ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنان کی لاشیں برآمد: ’لگتا ہے لاشیں پھینکنے والے بھی چاہتے تھے کہ گھر والوں کو فوراً مل جائیں‘

جعفر رضوی - صحافی، لندن


ایم کیو ایم
حالیہ ہفتوں میں سندھ کے مختلف شہروں سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی لاشیں ملنے کے بعد منگل کو وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں بھی یہ نکتہ اٹھایا تھا اور بعد میں کہا تھا کہ اگر وفاق نے اس پر فوری وضاحت نہ کی تو وہ اتحادی حکومت چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ اُنھوں نے وزیرِ اعظم سے خود دورہ کرنے یا پھر وزیرِ داخلہ کو کراچی بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ’وزیرِ اعظم کی طرف سے ہم نے انھیں یقین دلایا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوتی ہے۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ جو ریاست یہ نہیں کر سکتی وہ اپنے فرض سے غافل ہے۔

اس موقع پر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم ایسی بدنصیب ریاست میں رہ رہے ہیں جس میں لوگوں کو لاپتہ کرنا جرم نہیں۔ ’ہم ابھی بھی کہتے ہیں کہ لاپتہ کرنے والوں کو سزا دلوانا نہیں چاہتے، بس اپنے پیاروں کی واپسی چاہتے ہیں۔ کوئی قانون سازی کرنی ہے تو تیار ہیں مگر اس سلسلے کو بند کیا جائے۔‘

جب رانا ثنا اللہ سے پوچھا گیا کہ سویلین ادوارِ حکومت میں بھی مبینہ جبری گمشدگیاں ہو رہی ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’آپ کو بھی علم ہے اور ہمیں بھی کہ اس بارے میں حکومتوں کی رٹ کس حد تک ہے اور دیگر عوامل کیا ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ میں ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا جس سے پریس کانفرنس کامیاب ہو جائے مگر ہم اپنے مقصد سے دور ہو جائیں۔

’جس طرح سے یہ حل ہو سکتا ہے، اسی پر توجہ رکھتے ہیں اور معاملات آگے بڑھا رہے ہیں مگر تصادم کے بجائے افہام و تفہیم سے آگے بڑھا رہے ہیں۔‘

’سیاسی اور عوامی نقصان‘

’جب کارکنان ہی موجود نہ ہوں تو پھر عوام اور پارٹی کے درمیان رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ تو ہمیں سیاسی و عوامی یعنی انتخابی اور تنظیمی نقصان تو ہوا ہے۔‘

یہ کہنا تھا ایم کیو ایم رہنما اور وفاقی وزیر فیصل سبزواری کا جو حال ہی میں پارٹی کے تین لاپتہ کارکنوں کی لاشیں ملنے کے بعد ایک جانب تو اتحادی حکومت کا مزید ساتھ دینے کے معاملے پر ابہام کا شکار نظر آتے ہیں تو دوسری جانب دھڑوں میں بٹی جماعت کی کم ہوتی ہوئی مقبولیت کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ 13 سے 15 ستمبر کے درمیان سندھ کے مختلف اضلاع سے ایم کیو ایم کے تین ایسے کارکنوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جو کئی سال قبل اس وقت لاپتہ ہوئے تھے جب جماعت دھڑے بازی کا شکار نہیں ہوئی تھی۔

ایم کیو ایم کا الزام ہے کہ ان کارکنوں پر تشدد کیا گیا تاہم آئی جی سندھ پولیس کے مطابق اس پر حتمی رائے پوسٹ مارٹم کے بعد ہی دی جا سکے گی۔

ایم کیو ایم، جو اب ایک سے زائد دھڑوں میں تقسیم اور کراچی میں سیاسی طور پر کمزور نظر آتی ہے، لاپتہ کارکنان کا معاملہ گذشتہ دور حکومت سے ہی اٹھاتی آئی ہے۔ اس دوران ایم کیو ایم پہلے تحریک انصاف اور بعد میں وزیر اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت کا حصہ بھی رہی۔

اس دھڑے بندی کا ہی ایک بڑا ثبوت ان کارکنان کی موت کے بعد ان کی وابستگی پر اٹھنے والے سوالات اور جنازے پر ہونے والی بدمزگی کی شکل میں سامنے آیا۔

ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ ایم کیو ایم کی دھڑے بندی آنے والے انتخابات میں سندھ اور بالخصوص کراچی کی انتخابی سیاست پر کیا اثر ڈالے گی؟ لیکن اس سوال سے قبل ان لاپتہ کارکنان کے معاملے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

ایم کیو ایم

یہ کارکن کون تھے؟

دو دن کے اندر ملنے والی یہ لاشیں عرفان بصارت، عابد عباسی اور وسیم راجو کی ہیں جو اندرون سندھ کے مختلف اضلاع سے ملیں ہیں۔ ایم کیو ایم کے مطابق یہ کارکن پانچ سے چھ سال سے لاپتہ تھے۔

ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ عرفان بصارت جبری گمشدگی کا شکار تھے اور ان کو چھ برس قبل کراچی کے علاقے پی آئی بی کالونی میں گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

وسیم اختر عرف راجو، جن کی لاش ضلع میر پور خاص میں ایک شوگر ملز کے قریب پائی گئی، کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں ایم کیو ایم کے کارکن تھے۔

ایس ایس پی (سٹی) پولیس شبیر احمد سیٹھار نے ڈان اخبار کو بتایا کہ لاپتہ ایم کیو ایم کارکن عابد عباسی کراچی کے تھانہ نیپیئر میں درج قتل کے ایک مقدمے میں نامزد ملزم تھے۔

ڈان اخبار کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان (بہادر آباد) اور ایم کیو ایم لندن (الطاف حسین) دونوں ہی نے جاری شدہ بیانات میں دعویٰ کیا کہ عرفان بصارت اُن کے کارکن تھے جبکہ مصطفیٰ کمال کی تنظیم پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) نے بھی تینوں ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

ایم کیو ایم لندن کے ترجمان مصطفیٰ عزیز آبادی نے مجھ سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ یہ وہ کارکنان تھے جن کو الطاف حسین کی حمایت کی سزا دی گئی۔

مصطفیٰ عزیز آبادی نے عرفان بصارت کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ’اُن کے خاندان نے عدالت (سندھ ہائیکورٹ) میں پیٹیشن دائر کی۔ ان کی بہن کی جانب سے رینجرز کا نام دینے پر اُن کے دوسرے بھائی عمران کو بھی گرفتار کر لیا گیا، تین ماہ تک وہ بھی لاپتہ رہے۔‘

’وسیم اختر عرف راجو ولد عباس بھی ہمارے شاہ فیصل کالونی کے کارکن تھے۔ اُن کو اپریل 2017 میں اورنگی ٹاؤن سے گرفتار کیا گیا۔‘

’عابد عباسی ولد دین محمد عباسی بھی ہمارے کارکن تھے۔ اُن کو 16 جنوری 2016 کو گلستان جوہر کے علاقے سے گرفتار کیا گیا۔‘

کارکنوں کے ساتھ کیا ہوا؟

مصطفیٰ عزیز آبادی نے الزام عائد کیا کہ ان تینوں کارکنوں کے جسموں پر تشدد کے نشانات تھے۔

سندھ پولیس کے سربراہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے ہم سے بات چیت میں یہ تسلیم کیا کہ دو لاشیں ملی ہیں مگر جوابی دعویٰ کیا کہ ابتدائی معائنے میں اُن لاشوں پر کسی قسم کے تشدد کے نشان نہیں پائے گئے اور پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ آنے پر ہی کچھ کہا جا سکے گا۔

مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ ’یہ بات درست ہے کہ یہ لاپتہ افراد تھے اور اب اُن کی لاشیں ملی ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ دونوں کیسز میں پوسٹ مارٹم کے لیے ابتدائی معائنہ کرنے والے پولیس سرجن کے مطابق اُن (کی لاشوں) پر کوئی تشدد کے نشان نہیں تھے۔ دونوں کے مقدمات ہمارے پاس درج ہیں۔‘

آئی جی سندھ نے مجھ سے گفتگو میں یہ بھی تسلیم کیا کہ پولیس پہلے لاپتہ افراد کے معاملے میں مقدمات کے اندراج پر مزاحمت کرتی رہی ہے۔

غلام نبی میمن نے کہا کہ ’ہم پہلے مزاحمت کرتے تھے مگر پھر جب عدالتی فیصلہ آیا کہ مقدمہ درج کر لیا جائے تو پھر مقدمات درج ہونے لگے۔‘

تاہم ایم کیو ایم لندن کے ترجمان مصطفیٰ عزیز آبادی نے دعویٰ کیا کہ مقتول کارکنان کے اہلِخانہ یا خاندان کو بتائے بغیر یا اُن کی رضامندی لیے بغیر پوسٹ مارٹم کیے گئے۔

پاکستان کے موجودہ وفاقی وزیر جہاز رانی اور ایم کیو ایم پاکستان کے سینیٹر فیصل سبزواری نے مجھ سے گفتگو میں کہا کہ کراچی میں جو لوگ گرفتار ہو کر لاپتہ ہو جائیں، پولیس اُن کے مقدمات بہت ہی کم درج کرتی ہے۔

’کچھ کو نقاب پوش لے گئے۔ پھر جب ان کے گھر والے تھانے گئے اور باقاعدہ ایف آئی آر درج کروانی چاہی تو پولیس نے انکار کر دیا۔‘

’ہم ایسی کسی صورتحال میں لاپتہ کارکن کی تفصیلات تنظیمی ڈیٹا بیس میں ڈال لیتے ہیں اور پھر عدالتوں میں کیس کی پیروی ہو یا حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں، سب سے کہتے ہیں کہ کوئی کسی سنگین مقدمے میں مطلوب بھی ہے تو مقدمہ درج کریں اور ان کو جیل بھیج دیں تاکہ اہلخانہ کو کم از کم یہ تو پتہ چل جائے کہ اُن کا پیارا زندہ بھی ہے یا نہیں؟‘

پاکستان کے وفاقی وزیر فیصل سبزواری کے لہجے میں بے بسی جھلک رہی تھی۔ فیصل سبزواری نے بتایا کہ ان کے 200 لاپتہ افراد کی فہرست اب گھٹ کر 80 پر آ چکی ہے۔

’لاشیں پھینکنے والے چاہتے تھے گھر والوں کو فوراً مل جائیں‘

اظفر الاشفاق کراچی میں کرائمز، کورٹ اور ایم کیو ایم کی خبریں بطور رپورٹر طویل عرصے تک انگریزی اخبار ڈان کے قارئین تک پہنچاتے رہے اور اب خود کراچی میں ڈان کے سٹی ایڈیٹر ہیں۔ اُنھیں ایم کیو ایم سے متعلق معاملات پر عبور حاصل ہے۔

مجھے سے گفتگو کرتے ہوئے اظفر الاشفاق نے کہا کہ ’تینوں کارکنان کی جبری گمشدگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اُن سب کی پیٹیشنز عدالت میں تھیں۔ سب کو معلوم تھا کہ یہ لاپتہ ہیں۔‘

’ان سب کو کس نے کیوں اور کس لیے مار دیا؟ اُن کا جرم کیا تھا؟ کسی کو کچھ نہیں پتہ چلتا۔ اب باقاعدہ جیب میں 200 روپے رکھ کر لاش پھینک دیا جانا کیا معنی رکھتا ہے۔‘

’عرفان بصارت کی لاش سب سے پہلے ملی۔ اُن کی جیب سے دو سو روپے اور گھر کا پتہ ملا۔‘

’اس دفعہ تو ایسا نظر آتا ہے کہ جس نے بھی لاشیں پھینکیں ہیں وہ چاہتا تھا کہ لاشیں گھر والوں کو فوراً مل بھی جائیں اور وہ لے بھی جائیں۔‘

ان کارکنوں کا تعلق کس کے ساتھ تھا؟

مصطفی عزیز آبادی نے کہا کہ جب یہ کارکن لاپتہ ہوئے اس وقت نہ پی ایس پی کا وجود تھا نہ ایم کیو ایم بہادر آباد کا نہ پی آئی بی کالونی کا وجود تھا۔

فیصل سبزواری کا بھی کہنا ہے کہ 22 اگست 2016 سے پہلے تو ’ہم سب بھی اسی ایم کیو ایم کے کارکن تھے، ایک ہی ایم کیو ایم تھی۔ جو غریب لاپتہ تھا اُسے کیا پتہ کہ باہر کیا ہو رہا ہے؟‘

تاہم جمعرات کو ایک کارکن وسیم راجو کی تدفین کے موقع پر بعض ناگوار مناظر اس وقت دیکھے گئے جب ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما عامر خان قبرستان پہنچے۔

فیصل سبزواری ایم کیو ایم لندن پر الزام لگاتے ہیں۔ ان کے مطابق ایم کیو ایم لندن کے چند کارکنان نے عامر خان سے بدسلوکی کی کوشش کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ہماری قیادت اور کارکنان نے بڑی ذمہ داری کا ثبوت دیا اور جواب میں کوئی بدمزگی نہیں ہوئی نہ ہونے دی گئی۔

لیکن ایم کیو ایم کے معمول اور طریقۂ کار کے برخلاف، ایم کیو ایم کے رہنما اور رکن سندھ اسمبلی محمد حسین نے کہا کہ ہم سب بھی جانتے ہیں ہیں اُن لوگوں کو جنھوں نے عامر بھائی کے ساتھ ایسا کیا۔

ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے ایم کیو ایم لندن پر بدسلوکی کے ایسے اشاروں پر مصطفیٰ عزیز آبادی کا کہنا ہے کہ ہمیں تو نہیں معلوم کہ یہ کون تھے، کارکن تھے یا نہیں تھے ہمیں نہیں معلوم مگر جس طرح انھوں (ایم کیو ایم پاکستان یا بہادر آباد) نے مہاجر عوام اور کارکنان کو ’پیپلز پارٹی کے رحم و کرم‘ پر چھوڑ دیا ہے اس پر تو عوامی غصّہ بہرحال موجود ہے۔

ایم کیو ایم کی مقبولیت میں دراڑ

مصطفیٰ عزیز آبادی نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی دیکھ لیا ہے کہ عوام آج بھی الطاف حسین کے ساتھ ہے۔

ادھر فیصل سبزواری یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ مقبولیت میں ’ڈینٹ‘ پڑا ہے مگر وہ اس گفتگو میں محتاط بھی تھے لیکن ان کا لہجہ تنبیہی بھی تھا۔

’ہمیں تو حدّت محسوس ہو رہی ہے اور جب یہ تپش بڑھے گی تو ہم بھی کسی فیصلے کی جانب بڑھیں گے۔ وہ فیصلہ اس نازک صورتحال میں حکومت کو قائم رکھ پائے گا یا نہیں؟ آیا پاکستان اور اس کی معیشت متحمل ہو سکتے ہیں کہ یہاں کوئی حکومت نہ ہو کئی مہینوں تک؟ یہ سب تو سوچنے کا کام ہے، جو اس ملک کے فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہیے۔‘

تو پھر حکومت میں رہتے ہوئے ایسی صورتحال سے کیا ایم کیو ایم کی مقبولیت پر اثر پڑ سکتا ہے؟

اس سوال پر فیصل سبزواری نے تسلیم کیا کہ ‘تبدیل شدہ زمینی حقائق بشمول مردم شماری و حلقہ بندیوں کے ہوتے ہوئے تقسیم در تقسیم کی شکار ایم کیو ایم وہ مقبولیت تو دوبارہ حاصل نہیں کر سکے گی۔‘

صحافی اظفر الاشفاق بھی کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی مقبولیت پر بہت فرق پڑا ہے۔

’اگر آپ موازنہ کریں تو ایک اور دس کا فرق ہے۔ جہاں جہاں ایم کیو ایم لاکھ ووٹ لے کر جیتتی تھی، وہاں اب وہ دس دس ہزار ووٹ لے رہی ہے اور اگر جیت بھی رہی ہے تو بھی اتنے ہی ووٹ لے رہی ہے۔ این اے 245 کے ضمنی انتخاب کا معرکہ دیکھ لیں۔ سنہ 2018 میں تو ایم کیو ایم ہی نہیں تمام سیاسی جماعتیں کہتی تھیں کہ پی ٹی آئی جیتی نہیں، اسے جتا دیا گیا۔‘

اظفر الاشفاق نے کہا کہ سنہ 2022 کے انتخابات میں عمران خان نے مہم تک نہیں چلائی، جلسے کا اعلان کیا مگر نہیں آئے اور پھر بھی جیسے الطاف حسین جس کو امیدوار بنا دیتے تھے وہ جیت جاتا تھا بالکل ایسے ہی عمران خان نے جس کو بھی ٹکٹ دیا وہ جیت گیا اور ایم کیو ایم کا امیدوار آدھے ووٹ بھی نہیں لے سکا۔ تو مقبولیت کا تو یہ حال ہے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’اگر ایسے ہی کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہو گئے اور الطاف حسین الگ رہے تو عمران خان کا میئر ہو گا۔‘

ایم کیو ایم

ان کا کہنا ہے کہ حکومت میں آنا اور حکومت سے جانا، یہ فیصلے شاید کہیں اور ہوتے ہیں لیکن اس کا بوجھ ایم کیو ایم پر بہت زیادہ ہے۔

’ٹرن آؤٹ اور ڈیٹا تو یہی بتا رہا ہے کہ کوئی خلا ہے، لوگ دلچسپی نہیں لے رہے۔ اب اگر لوگ کہیں کہ الطاف حسین کا ووٹ ہے تو ماننا تو پڑے گا۔‘

تنظیمی ڈھانچہ بھی تقسیم ہو گیا

انتخابی مقبولیت پر فیصل سبزواری نے کہا کہ ہمیں جعلی حلقہ بندیوں مردم شماری سے ہروایا جاتا ہے تاہم فیصل سبزواری نے اعتراف کیا کہ دھڑے بندیوں اور تقسیم در تقسیم کی وجہ سے ایم کیو ایم کو زبردست تنظیمی نقصان بھی پہنچا۔

’پورا تنظیمی ڈھانچہ بھی کئی حصّوں میں تقسیم ہوا۔ کبھی ہم نے غلط فیصلے کیے، کبھی حالات کا جبر تھا مگر بہرحال اس کا اثر علاقوں میں ہمارے کارکنان کی عدم موجودگی کی شکل میں نکلا۔ اور جب کارکنان ہی موجود نہ ہوں تو پھر عوام اور پارٹی کے درمیان رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ تو ہمیں سیاسی و عوامی یعنی انتخابی اور تنظیمی نقصان تو ہوا۔‘

’لیکن ہم کام کر رہے ہیں کہ اس ڈینٹ کو ٹھیک کرنا ہے۔ کراچی کے باسی متحمل ہی نہیں ہو سکتے کہ اُن کا حق نمائندگی ادا نہ کیا جائے۔ کہنے کو تو پی ٹی آئی کے 14 ارکان اسمبلی بھی ہیں مگر اُنھیں کوئی نہیں جانتا۔ وہ بھی کسی کو نہیں جانتے۔‘

اگرچہ کہ ایم کیو ایم نے اتحادی حکومت چھوڑنے کی بات کی ہے تاہم فیصل سبزواری اب بھی لاپتہ کارکنوں کے معاملے پر پرامید نظر آتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وزیر اعظم شہباز شریف خود بھی مِسنگ پرسنز کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ایک وفاقی کمیٹی بھی بنائی جس میں، میں بھی شامل ہوں۔ وہ خود جا کر عدالت میں اس معاملے پر بات کرتے ہیں، لواحقین سے ملتے ہیں۔‘

’دیگر اعلیٰ ترین حکومتی قائدین بھی ہم سے براہ راست رابطے میں ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ وفاقی و سندھ حکومت اس پر کام کریں گے۔ وزیر قانون نے بھی محکمۂ داخلہ کو حکم دیا ہے کہ جے آئی ٹی تو بنائیے، آخر تین لاشیں ملی تو ہیں۔ ورنہ تو ہمارے لیے بھی حکومت میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments