ٹرانسجینڈر ایکٹ اور جماعت اسلامی کا اگلا مینی فیسٹو


گزشتہ کچھ دنوں سے جماعت اسلامی ٹرانسجینڈر ایکٹ کو لے کر ایک سیاسی بیانیہ ترتیب دے رہی ہے اور لوگوں میں یہ ابہام پھیلا رہی ہے کہ اس ایکٹ کے پاس ہو جانے کی وجہ سے ملک میں ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا۔ اس موضوع کے اوپر فرید پراچہ صاحب نے ایک تفصیلی کالم بھی تحریر کر دیا۔ سب سے بنیادی ابہام جو جماعت اسلامی اس ایکٹ کو لے کر لوگوں میں پھیلا رہی ہے وہ ہے لفظ ہم جنس پرستی۔ اور اس کے لئے جو استعارے کے طور پر انگلش کا مخفف استعمال ہو رہا ہے وہ ہے LGBT۔

دراصل یہ مخفف چار حروف پر مشتمل مثلاً L جو مخفف ہے lesbian یعنی وہ عورتیں جو آپس میں جنسی خواہشات پوری کرتی ہیں، دوسرا لفظ ہے G جو مخفف ہے gay یعنی وہ وہ مرد جو آپس میں جنسی خواہشات پوری کرتے ہے، تیسرا لفظ ہے B جو مخفف ہے Bisexual یعنی جو مرد اور عورت دونوں سے جنسی تعلقات رکھتا ہو اور آخری لفظ ہے T جو مخفف ہے Transgender کا یعنی کہ خواجہ سرا۔ اب اس ایکٹ میں کہیں بھی پہلے تین حروف ایل جی بی نہیں لکھے ہوئے صرف اور صرف ٹرانسجینڈر کا تذکرہ ہے یعنی کہ خواجہ سرا۔

دوسرا عام لوگوں میں یہ ابہام پھیلایا جا رہا ہے کہ اس ایکٹ کے پاس ہونے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مرد اور خواتین نے اپنی جنس تبدیل کروائی ہے۔ اور اس کے لیے انہوں نے کچھ اعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں۔ اس نقطہ نظر کی بھی اگر ہم جان پڑتال شروع کریں تو 2017 کی مردم شماری میں پاکستان میں جو خواجہ سراؤں کی تعداد مرتب کی گئی تھی وہ لگ بھگ 12 سے 15 ہزار تھی۔ اور بہت سارے خواجہ سراؤں نے اس مردم شماری میں حصہ تک نہیں لیا۔

اب لگ بھگ 15،000 سے 20،000 کے درمیان خواجہ سرا اس ملک میں پائے جاتے ہیں اس ایکٹ کے پاس ہونے قبل بھی اتنے ہی کچھ پائے جاتے تھے۔ کیوں کہ اس وقت نادرا کے سسٹم میں صرف دو ہی آپشن موجود تھی یعنی مرد اور عورت اس وجہ سے ان لوگوں کے شناختی کارڈ یا تو مرد یا پھر عورت کے حوالے سے بنائے گئے تھے۔ یا پھر تھے ہی نہیں۔ جونہی یہ ایکٹ پاس ہوا تو نادرا کے سسٹم میں تیسری نئی صنف خواجہ سرا بھی شامل کر دی گئی۔ اس آپشن کے آنے کے بعد جو خواجہ سرا یا تو مرد یا پھر عورت بن کر کارڈ بنوا چکے تھے انہوں نے اپنی اصلی شناخت یعنی کہ خواجہ سرا والی تبدیل کروائی اس لیے اس ایکٹ میں لکھا گیا ہے کہ جو خواجہ سرا شناختی کارڈ مرد یا عورت کی شناخت کے ساتھ بنوا چکے ہیں تو وہ اپنی شناخت خود تبدیل کروا سکتے ہیں جس کے لیے لفظ استعمال کیا گیا ہے self perceived gender identity۔ یعنی کہ وہ خود آ کر بتائیں کہ اس کی اصلی شناخت خواجہ سرا ہے۔ اگر تو خواجہ سرا نابالغ ہے یعنی minor ہے تو اس کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے گا۔

تیسری بنیادی بات اس ایکٹ میں شامل ہے وہ یہ کہ اگر خواجہ سرا کی شباہت مرد کے ساتھ ملتی ہے۔ تو اس کو وراثت اور دیگر حقوق مردوں کے برابر ملیں گے اگر تو اس کی شکل و شباہت عورتوں کے ساتھ زیادہ مماثلت رکھتی ہے تو اس کے حقوق عورتوں کے برابر ہوں گے۔ اور اگر کوئی علامت بھی ظاہر نہ ہو یا یہ علامات باہم متعارض ہوں اور پہچان مشکل ہو تو پھر وہ خنثیٰ مشکل کہلاتا ہے، یعنی جب تک لڑکا یا لڑکی میں سے کسی ایک جانب رجحان پایا جائے تو اسے اسی جنس کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا یہی بات اس ایکٹ میں بھی موجود ہے۔

اگر مرد سے مماثل ہے تو مرد کے حقوق یا پھر عورت کے برابر حقوق۔ ایک دفعہ حضرت علیؓ سے دریافت کیا گیا کہ خواجہ سراؤں کی وراثت کا کیا مسئلہ ہے؟ تو آپ نے فوراً جواب دیا کہ خواجہ سراؤں کی وراثت کا تعین اس کی مشابہت کی بنا پر کیا جائے گا۔ یعنی اگر کوئی مرد کے مشابہ ہے تو مرد کا حصہ پائے گا اور اگر وہ عورت کے مشابہ ہے تو عورت کا حصہ پائے گا۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی اس طرح کے ابہام کیوں پھیلا رہی ہیں۔ وجہ واضح ہے کہ جماعت کے پاس اب کے پی کے میں قبائلی علاقوں اور دوسرے اضلاع میں جانے کے لئے کوئی واضح سیاسی بیانیہ نہیں جیسے افغان وار کے دوران جہاد، محترمہ بے نظیر کے خلاف اسلام میں عورت کی حکمرانی، مشرف دور میں اسلام کا دفاع اور روشن خیالی کے خلاف جنگ وغیرہ وغیرہ۔ اب چونکہ عمران خان اور قوم پرست جماعتوں نے جماعت کے پرانے تمام سیاسی لائحہ عمل ناکارہ کر دیے ہیں اس لئے اپنی ساکھ بچانے کے لئے ایکٹ کے خلاف اور سود مکاؤ شورش ڈال کر وہ اپنی ساکھ مذہبی طبقے میں بحال کرنا چاہتے ہیں اس لئے انہوں نے اس ایکٹ کے پورے چار سال بعد اور انیس سو اٹھانوے میں سود کے خلاف آنے والے فیصلے کو اپنے اگلے الیکشن کا مینی فیسٹو بنا رکھا ہے مگر اب عوام باشعور ہیں۔ جیسے حبیب جالب نے کہا تھا دس کروڑ یہ گدھے جن کا نام ہے عوام والی بات اب نہیں رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments