مہسا ایرانی: ایران کا دوسرا منکشف چہرہ


سنہ 2003 میں جب میں ڈیڑھ دو ماہ کے لئے ایران گیا تو اس وقت بھی متعجب ہوا کہ جو سخت گیر ترین مذہبی خاکہ ہم نے ایران کی بابت سن اور پڑھ رکھا تھا یہاں صورت حال اس قدر سخت نظر نہیں آئی حالانکہ یہاں میرا قیام ایران کے سنی بلوچ اکثریتی علاقے سیستان و بلوچستان کے ایک شہر ”ایران شہر“ اور یزمان میں رہا جو ویسے بھی ذاتی سطح پر پردے اور مذہبی معاملات میں کافی سخت ہیں۔ وہاں میں جن پاکستانی اور ایرانی شیعہ و سنی دوستوں کے پاس رہا تقریباً ہر روز شام کو ان ڈور ہلہ گلہ پارٹیز کے جملہ اسباب بہ آسانی مہیا رہے۔

دو چار بار مخلوط رقص کی محافل بھی دیکھیں ہاں یہ ضرور تھا کہ بیرونی سطح پر ایک انجانے خوف کی فضا بہر حال قائم تھی نیز سخت گیر قوانین کا غلغلہ بھی سنا۔ بعد ازاں 2014 سے 2019 تک کے تقریباً مسلسل قیام نے تو گویا مجھ پر حیرت و استعجاب کے پہاڑ توڑ دیے۔ یقیناً ایران پر سخت ترین مذہبی آمریت مسلط ہے۔ ان کے محکمے پاسداران انقلاب اور نیروھای گشت و ارشاد جو کسی بھی قسم کی معمولی مذہبی یا ریاستی قانون کی خلاف ورزی پر بھی سرزنش کے ساتھ ساتھ سزا، قید اور بندہ لاپتہ کرنے کے اختیارات کے بھی حامل ہیں۔

ان محکموں کے ہر دو جنس کے اہلکار شدید مذہبی تربیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جبکہ ان کا خفیہ جاسوس محکمہ ”اطلاعات“ کے نام سے موسوم ہے۔ شاید سب سے زیادہ خوف اسی کا ہے کہ یوں سمجھئے ایران میں ہر چوتھے فرد پر اطلاعات سے متعلق ہونے کا شبہ کیا جا سکتا ہے اور وہ ٹیکسی ڈرائیور، حجام، سکول ٹیچر، بینک مینجر، خاکروب، گروسری سٹور والا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ مذہبی یا ریاستی قانون کی خلاف ورزی کجا، صرف اس کے خلاف بات کرنے پر ہی آپ مصیبت میں آ سکتے ہیں۔

مکمل طور پر کنٹرولڈ میڈیا ہے سوشل میڈیا میں سے بیشتر ایپس وہاں بین ہیں اور پراکسیز وی پی این وغیرہ کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔ ایران نے اپنے لوکل سوشل میڈیا ایپس کو مسلط کر رکھا ہے۔ ان کی رشد و ہدایت والی ”گشت و ارشاد فورس“ نے ایک آدھ بار تہران میں میرے سامنے بھی دو دو تین تین لڑکیوں کو حجاب کے ایشو پر گرفتار کیا تھا انھوں نے بھی تھوڑی مزاحمت اور شور شرابا کیا مگر سخت گیر مذہبی اہلکار بالآخر انہیں لے گئے جبکہ ارد گرد موجود بیشتر لوگ اظہار تاسف کرتے رہے۔

میں تب نیا نیا وارد ایران ہوا تھا لہٰذا زیادہ تعجب نہیں ہوا۔ مگر جب میں نے طویل عرصہ کے لئے وہاں رہنا شروع کیا تو اولاً حیرانی ہوئی اور پھر ایران مجھ پر عیاں ہوتا چلا گیا۔ تہران ایران کا سب سے زیادہ لبرل شہر ہے مگر دیگر بڑے اور چھوٹے شہر بھی ہرگز کم نہیں ہیں البتہ مشہد اور قم چونکہ ان کے زیارات کے لئے مشہور اور مذہبی تقدس کے حامل شہر ہیں لہٰذا وہاں برقعہ اور حجاب کے معاملات کچھ زیادہ سخت ہیں اور لباس پر گرفت بھی کچھ زیادہ ہے ہمارے پاکستانی عقیدت مند زائرین چونکہ انہی دو شہروں میں مختصر وقت کے لئے جاتے ہیں لہٰذا ٹھیٹھ مذہبی سخت گیر ملک کا تاثر لے کر آتے ہیں۔

حالیہ مہسا امینی نامی دوشیزہ کا نقاب و حجاب کا یہ معاملہ میری سمجھ سے تو بالاتر ہے حجاب و نقاب تو ایک طرف ایرانی خواتین کے یورپیئن طرز کے لباس بھی کمال تباہ کن ہوتے ہیں تقریباً 90 فیصد خواتین جینز شرٹ زیب تن کرتی ہیں ان کا لباس عروسی یورپیئن طرز کا نیم عریاں سینے والا سفید فراک ہوتا ہے جو آپ ہالی ووڈ موویز میں دیکھتے ہیں اور گوگل پر لباس عروسی دخترانہ ایران لکھ کر دیکھ سکتے ہیں یہ لباس سرعام بیسیوں بڑی بڑی مارکیٹوں میں عام دستیاب ہوتا ہے۔

یقین مانیے اکثر اوقات تو ان کے روزمرہ مستعمل لباس کو شہوت انگیز بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس میں سے۔ جسمانی نشیب و فراز چیخ چیخ کر اپنے ہست و موجود کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں اور باریک اس قدر کے جسم پر موجود بال وغیرہ بھی دیکھے جائیں۔ الحاد بھی بہت حد تک ایرانی عوام کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے اور وہ لبرل ازم، آزادی اظہار کے بھی بھرپور قائل ہیں۔ اگر آپ تحقیق کریں تو ایران الحاد کے معاملے میں کافی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

میں نے ایران کے شمال کی سینکڑوں کلومیٹر کی ساحلی پٹی، پارکوں اور دیگر سیاحتی مقامات پر سر عام کثرت سے، بلا تخصیص مردو زن اور پیر و جواں شراب نوشی، مخلوط رقص، بوس و کنار اور دست انتہائی درازی بالرضا کے مناظر بھی دیکھے ہیں۔ ان علاقوں میں عرق نامی دیسی وائن و شراب با آسانی دستیاب ہوتی ہے اور وہاں خواتین بھی بہ نسبت پاکستان کثرت سے پیتی ہیں۔ غیر ملکی شراب کے تقریباً تمام برانڈز 200 ایم ایل کی ساشے پیکنگ اور 400 ایم ایل کے ٹن پیک بہت سے شہروں میں عام مل جاتے ہیں۔

دیگر اشیائے تعیش بشمول رنگہائے کائنات بھی بہ آسانی دستیاب ہوتے ہیں۔ دوست پسر اور دوست دختر ( بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ ) کا کلچر بہ نسبت پاکستان وہاں زیادہ نظر آتا ہے اور اہم بات یہ کہ ریاستی اداروں کے اہلکاروں کو ان معاملات سے بے شمار بار غض بصر اور صرف نظر کرتے دیکھا ہے۔ ہاں یہ معاملہ ضرور ہے کہ ملائی ریاست کبھی کبھار اپنا مذہبی رعب و دبدبہ و تشخص برقرار رکھنے کے لئے اس قسم کی عبرت انگیز وارداتیں کرتی رہتی ہے۔

ایک اور بات یہ بھی کہ ریاست معمولی قسم کی مشکوک سرگرمی (جسے ریاست مخالف کہا جا سکے) کی صورت میں بھی اس حجاب وغیرہ کی نوعیت کا کوئی الزام لگا کر بندہ پار کر دیتی ہے۔ بیک وقت یہ دو مختلف ایران میں نے دیکھے، سنے اور محسوس کیے ہیں اس صورت حال میں میں کنفیوز ہوں کہ مہسا امینی کو واقعتاً حجاب کی وجہ سے مارا گیا ہے یا ایرانی عوام میں اپنا خوف و دبدبہ اور مذہبی تشخص برقرار رکھنے کے لئے؟ یا پھر کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے؟

بہر حال یہ بات خوش آئند ہے کہ اس قسم کے ریاستی جبر و استبداد کے خلاف ایرانی عوام اکثر و بیشتر نکلتے رہتے ہیں۔ ایرانی عوام کے دلوں میں اس نام نہاد مذہبی اور ریاستی جبر کے خلاف ایک آتش فشاں ضرور موجود ہے جو کسی بھی وقت اپنی پوری قوت سے پھٹ سکتا ہے اور میں اس کا بھرپور چشم دید گواہ ہوں۔

پس تحریر : اس مضمون میں زیادہ تر مواد میرے زیر تحریر سفرنامہ ”مشاہدات ایران“ سے لیا گیا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments