وجود کی ایک گنگناہٹ


Existence is a humming that drowns into silence at the end of the day
وجود ایک گنگناہٹ ہے جو آخر کار خاموشی میں ڈوب جاتی ہے

”یول نوہا ہراری“ کے ساتھ دانش ور مورخ رٹگربرگمینHumankind : A Hopeful) History 2019 ) ایک فکری مکالمے میں کہتا ہے کہ ’علم بشریات کی رو سے انسان زمین کی دیگر جاندار مخلوق کے مقابلے میں ایک ”پالتو جاندار“ ہے۔ ”ہومو پپی“ ہے۔ اسے Self۔ Domesticated Theory کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

رٹگر سروائیول آف دی فٹسٹ کی بجائے Survival of the friendliest کا تصور لے کر آیا ہے جبکہ یول نوہا ہراری اس مکالمے میں کچھ ایسا کہتا نظر آتا ہے کہ ’انسانیت کو اپنے اندرونی عفریتوں مثلاً نفرت، لالچ اور جہالت پر قابو پانے کے لئے، بہت بڑی آبادی کو باہمی تعاون پر آمادہ کرنے کے لئے ہماری دوستانہ رویہ رکھنے کی عظیم خفیہ قوت کافی نہیں۔ اس کے لئے ہمیں کہانی سنانا پڑے گی، چاہے یہ کہانی غیر حقیقی ہی کیوں نہ ہو۔ ”

غیر حقیقی کہانی کو عام اصطلاح میں ”افسانہ“ یا ”فکشن“ بھی کہا جاتا ہے۔ کہانی خاص طور پر جب پڑھی جاتی ہے تو قاری اپنے لمحہ موجود کی حقیقت سے کہانی میں بیان کیے گئے عہد، کردار اور ابتلاؤں کو جوڑنے لگتا ہے۔ یہ تجربہ افسانے کو ایک قابل یقین حقیقت میں ڈھال دیتا ہے۔ یہی وہ ہنر کاری ہے جو ایک خاص تکنیکی عمل سے گزر نے کے بعد ادبی اصطلاح میں کہانی کو ”ناول“ کا درجہ دیتی ہے اور جب کہانی تاریخی حقائق حوالوں سے بنی گئی ہو تو اس کا ایک سماجی اور سیاسی نکتہ نظر جو اس کا بیانیہ بھی بن سکتا ہے، اپنے عہد اور یا اس کے پس منظر اور کرداروں کے حوالے سے اپنے قارئین کو ایک نیا زاویہ دیتی ہے ارشد وحید کو شاید خود بھی پتہ نہیں چلا ہو گا اس کی اپنی لکھی دو کہانیوں (ناول ”گمان“ 1995 ) اور دوسری کہانی ( ”Other Days“ 2022 ) میں کم و بیش ایک ہی عہد کی کہانی دو انتہائی مختلف فکری تجربوں سے بیان کی گئی ہے کسی بھی ادبی فن پارے کا سب ٹیکسٹ (زیر متن) اس کی جمالیات اور کرافٹس مین شپ کی گواہی بنتا ہے اور نفس مضمون، حاشیہ مضمون کے مقابلے میں یا اس کے بر عکس قاری کے کان میں جو سرگوشی کرتا ہے وہی فنکارانہ اظہار کی کامیابی کی دلیل بھی ہے۔

”گمان“ میں جس مایوس کن حیرت کا نوحہ ببانگ دہل کورس کی شکل میں ترتیب دیا گیا تھا۔ ”Days erOth“ میں اسے اکیلے میں گنگنا لیا گیا ہے۔ پاکستان کے پس منظر میں ”گمان“ کی کہانی ساٹھ کی دہائی سے شروع ہوتی ہے اور اسًی کی دہائی تک کا احاطہ کرتی ہے جبکہ ”Other Days“ کی کہانی ستر کی دہائی کے حوالوں سے آغاز پکڑتی ہے اور سن دو ہزار کے دور تک پہنچ جاتی ہے ایک کہانی میں ”لاہور“ ہے تو دوسری میں وہی لاہور ”شہر“ ہے۔

البتہ اسًی کی دہائی ً کم و بیش دونوں کہانیوں میں گونجتی ہے۔ اور پاکستان کی سماجی اور سیاسی تاریخ کی بساط جتنی اسًی کی دہائی میں الٹ پلٹ ہوئی شاید ہی کسی اور عہد گزشتہ میں ہوئی ہو۔ ہم میں سے بیشتر اس کے چشم دید گواہ بھی ہیں کہانی میں واقعات اور کرداروں کے ”عہد“ کو تاریخی حوالے متعین کرتے ہیں۔ بشرطیکہ کہانی زمان و مکان کی قید سے آزاد نہ ہو ارشد وحید نے گارشیامارکیز کے علاوہ ”کنڈیرا“ کے تخلیقی اور تنقیدی کام کو بھی اردو زبان میں ڈھالا ہے۔ ارشد وحید کے کیے گئے کنڈیرا کی کتاب ”دی آرٹ آف دی ناول“ کے اردو ترجمے ”ناول کا فن“ میں کرسچن سالمن میلان کنڈیرا سے یہ پوچھتا ہے کہ کیا تمہارے ناولوں کو سمجھنے کے لیے چیکو سلواکیہ کی تاریخ جاننا ضروری ہے؟

میلان : جی نہیں۔ جتنا کچھ جاننے کی ضرورت ہے وہ ناول خود بتا دیتا ہے۔ ناول نگار کی تاریخی حقیقت سے وفا داری اس کے لیے ثانوی اہمیت کی حامل ہے۔ ناول نگار نہ ہی تاریخ نگار ہے اور نہ ہی پیغمبر، وہ ”وجودی حالت“ کا ایک سیاح ہے۔

تاریخ کے حوالے سے کنڈیرا تین بنیادی اصول وضع کرتا ہے :

1 :تمام تاریخی حالات کو میں انتہائی کفایت سے استعمال کرتا ہوں، میں تاریخ کے ساتھ وہ برتاؤ کرتا ہوں جیسا کہ وہ ڈیزائنر جو ایکشن کے لیے محض چند ناگزیر چیزوں کے ساتھ ایک مجرد سیٹ تعمیر کرتا ہے۔

2 : تاریخی حالات میں سے میں صرف ان کا انتخاب کرتا ہوں جو میرے کرداروں کے لیے ایک کشف کی سی وجودی صورت حال تخلیق کریں۔

3 : علم تاریخ سماج کی تاریخ رقم کرتا ہے انسان کی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرے ناولوں میں جن تاریخی واقعات کا تذکرہ ملتا ہے انھیں تاریخ نویسی اکثر فراموش کر چکی ہوتی ہے

مثال کے طور پر 1968 میں : چیکوسلواکیہ پر روسی حملے کے بعد ، عوام کے خلاف ظالمانہ دور کے آغاز سے پہلے، سرکاری طور پر ایک منظم مہم کے تحت کتوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ یہ ایسا واقعہ ہے جو ایک تاریخ نویس، ایک سیاسیات کا ماہر مکمل طور پر فراموش کر دیتا ہے۔ اور جس کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

اب کنڈیرا کی کہانی میں کتوں کے قتل عام کے باعث عام شہریوں میں خوف و ہراس کی جو فضا پھیلی وہ اس کی کہانی میں انسانی سطح پر جس عہد کو رقم کرتی ہے، تاریخ دان کے پاس وہ محدب عدسہ نہیں جس سے اس کو کرداروں کی سہمی ڈری آنکھوں کی کپکپاہٹ نظر آ سکے اور وہ آلہ سماعت بھی نہیں کہ خوف سے اکھڑی سانسیں اور اندر ہی رہ جانے والی چیخ پکار بھی سن سکے۔ یہ ایک کہانی کار کا ہی فورانزک forensic ایڈوینچر ہوتا ہے کہ وہ یہ سب نہ صرف سن دیکھ سکتا ہے بلکہ اس درد کو جی بھی سکتا ہے ایسے ہی بظاہر غیر اہم واقعات کس طرح افراد کی زندگیوں کو ایک لایعنی وجود میں بدلتے اور اجتماعی زندگی کو سفاکی سے کچلتے ہیں ناول نگار کا موضوع بنتے ہیں اور ہم ارشد وحید کے انگریزی ناول Other Days میں بھی ایسے ہی واقعات کے تسلسل سے جو کہانی پڑھتے چلے جاتے ہیں وہ آ خر کار مجموعی طور پر اس المیے کو رقم کرتی ہے جو دہائیوں سے اس ملک میں بسنے والوں کا مقدر ہے۔

” گمان“ میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں نوجوانی اور جوانی کے عالم میں جو قوتیں انسان کی رگوں میں موجزن ہوتی ہیں انہیں ایک سمت، اشارہ اور امید درکار ہوتی ہے۔ یقین و گماں کے درمیان کہیں بھٹکتے ہوئے خواب اور خواہشیں جب توانا اور نئی نسل کو کسی ٹھوس اور حقیقی تبدیلی کی بشارت دیتی ہیں تو جذبے سے سرشار وہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیار ہو جاتی ہے۔

ایک آئیڈیل ازم جو قوم کی سطح پر سماجی تشخص اور سماجی شناخت کی جنگ لڑنے پر اکساتا ہے۔ اگرچہ حقائق قدرے تلخ ہوتے ہیں۔ ارشد نے بھی جیسا کہ کنڈیرا نے تین اصول بتائے ان تاریخی حوالوں کو ثانوی حوالوں سے کہانی میں شامل کیا ہے بلا جھجکے خواب دیکھتی بصیرتوں اور بصارتوں کے فریب نظر کی نشاندہی کی ہے ”گمان“ سے ”ادر ڈیز“ تک کے اس سفر  نے نہ صرف اظہار کی زبان اور اسلوب کو تبدیل کیا بلکہ وہ منزل جو گمان میں پہلے واضح دکھائی دے رہی تھی اور اس تک پہنچنے کے راستے بھی واضح تھے، قریب پہنچتے پہنچتے دھندلانے لگی تھی۔ وہی منزل اور راستے ”Other Days“ میں گمان کے دونوں مرکزی کردار ”کبیر“ اور ”عفت“ کے مقابلے میں داؤد اور سارہ کو شروع سے ہی دھندلے دکھائی دینے لگتے ہیں

بقول باقی صدیقی؛
خود فریبی سی خود فریبی ہے

پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

” Other Days“ میں کرداروں کی بصیرت اور بصارت پر دھند اگرچہ اتنی گہری نہیں لیکن شناخت کا بحران ابھی بھی انھیں مجبور کر رہا ہے اور وہ اندھیرے میں چراغ ٹٹولتے پھر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ داؤد اور سارا دونوں اپنے تئیں نان کنفرمسٹ، سمے کی دھارا پر تکیہ کیے، اپنے احساسات کی پتوار کے ساتھ بہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی ایسی نامعلوم سمت پر رواں بہر طور دکھائی دیتے ہیں جس پر یقیناً کسی کے بھی نقش پا نہیں اور نہ ہی اس پگڈنڈی کی کوئی منزل متعین ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود روز و شب کی بے معنویت سے نظر چرائے بغیر وہ بعض مقامات پر ایک دوسرے کے قریب سے گزر بھی نہیں سکتے۔ دونوں زندگی سے اس کا معنی پوچھ رہے ہیں، کرید رہے ہیں، یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں گھوم بھی رہے ہیں جھوم بھی رہے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں ہر ہجرت، ہر نقل مکانی بے سود ثابت ہوتی ہے۔ حتی ٰ کہ داؤد ایک بے معنی موت مر جاتا ہے بقول فیض، ’یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔ ‘

ہم داؤد اور احمر کا ایک مشترکہ تجربہ بھی دیکھتے بھی ہیں دونوں کو اغوا کیا گیا دونوں پر شک کیا گیا اور دونوں ایک لحاظ سے ”مردود حرم بھی ٹھہرتے ہیں“ دونوں کے سامنے ”سمی“ اور ”سارہ“ بھی ہیں عشق اور فراق و وصال کے معاملوں اور انقلاب کے خوابوں کے ساتھ یہ دونوں کچھ ایسے سراب سجانے لگتے ہیں کہ ہم اس کہانی کو پڑھتے پڑھتے شہر سے بستی اور بستی سے مالن ہار، پھر سرحد اور نو مینز لینڈNo man ’s land میں جا پہنچتے ہیں جہاں ہمیں ہیر کی کوک بھی گونجتی سنائی دیتی ہے، سسی اور سوہنی کی ہوک اور پکاریں بھی

ارشد کی اس انگریزی میں لکھی کہانی میں دو زبانی حوالے bilingual references تو یقینی تھے لیکن یہ کتنی ملٹی کلچرل، کثیر العہد، multi era، اور multiple identities کا احاطہ بھی کرے گی یہ تجربہ اس کی دوسری یا تیسری قرات کے بعد ہی ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments