موسمیاتی تبدیلیوں کے نفسیاتی اثرات


کرہ ارض پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ جو واقف ہو کر بھی انجان بنے ہیں موسموں کی شدت ہر گزرتے دن کے ساتھ انہیں یہ باور کروا رہی ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ سائنسدان اور ماہرین موسمیات اپنی تحقیقات کے ذریعے پچھلی کئی ایک دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے ہیں تاکہ کرہ ارض کو موسم کی شدتوں سے بر وقت بچایا جا سکے۔ ان تبدیلیوں سے جو نقصانات ہو رہے ہیں ان نقصانات کا انسانی رویوں اور ذہنوں پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔

ماہرین نفسیات اسی مسئلے کے حل کے لئے ”ماحولیاتی نفسیات“ کو ایک مضمون کے طور پر پڑھانے اور اس پر تحقیق کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ماحولیاتی نفسیات سے مراد انسانوں اور ان کے ارد گرد کے ماحول کے مابین تعلق کا مشاہدہ کرنا ہے۔ انسانوں کے رویے، ان کا ادراک اور ان کی سوچ ان کے ماحول سے کس قدر مطابقت رکھتے ہیں اور کن ماحولیاتی عوامل سے انسانوں میں ڈپریشن، ذہنی دباؤ، بے چینی، خوف، غصہ اور احساس کمتری جیسے نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ یہ تمام ماحولیاتی نفسیات کے مضمون کے موضوعات ہیں۔ ماحولیاتی نفسیات نہ صرف انسانی رویے بلکہ شہروں اور عمارتوں کی تعمیر میں ضروری اور غیر ضروری ڈیزائنز کو بھی زیر بحث لاتی ہے جس سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ عمارتوں کے نقشے انسانوں کی شخصیت اور رویوں پر کیسا اثر ڈالتے ہیں۔

حالیہ سیلاب نے پاکستان کے ایک بڑے حصے کو متاثر کیا ہے، انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ مال مویشی، گھر، کاروبار، فصلیں، سڑکیں، نظام آبپاشی، نظام مواصلات اور گھریلو صنعتوں کا بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ اس نظام کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے کئی ایک سال درکار ہیں۔ یہ سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی کا ایک شاخسانہ ہے۔ جب نئے شہر اور بستیاں تعمیر کی جاتی ہیں تو شہر کے ماحول کو پرکھا جاتا ہے کہ ان تعمیرات سے انسانوں کے رویوں اور ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ دریا بستیوں اور شہروں کی تلاش میں اپنا رستہ نہیں بدلتے بلکہ آبادیاں بڑھتے بڑھتے دریاؤں کے راستے میں حائل ہو جاتی ہیں۔ بستیوں اور شہروں کی تعمیرات کے دوران اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ قدرتی آفات ان کو کس طرح متاثر کریں گی۔ سیلاب جیسی قدرتی آفات کے نتیجے میں جسمانی بیماریوں اور نظام کے درہم برہم ہونے کے علاوہ جو قابل توجہ مسائل ہیں ان میں شدید نفسیاتی مسائل سر فہرست ہیں۔ گھر بار لٹ جانے کے سبب بے سروسامانی کی کیفیت میں شدید نفسیاتی دباؤ، ذہنی تناؤ، ڈپریشن، بے چینی، خوف و ہراس، اپنوں کے ڈوب جانے کا غم اور صدمہ ایسی کیفیات ہیں کہ نارمل زندگی کی طرف آنے میں کئی سال مانگتے ہیں۔

ایسے میں اچھے ماہرین نفسیات کی ضرورت اور ان کا آفت زدہ علاقوں میں موجود ہونا بہتری کی جانب پہلا قدم ہونا چاہیے۔ آفات کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور بحالی کے بارے میں تو تربیتی پروگرام اور ورکشاپس منعقد کی جا رہی ہیں، لیکن ان قدرتی آفات سے بچاؤ کیسے ممکن ہے اس کی تربیت کے لئے ماحولیاتی نفسیات سے مدد لینا ضروری ہے۔ انسانی رویے ہی قدرتی آفات کا موجب بن رہے ہیں۔ جب آپ دریاؤں کے راستے میں تعمیرات کریں گے، پہاڑ کاٹ کر گھر بنائیں گے، جنگل ختم کر کے شہر آباد کریں گے اور کارخانے اور فیکٹریاں شہروں کے درمیان بنائیں گے، پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کی بجائے نئی پلاسٹک بنائیں گے، پانی کو محفوظ رکھنے کے لئے کوشش نہیں کریں گے تو موسمیاتی تبدیلی میں کمی کیسے آئے گی؟

یہ دو طرفہ تعلق ہے، ماحول انسان کے اوپر گہرا اثر ڈالتا ہے اور انسان اپنے رویے، اپنی شخصیت، اپنے کردار اور سوچ سے ماحول پر اثر رکھتا ہے۔ معاشروں کی تشکیل میں رویوں کا بڑا اہم کردار ہے، مثبت رویے تباہی اور قدرتی آفات سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ پلاسٹک کی تھیلی ہم نے استعمال کر کے سڑک پر پھینک دی ہے اس کا خمیازہ ہمیں کس صورت میں بھگتنا ہے یہ سوچے بغیر ہم اس پلاسٹک میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں کہ ہمارے ایک شاپر سے کیا فرق پڑے گا۔ جناب جب یہ ہی سوچ کر ایک ایک شاپر پھینکتے جائیں گے تو وہ کوڑے کا ڈھیر ہی بنے گا۔

انسانی شخصیت، انفرادی اختلافات، ادراک، رویے اور ذہنی صلاحیتوں پر ماحول کے اثرات کو جانچ کر موجودہ ماحول کو بہتر بنا کر ہی موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی نظام کو کار آمد بنایا جا سکتا ہے۔ شہروں کو ڈیزائن کرنا اور انسانوں کو وہاں آباد کرنا ایک کار ہائے دشواری ہے، اس کے لیے نہ صرف ماہر تعمیرات بلکہ ماحولیاتی ماہر نفسیات کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے جو یہ تعین کر تا ہے کہ ایک اسپتال کی عمارت کی تعمیر میں کن انسانی رویوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

شعبہ حادثات اسپتال کے اندر داخل ہوتے ہی مل جانا چاہیے یا شعبہ امراض قلب گراؤنڈ فلور پہ ہو، داخلی اور خارجی راستے اتنے آسان ہوں کہ مریض کو اپنی بیماری کے ساتھ راستہ ڈھونڈنے اور متعلقہ شعبہ تک پہنچنے میں دقت نہ ہو۔ تعلیمی اداروں کی تعمیرات کشادہ اور ہوادار ہوں، جہاں علم سیکھنا دشوار نہ لگے، گھٹن زدہ ماحول نہ ہو۔ ماحولیاتی ماہر نفسیات یہ بھی تجزیہ کرے گا کہ سڑکوں پر ٹریفک کا ہجوم، بازاروں کی تنگ گلیوں میں لوگوں کا ہجوم اور کارخانوں کا شور ذہنی دباؤ کو جنم دیتا ہے، بے چینی اور خوف کو بڑھاتا ہے۔

اسی طرح جب بستیاں آباد کی جاتی ہیں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ نکاسی آب کی کیا صورت ہوگی، لوگوں کو کیا رہائشی مسائل ہوں گے جن سے ان کے اندر غصہ، جھنجھلاہٹ، اور ڈر جیسی کیفیات جنم لیں گی۔ یہ سیلاب نہ صرف جسمانی بیماریاں دے کر گیا ہے بلکہ صدمہ، ذہنی کشمکش، غیر یقینی کیفیت، خوف، دہشت، ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور کئی ایسی نفسیاتی بیماریاں بھی جھولی میں ڈال گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments