فکر فردا نہ کروں؟


ہم بحیثیت مجموعی ذرا مصروف رہتے ہیں۔ جب جنوبی پنجاب، کوہ سلیمان اور سندھ میں یہ قیامت ٹوٹ رہی تھی ہم یہ ضروری فیصلے کر رہے تھے کہ زرداری زیادہ چالاک ہے یا شہباز زیادہ موقع پرست، عمران کے دھرنے زیادہ کامیاب ہیں یا نون لیگ کے جلسے۔

ماہ جولائی کے وسط میں سیلاب آتا ہے، اور سارا ملک اس سے بے خبر ہے، نا تو ٹی وی چینل خاطر خواہ کوریج دے رہے ہیں، نا ہی انٹرنیٹ پر نقصانات کا کوئی ڈیٹا موجود ہے۔ تقریباً ماہ اگست کے وسط میں ساری قوم کو ہوش آیا۔ مہربان نے آتے آتے دیر کر دی۔ لیکن پانی کب رکتا ہے، کب انتظار کرتا ہے، بے رحمی پر اترے تو، کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت۔ سفاکی پر آمادہ ہوا تو 4 لاکھ سے زیادہ گھرانے اجاڑ دے، 33 ملین افراد کو متاثر کیا، ایسا برباد کیا کہ صف ماتم بچھانے کی بھی جگہ نا چھوڑی۔ سڑکیں، فصلیں، عمارتیں اس بحر ظلمات نے سب کچھ ڈبو دیا۔

بہر حال جب تک ہم متنبہ ہوئے تقریباً چار ہفتے کا وقت گزر چکا تھا۔

دیر آید، درست آید والی بات غلط ثابت ہو گئی۔ دیر تو کوتاہی ہے، اور کوتاہی کبھی درست نہیں ہو سکتی۔ پھر سول سوسائٹی کو جوش آیا۔ امدادی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ اب امدادی کارروائی صرف انفرادی، اجتماعی اور سرکاری سطح پر محدود نہیں رہی، خوش آئند بات یہ ہے کہ یو این اور یو ایس ایڈ جیسے عالمی ادارے بھی میدان عمل میں کود چکے ہیں۔ یاد رہے، ۔ یہ امداد غربت ختم نہیں کرے گی لیکن ایک لائحہ عمل تیار کرنے میں ضرور مددگار ہو گی۔

مثال شاید آپ کو سیاق و سباق سے غیر متعلقہ محسوس ہو لیکن راقم کو رہ رہ کر یہی خیال آتا ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد جب سارا براعظم یورپ جنگ کے خونریز نتائج بھگت رہا تھا۔ یورپی ممالک کی معیشت اور معاشرت کا بیڑا غرق ہو چکا تھا، ایسے کڑے وقت میں امریکا کی طرف سے مارشل ایڈ کی فراہمی اور اس کے صحیح استعمال نے جنگ زدہ ملکوں کی تعمیر نو میں بڑا فعال کردار ادا کیا۔

یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ امداد کی فراہمی کی دو اقسام ہیں۔ شارٹ ٹرم امدادی مہم، جو وقت کی فوری ضرورت ہے۔ فٹا فٹ، روزمرہ کی ضرورت کا سامان لے کر پہنچو۔ اس قسم کی مدد فوری مرہم کا کام کرتی ہے، محبت اور فکر کا اظہار ہوتی ہے۔ تسلی، تشفی اور دلاسے کا باعث بنتی ہے۔ شارٹ ٹرم ریلیف میں بے ایمانی یا کرپشن کا سوال کم ہی پیدا ہوتا ہے۔

دوسری قسم کی امداد کو لانگ ٹرم امدادی کارروائی کہ لیجیے۔ اس میں آپ اس قدرتی آفت کی وجوہات اور اس کے دیرینہ نقصانات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ تا کہ آئندہ اس طرح کے حالات ہی پیدا نا ہوں۔ اس کو بڑا مشکل نام دیا گیا ہے، Sustainable Development، کاغذوں اور کانفرنسوں میں خوب پڑھا اور سنا جاتا ہے، وطن عزیز میں عملی طور پر کم ہی دکھائی دیتا ہے۔

Sustainable Development یعنی ایسی امدادی کارروائی جس کے نتائج پائیدار ہوں، یعنی مرہم پٹی کر کے، آنسو پونچھ کے بھاگ نہیں جانا، ساتھ نبھانا ہے، سڑکیں پختہ کرنی ہیں، سکول، کالج، ہسپتال تعمیر کرنے ہیں۔ ان علاقوں کو مستقبل کے لیے فلڈ پروف بنانا ہے۔ نکاسی آب کا نظام بہتر نہیں بہترین کرنا ہے۔ ان لوگوں کو مستحق سمجھ کر امداد کا منتظر نہیں بنانا بلکہ مستحسن قرار دے کر خود کفیل بنانے کی کاوش کرنی ہے

کوئی شبہ نہیں کہ لاہور کو پیرس بنانا، سرکاری استعمال کے لئے مہنگی گاڑیاں لینا، ہیلی کاپٹر میں جھولے لینا، سیلابی علاقوں کے ہوائی جائزے لینا، متاثرین کو اونچائی سے ٹاٹا کرنا، امداد دیتے وقت تصویریں بنوانا، سیلاب زدگان کو یہ احساس دلانا کہ یہ عذاب الہی ان کے گناہوں کا نتیجہ ہے زیادہ ضروری ہے۔

المیہ یہ ہے ہم آفت پر سیاست کرنے والے لوگ ہیں۔ ادھر کوئی مصیبت پڑتی ہے ادھر ہم اپنی سیاسی دکان چمکانے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس وقت پورے ملک میں ایک ریس لگی ہوئی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن، سیاسی جماعتیں، سوشل میڈیا اسٹارز، نجی اور سرکاری ادارے، حتی کہ جامعات بھی، ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر میں ہے کہ کس نے کتنا پیسا اکٹھا کیا، کس نے کتنے ٹرک بھجوائے۔ اچھا ویسے سچ بتاؤں تو کہیں کہیں سرکاری ملازمین پر ذرا سختی بھی کی جا رہی ہے، ٹارگٹ دیے جا رہے ہیں کہ اتنے وقت میں امداد کی مد اتنا پیسا اکٹھا کر کے لائیں تا کہ ادارے کا نام روشن ہو اور راقم سمجھنے سے قا صر ہے کہ خوش ہوں یا حیران کہ امداد کا یہ سیل رواں جب رکے گا تو کیا ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments