سوات میں بدامنی کے واقعات


میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے وادی سوات میں موجود مبینہ عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لئے فوجی اہلکاروں سمیت سیکیورٹی فورسز کے بھاری دستے مٹہ اور مالم جبہ کے پہاڑی علاقوں کو منتقل کرنا شروع کر دیے ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق عسکریت پسندوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے باضابطہ طور پر تو کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے مگر سوات کے مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہاں پر ماضی کی طرح ایک اور فوجی کارروائی شروع کی جا رہی ہے۔

سوات میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے مشتبہ دہشتگردوں کے خلاف جس میں ممکنہ کارروائی کی باتیں کی جا رہی ہیں اس حوالے سے اب تک نہ تو پولیس اور نہ ہی فوج کی جانب سے کوئی واضح بیان جاری کیا گیا ہے جس کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ممکنہ آپریشن کے حوالے سے خوف و ہراس پیدا ہونے کے خدشے کے پیش نظر میڈیا کو کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک نقطہ نظر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے تو سیکیورٹی کے پیش نظر از خود کسی ممکنہ آپریشن کا کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا البتہ دیگر ذرائع سے ایسی اطلاعات کے سامنے آنے کا مقصد یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ سیکیورٹی ادارے کسی بڑے خون خرابے سے بچنے اور اس کے نتیجے میں عوام میں ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے کسی خوف و ہراس کی فضاء پر قابو پانے کی غرض سے اس ممکنہ آپریشن کی تشہیر سے گریز کر رہے ہیں۔

یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخری دہشت گرد افغان بارڈر سے دور بندوبستی علاقے میں کیسے اور کن راستوں سے آئے ہیں۔ واضح رہے کہ ضلع سوات کی نہ تو کوئی سرحد افغانستان سے ملتی ہے اور نہ ہی کسی قبائلی ضلعے سے سوات کی بارڈر ملی ہوئی ہے بلکہ سوات اور افغان بارڈر کے درمیان دیر کا ضلع واقع ہے جو بذات خود ایک بندوبستی ضلع ہے اور جو طالبان کے عروج کے زمانے میں بھی بالعموم دہشت گردی کے کارروائیوں اور طالبان کے اثر و رسوخ سے آزاد تھا۔

افغانستان سے پاکستان میں اسلحہ سمیت داخل ہونے والے دہشت گردوں کے حوالے سے ایک اور اہم بات حکومت اور سیکیورٹی فورسز کا پاک افغان بارڈر پر باڑ کی تعمیر کے حوالے سے دعویٰ ہے اور جس پر سابق افغان حکومت کے جانب سے وقتاً فوقتاً اعتراضات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں لہٰذا سوال یہ ہے کہ سوات میں وجود پانے والے درجنوں مسلح دہشت گرد پاک افغان بارڈر جس پر باڑ کے علاوہ سیکیورٹی کا ایک جامع نظام بھی موجود ہے آخر یہ لوگ کیسے سوات پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس ساری نقل و حرکت کے دوران ان لوگوں کو کسی نے چیک کیوں نہیں کیا یہ شاید اسی لاپرواہی اور اس طرح کے واقعات سے صرف نظر کا نتیجہ ہے کہ اس سے قبل بھی جب سوات میں دہشت گرد پہنچ رہے تھے اور ان کے ہاں اسلحہ کی ترسیل کے علاوہ ان کی تربیت اور بھرتی کا عمل جاری تھا تو متعلقہ اداروں نے اس ساری صورتحال سے آنکھیں کیوں بند کر رکھی تھیں جس کا خمیازہ بعد ازاں اہل سوات کو بہت بڑی نقل مکانی اور تباہی و بربادی کی صورت میں بھگتنا پڑا تھا۔

یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ماضی میں تو سوات کے عام لوگ خاص کر سول سوسائٹی دہشت گردی کے جڑ پکڑنے کے واقعات سے لاتعلق رہی تھی لیکن اس دفعہ چونکہ اہل سوات ماضی سے ایک تلخ سبق سیکھ چکے ہیں اس لئے وہ نہ تو اپنے آپ کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی وہ اس ضمن میں متعلقہ سیکیورٹی اداروں کو کوئی ریلیف دینے کے موڈ میں نظر آتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ جب سے سوات میں ایک بار پھر دہشت گردوں کے سر اٹھانے کی باتیں سامنے آنا شروع ہوئی ہے تب سے سوات میں جگہ جگہ سول سوسائٹی کی جانب سے قیام امن کے لئے پر امن احتجاج کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں۔

سوات میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاعات کے علاوہ گزشتہ دنوں سوات کے امن کمیٹی کے سرکردہ رکن ادریس خان کی سات دیگر افراد کے ساتھ ایک بم دھماکے میں ہلاکت کے بعد حالات مزید سنگین اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ حرف آخر یہ کہ اگر متعلقہ ادارے سوات میں قیام امن کے لئے بروقت متحرک نہ ہوئے اور اس ضمن میں عام لوگوں کا اعتماد بحال نہ کیا گیا تو خدانخواستہ ماضی کے برعکس اس مرتبہ حالات زیادہ سنگین اور خونی رخ اختیار کر سکتے ہیں لہٰذا اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نیز سیکیورٹی اداروں کو بلیم گیم میں پڑنے کے بجائے عوام کے وسیع تر مفاد میں قبل از وقت ایسے اقدامات اٹھا لینے چاہئیں جن کے نتیجے میں دیرپا اور مستحکم امن کے قیام کی راہیں مستقلاً ہموار ہو سکیں اس میں سب کی بھلائی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments