پانی کا سیلاب اور جھوٹی خبروں کا سیلاب


ہولی فیملی ہسپتال میں انسانی خون پینے والی لیڈی ڈاکٹر نوکری سے فارغ ؛یہ وہ خبر تھی جو میں نے ایک اخبار کے تراشے میں پڑھی جو مجھے واٹس اپ پر ایک نیوز کے گروپ میں ملی۔ میں نے وہ خبر اپنے ادارے کے نیوز گروپ میں بھیجی کیونکہ وہ اخبار کا تراشا تھا تو مجھے لگا کہ مستند ہوگی مگر پھر بھی میں تلاش میں تھا کہ کسی طرح کوئی پکا ثبوت ملے تو یہ بات آگے بڑھائی جائے۔ لیکن مجھے فوری طور پر اس خبر کے بارے میں تفصیلات نہ معلوم ہو سکی۔ البتہ یہ خبر مجھے بہت سارے گروپس پر پیجز پر نظر آنے لگی۔

اسی طرح چند دن پہلے بھی کراچی کے حوالے ایک خبر وائرل ہوئی تھی اس خبر کے مطابق ایک کمپنی کے 20 ملازمین نے اپنی آفس کی ساتھی خاتون کے ساتھ جسمانی زیادتی کی تھی۔ یہ خبر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوئی اور کمپنی کے حوالے سے بہت ساری باتیں سامنے آئی، اس کے ساتھ ساتھ ایک ویڈیو بھی وائرل کردی جو بعد میں پتا چلا کے کسی نشئی خاتون کی تھی جو کافی پرانی تھی۔ پھر یہ خبر پھیل گئی اور اس بین الاقوامی معیار کی پاکستانی کمپنی کے خلاف دنیا بھر میں شور مچ گیا اور کمپنی سے تعلق رکھنے والے لوگ کئی دنوں تک ذہنی اذیت کا شکار رہیں۔

خبر فارورڈ کرنا بظاہر بہت معمولی اور عام سی بات ہے لیکن اگر وہ بات غلط ہے تو اس سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے آپ یہ سمجھ نہیں سکتے۔ لیڈی ڈاکٹر کے بارے میں پھیلنے والی افواہ نے بھی اس پورے خاندان کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا۔ گزرے زمانے میں اخبار ایک مستند ذرائع ابلاغ کا ذریعہ تھا مگر اب وہ بھی ایک کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں عام ہونا بہت عام ہو گیا ہے مگر اخبار میں جھوٹی خبر یا غلطی سے خبر کم ہی چھپتی تھی۔ لیکن اب اخبار پر شک ہونے لگا ہے۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ خبر کو پھیلانے سے پہلے اس کی جانچ پڑتال کیوں نہیں ہوتی، تاکہ وہ کسی کے لئے نقصان کا باعث نہ بنے۔ ڈاکٹر کے خون پینے والی جھوٹی خبر کی وجہ سے ایک قابل ڈاکٹر ڈپریشن کا شکار ہو گئی۔ کئی سالوں کی محنت پر ایک جھوٹ نے پانی پھیر دیا۔ ہسپتال انتظامیہ کی تفتیش کے مطابق بھی یہ خبر جھوٹ پر مبنی مگر اس کے باوجود جھوٹی خبر اب تک گردش کر رہی ہے اور وہ لیڈی ڈاکٹر اور ان کے اہلخانہ کو روزانہ کی بنیاد پر اذیت پہنچا رہی ہے۔

خبر پھیلانا کوئی بری بات نہیں لیکن اگر جھوٹ ہو تو یہ افواہ یا پھر بہتان کے زمرے میں آتی ہے۔ اس سے بہت سے لوگوں کو نقصانات کا سامان کرنا پڑتا ہے اور معاشرے میں بے چینی بھی پیدا ہوتی ہے۔ اب خبریں پھیلنے کا بڑا میڈیم سوشل میڈیا ہے لیکن سوشل میڈیا مستند نہیں مانا جاتا کیونکہ یہاں پر سب آزاد ہیں اور بہت سے سوشل میڈیا پیجز پر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں۔ البتہ اگر کسی مستند ادارے یا ٹی وی چینلز کے پیچ /ویب سائیٹ سے کوئی خبر ملی ہے تو اس پر پھر بھی اعتماد کیا جاسکتا ہے۔

سوشل میڈیا ایسی چیز ہے جس سے بہت اچھا کام بھی لیا جاتا ہے اور بہت خراب کام بھی۔ کیونکہ بظاہر استعمال میں آسان نظر آنے والی چیز ایک مشکل چیز بن جاتی ہے کیونکہ اگر اس کا استعمال غلط کیا جائے تو یہ نہ صرف دوسروں کی زندگی خطرے میں ڈال سکتی ہے بلکہ یہ آپ کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ تو برائے مہربانی سوشل میڈیا کا صرف مثبت استعمال کریں اور کوئی بھی خبر پھیلانے سے پہلے تصدیق کر لیں تاکہ معاشرے میں جھوٹ اور پروپیگنڈا پھیلنے سے روکا جاسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments