برطانوی حملہ آور بمقابلہ دیگر اقوام: وجاہت صاحب سے اختلاف کے ساتھ


محترم المقام جناب وجاہت مسعود صاحب اور جناب رضوان رضی صاحب کو احقر العباد اپنے اساتذہ کا درجہ دیتا ہے، جن سے اس طالب علم نے تاریخ، ادب، فلسفہ، سیاسیات اور دیگر کئی علوم کو سیکھا۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان دو اساتذہ صاحبان کی ہی بدولت احقر کو اختلاف رائے اور احترام انسانیت جیسے وصف کو استعمال کر کے اپنا نکتہ نظر دوسرے تک پہنچانے کا ملکہ بھی ملا۔ چنانچہ اسی تناظر میں وجاہت مسعود صاحب کے ایک حالیہ کالم کے اوپر اپنی چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں، جس میں انہوں نے ملکہ برطانیہ کے انتقال کے متعلق لکھا ہے۔

مجھے اپنے ممدوح کی اس بات سے کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر برطانیہ سے آئے ہوئے لوگوں کو ہم حملہ آور یا قابض کہتے ہیں، تو دیگر اقوام جن میں عرب، ایرانی اور وسطی ایشیاء کے افراد شامل ہیں ان کو ہم کیوں نہیں کہتے؟ اور یہ بات سو فیصد درست ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ایک ہی چیز کے متعلق دو معیار گھڑ لیں اور پھر اپنی پسند یا ناپسند کو مدنظر رکھ کر فیصلے صادر کریں۔ جب کوئی بھی فرد، گروہ یا ملک دوسرے خطے پر حملہ آور ہوتا ہے تو وہ جارح ہی کہلاتا ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب، گروہ، علاقے یا فرقے سے کیوں نہ ہو۔

تاہم ان کا دور گزر جانے کے بعد ، تاریخ اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ فاتح نے مفتوحہ کے ساتھ کیا سلوک کیا، ان سے کیسے روابط برقرار رکھے اور ان کی بدولت اس خطے میں کون سی سماجی، معاشی، دفاعی، جغرافیائی، علمی، فکری اور تمدنی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اگرچہ یہ کام جان جوکھوں کا ہے کہ ایک طالب علم کو تاریخ کھنگال کر پھر اس سے نتائج اخذ کرنے کے لئے بے تحاشا وقت اور وسائل درکار ہوتے ہیں تاہم تاریخ کے مشتاق افراد کے لئے یہ کام چنداں مشکل نہیں ہوتا۔

اگر ہم اس تناظر میں ہندوستان پر مسلط شدہ برطانوی استبداد اور جبر کے دور کا موازنہ دیگر اقوام سے کریں تو ہمیں سب سے پہلا فرق یہ نظر آتا ہے کہ محمود غزنوی کے بعد جو بھی جاری آیا اس نے اپنا مسکن ہندوستان کو بنا کر اس کی تہذیب میں اپنے آپ کو ایسے رنگ لیا کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ اجنبی معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اس نے رعایا اور اپنے آپ کے درمیان کوئی ایسا حجاب نہیں ڈالا کہ جس سے یہ تاثر ملے کہ وہ مقامی نہیں ہے بلکہ باہر کا باشندہ ہے۔

جو اپنے رنگ، زبان، نسل اور مذہب کی وجہ سے ہندوستانیوں سے ممتاز اور اعلیٰ ہے۔ لیکن برطانیہ سے آئے ہوئے افراد نے اس کے برعکس اپنے آپ کو کنٹونمنٹ، سول لائنز اور دی مال جیسے علاقوں میں محدود کر  کے، ایک ہی شہر کو رعایا اور حکمران کے علاقوں میں تقسیم کیا اور پھر ایک غیر مرئی دیوار کھینچ دی جس کے دوسری طرف رعایا کا جانا منع تھا۔

ایک اور فرق جو ان جارحین اور برطانیہ سے آئے ہوئے جارحین میں تھا وہ یہ کہ محمود غزنوی کے بعد آنے والے تمام گروہوں نے ہندوستان سے دولت لوٹ کر اپنے علاقوں میں خرچ نہیں کی بلکہ ہندوستان کی دولت کو یہیں ہندوستان مین خرچ کیا۔ یہی وہ وجہ تھی جس سے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اور اسی کو دیکھ کر برطانوی، ولندیزی اور فرانسیسی قزاقوں کی رال ٹپکتی تھی۔ ان جارحین نے یہاں ہنرمندوں کی قدر کی، رعایا پر لگان ان کی وسعت کے مطابق لگایا اور ان کو سہولیات دیں۔ مگر برطانوی قزاقوں نے یہاں آ کر ہنرمندوں کی انگلیاں کاٹ کر ان سے روزگار چھینا، یہاں کی مصنوعات پر ٹیکس لگا کر مقامی صنعت کو تباہ کیا، بے جا لگان لگا کر کسان کو خودکشی پر مجبور کیا اور محض نوے سال میں ہندوستان جیسا امیر خطہ غربت کا نشان بن کر رہ گیا۔

مسلم جارحین نے یہاں مذہبی منافرت کی بنیاد پر لوگوں کو لڑانے کی بجائے، مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا جس کی سب سے نمایاں مثال اکبر بادشاہ ہے۔ مگر آکسفورڈ کے روشن خیال برطانوی قزاقوں کا یہاں سے بڑا ہتھیار ہی یہی تھا اور عوام کو رام و رحیم کی بنیاد پر لڑا کر ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا دیا۔ اس موثر ہتھیار کی بدولت آج بھی پاکستانی قوم ہندو سے نفرت کرتی ہے جس نے تحریک آزادی کی جنگ ان کے شانہ بشانہ لڑ کر اس خطے کو آزاد کرایا، مگر ”لاٹ صاحب“ کے لئے محبت ہے جس نے ان کو آپس میں لڑا کر اپنے سیاہ دور اقتدار کو تقویت دی۔ اس کے علاوہ یہاں مقامی لوگوں کو روپے، پیسے، جاگیریں، عہدے اور خطابات کا لالچ دے کر جو اپنے مقاصد حاصل کیے وہ اس سے ماسوا ہیں۔

مسلم جارحین کی معلوم تاریخ میں ہمیں ہندوستان میں کسی قحط کا نام و نشاں نہیں ملتا، مگر آکسفورڈ کے قزاقوں اور ”سر ونسٹن چرچل“ جیسے ”عالی دماغ“ کے ہوتے ہوئے اس خطے میں جو بھوک کا راج رہا اس سے کوئی بھی اہل علم ناواقف نہیں ہے۔ پرائی جنگوں میں ہندوستانی جوان اور ہندوستانی غلہ جھونک کر یہاں جو ظلم کی داستانیں رقم کی گئیں اور مسلم لیگ و یونینسٹس کی بدولت جو خوف کا راج مسلط کیا گیا اس ظلم کو بھلائے نہیں بھلایا جاسکتا۔

قبلہ وجاہت صاحب نے یہ بھی لکھا کہ اس وقت برطانوی قوم سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تھی۔ تو گویا انہیں دوسرے علاقوں پر قبضہ کرنے اور لوٹ مار کرنے کا لائسنس مل گیا تھا کیونکہ وہ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تھے؟ کیا تاج محل، شالا مار باغ اور دیگر عمارتیں کوئی جاہل بنا سکتا ہے۔ ان کی جیومیٹری، ان کی شکل کیا اس بات کی غماز نہیں ہے کہ یہ کسی پڑھے لکھے دماغ کا شاہکار ہے؟

لہذا تمام جارحین نے جو اس دھرتی اور اس کی عوام کے مجرم ہیں ان کے چھوڑے ہوئے اثرات کو دیکھنا چاہیے کہ کس جارح نے زیادہ تخریب کر کے ہندوستان کو بڑا نقصان دیا اور کس نے کم تو یہ بات زیادہ درست ہوگی۔ باقی مجھے اپنے ممدوح کے وسعت علم، بصیرت قلبی، اعلٰی ظرفی اور قیافہ شناسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مگر ”خوگر حمد سے“ آج تھوڑا سا گلہ بھی سن لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments