا ہے لیکن اس کی بھوک کی خواہش کسی عارضے کی وجہ سے جاتی رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ نہ اس کھانے کو کھا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی لذت کو محسوس کر سکتا ہے جبکہ دوسری طرف ایک غریب ہے جسے بھرپور بھوک لگتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی بھوری روٹی کو بھی چٹنی میں ڈبو کر مزے سے کھا رہا ہے۔ بتائیے خوش بخت اور سعادت مند کون ہوا؟ ظاہر ہے وہی غریب جس کو اپنے سامنے موجود نعمت سے فائدہ اٹھانے کی توفیق ملی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب امیر ہیں لیکن نہ تو ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہمارے پاس کتنی دولت ہے، نہ یہ پتہ

ہے کہ وہ دولت ہے کیا اور نہ ہی اپنی مالداری کا احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کے ساز و سامان پر ہر وقت ہماری نظر ہوتی ہے لیکن خود اپنی لاتعداد نعمتوں کا احساس تک نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ہم ساری زندگی احساس کمتری کا شکار ہو کر جی لیتے ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ جب ہمیں کبھی سر درد، بخار یا دانت کا درد بے چین کر کے رکھ دیتا ہے تو اس وقت ہمیں پوری دنیا سیاہ اور تاریک نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس وقت ہم پوری طرح صحتمند اور تندرست ہوتے ہیں تو یہی دنیا ہمیں خوبصورت، سفید، شفاف اور چمکتی ہوئی دکھائی کیوں نہیں دیتی؟

اس وقت کیوں ہمیں صحت و عافیت جیسی عظیم نعمت کا احساس نہیں ہوتا اور ہم کیوں اپنی زندگی سے لطف نہیں اٹھا پاتے؟ کیوں ہم میں سے ہر کوئی اپنے ماضی کے لیے ترستا ہے اور اپنے حال کو ماضی بننے سے پہلے انجوائے نہیں کرتا؟ کیوں بوڑھا اپنی جوانی پر روتا ہے لیکن جوان اپنی جوانی پر نہیں ہنستا؟ کیوں ہم نعمت کی قدر اس وقت تک نہیں جانتے جب تک وہ ہم سے چھن نہ جائے؟ جب ہمارے پاس بے شمار ایسی نعمتیں ہیں کہ جن میں سے کسی ایک کے سامنے بھی سونے کے بڑے بڑے ڈھیر کوئی حیثیت نہیں رکھتے تو پھر ہم سعادت کو سونے اور مال و دولت کی فراوانی میں ہی کیوں تلاش کرتے ہیں؟ کیا صحت اور تندرستی کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ کیا آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤں، اور زندگی وغیرہ کی نعمتیں سونے سے کم ہیں؟ اچھا، اگر ایسا ہے تو ہم میں سے کون ہے جو اپنی ایک آنکھ کے بدلے کروڑوں ڈالر لے کر مطمئن ہو جائے؟

حقیقت یہ ہے کہ ہم سب سعادت مند ہیں لیکن غور نہیں کرتے کہ روز ہم کتنی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ نعمت کا احساس دلانے والی اپنے اندر موجود سوئی ہوئی طاقت کو جگانے کی کوشش نہیں کرتے۔ آس پاس والوں سے خوشیاں حاصل کرنے کے طلب گار رہتے ہیں لیکن اپنے پاس موجود خوشی کے ڈھیر سارے اسباب پر نگاہ بصیرت نہیں ڈالتے۔ یقیناً غربت بھی بڑی طاقتور بلا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس نے خوشی اور سعادت کے سارے اسباب ہم سے چھین لیے ہوں۔

یہی بات سرور عالم ﷺ نے ہمیں ایک حدیث میں سمجھائی ہے کہ: ”تم میں سے جس نے بھی صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے گھر یا قوم میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو یہ ایسا ہے گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی۔ ( ترمذی) غور کیجئے کہ ہم میں سے بیشتر افراد مذکورہ حدیث میں ذکر کی گئی نعمتوں سے بہرہ ور ہیں لیکن اس کے باوجود نہ ہمیں ان نعمتوں کا احساس ہے اور نہ ہی شکر کے ساتھ ان نعمتوں کو انجوائے کر پاتے ہیں۔

یقیناً یہ دنیا دار الاسباب ہے، اور ہم اسباب اختیار کرنے کے ہی مکلف ہیں، اس لیے زندگی میں ترقی کی راہیں تلاش کر کے اپنی معاشی حالت بہتر کرنے اور حلال روزی کمانے کے لیے جائز بھاگ دوڑ کرنے سے اسلام منع نہیں کرتا کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہونا اسلام کی تعلیم نہیں، لیکن ساتھ یہ تصور بھی تو اسلام نے ہی دیا ہے کہ۔ لیس الغنى عن کثرة العرض، ولکن الغنى غنى النفس۔ ”متفق علیہ)

تونگری اور مالداری یہ نہیں ہے کہ ساز و سامان زیادہ ہو، بلکہ اصل امیری یہ ہے کہ انسان کا دل غنی ہو۔

جی ہاں! یہی عرض کرنا مقصد ہے کہ سعادت آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے، دل غنی ہو گا تو پاس موجود چھوٹی سی نعمت پر بھی خوش رہیں گے اور دل فقیر ہو گا تو سونے کی کئی وادیوں کے مالک ہونے کے باوجود بھی نفس کی بھوک ختم نہیں گی۔ لہذا اپنے خالق کے متعلق اچھا گمان رکھیے، اپنی سوچ کو پازیٹو کیجیے اور خود کو ہر نعمت پر شکر اور ہر مصیبت پر صبر کا خوگر بنائیے۔ ان شاء اللہ ہر حال میں سعادت مند اور دونوں زندگیوں میں کامیاب رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments