یا استاد


ڈاکٹر نذیر احمد صاحب فیض احمد فیض کے ہمراہ

‘اوئے سرمد؟ آ جا آ جا, (ہمارے دانشور دوست کو دیکھتے ہوئے ) اوئے کاکا توں وی لنگھ آ.'( بیٹا تو بھی آجا) ڈاکٹر صاحب کے اس استقبال سے ہمارے شہرت زدہ دوست کو یک دم گمنامی کا ایسا دھچکا لگا کہ ایک لمحہ کے لئے ان کا اپنے ہونے پر سے بھی اعتبار اٹھ گیا.
ڈاکٹر صاحب کو ظاھری شو شا, خوامخواہ کی نمایئش اور خود پسندی بالکل نہیں بھاتی تھی. وہ ایسے مردم شناس تھے کہ ایک نظر میں انسان کی شخصیت کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے لیکن اس کا اظہار بڑی خوبصورتی سے کرتے تھے. ہمارے دوست جب ڈاکٹر صاحب کی ان کی شہرت سے بے خبری کی رمز کو نہ سمجھ سکے تو میں نے ذرا کھنکارکر کہا, ڈاکٹر صاحب یہ ٹی وی پر آتے ہیں. ‘
‘اوہو بھئی معاف کرنا میں تو ٹی وی نہیں دیکھتا. او بھئی چائے لاؤ.’انہوں نے اپنے چپراسی کو آواز دی.
اب ٹی وی کے دانشور صاحب کا مسئلہ بن گیا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو اپنی شہرت اور دانشوری کا کیسے یقین دلائیں. چنانچہ انہوں نے علی گڑھ کا ذکر چھیڑا اور لمبی چوڑی تمہیدیں باندھ کر یہ جتایا کہ وہ علی گڑھ کے کتنا قریب رہے ہیں, ڈاکٹر صاحب نے اپنے میز کی دراز سے ایک کتاب نکالی جو کسی انگریز نے لکھی تھی, کہنے لگے ‘دیکھو یہ علی گڑھ یونیورسٹی پر تازہ کتاب آئی ہے. ‘کتاب کھولی تو پہلے صفحے پر کتا ب کا انتساب تھا, ‘ڈاکٹر نذیر کے نام جس کا مقام میرے لئے اپنے باپ جیسا ہے.’ٹی وی دانشور حیران ہوئے اور علی گڑھ کی نیمز ڈراپنگ یعنی تمہیدی جاہ و جلال اور سکہ بند ناموں کی منادی احتتام کو پہنچی. اب دانشور نے فیض صاحب سے اپنی دوستی کا ذکر چھیڑا, چنانچہ بولے ‘فیض آئے, کہا, جان من’اور فیض کے چند شعر سنا دیے. اس پر ڈاکٹر صاحب نے پھر دراز کھولی اور اس میں سے فیض صاحب کا ایک خط نکالا اور ہمارے سامنے رکھتے ہوئے کہا, ‘بھئی فیض کی تازہ نظم دیکھو. یہ آج ہی ان کا خط آیا ہے’
دانشور نے پھٹٰی آنکھوں سے خط پڑھا. ‘پیارے نذیر یہ میں نے ایک نظم لکھی ہے, تم اسے دیکھو اور بتاؤ کیسی ہے؟’
دانشور اپنا ‘جان من’بھول گئے اور فیض کی نیم ڈراپنگ بھی ختم ہو گئی. اب استاد دامن آ گئے, استاد کا جسہ یعنی ڈیل ڈول پہلوانوں جیسا تھا, وہ خود بتاتے تھے کہ جب وہ کسی مشاعرے میں بلائے گئے تو منتظمین نے کہا, ہم  نے تمہیں شاعر لانے کو کہا تھا, تم پہلوان لے آئے ہو.
‘چل نذیر آٹھ تندوری پراٹھے کھائیے'(چل نذیر اٹھ تندوری پراٹھے کھائیں ) استاد نے کھڑے کھڑے کہا.
‘نہیں استاد کراچی توں مہمان آئے ہوئے نیں.'(نہیں استاد کراچی سے مہمان آئے ہوئے ہیں.) استاد نے مہمان دانشور کو ایک نظر دیکھا اور باہر نکل گئے.
‘یہ کون صاحب تھے؟ دانشور نے مجھ سے سرگوشی کی.
‘استاد دامن ہیں, پنجابی کے بہت بڑے شاعر اور فیض صاحب کے قریبی دوست’میں نے آہستہ سے کہا
اس سے پہلے کہ ہمارے دانشور دوست یہاں سے اجازت لے کر کسی پان والے کی دکان پر جاتے, دس بارہ ننگ منگے بچے شور مچانے بڑی بے تکلفی سے کمرے میں داخل ہوئے.
‘اوئے بھئی ذرا ٹھہر کے آنا, ایس ویلے مہمان آئے ہوئے نہیں ‘( بھئی ذرا ٹھہر کے آنا اس وقت مہمان آئے ہوئے ہیں. ) ڈاکٹر صاحب نے بچوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا. بچوں نے ‘مہمان’کی طرف ذرا مایوسی سے دیکھا اور خاموشی سے واپس پلٹ گئے.
‘یہ بچے کیسے یہاں تشریف لائے؟ حیرت زدہ دانشور نے پوچھا
‘کچھ نہیں یہ یہاں ( گھومنے والی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) جھونٹے (جھولے) لینے آتے ہیں. یہ پیچھے چنگڑ محلہ ہے, وہاں رہتے ہیں. میں ان کی کرکٹ ٹیم کا بھی مینجر ہوں. ‘ڈاکٹر صاحب نے کہا اور سکرین کے پیچھے گم ہو گئے جہاں انہوں نے اپنے نہانے کے لئے پانی کی بالٹی رکھی ہوئی تھی, نہانے کی آواز آئی تو ہکا بکا دانشور نے استفسار کیا.
‘سرمد صاحب یہ فرمایئے کہ انہوں نے ڈاکٹریٹ کس میں کی ہوئی ہے؟’ ڈاکٹر صاحب نے چونکہ زوالوجی میں پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی اس لئے میں نے اس کا سلیس ترجمہ کرتے ہوئے کہا.
‘علم الحیوانات میں. ‘
ڈاکٹر صاحب کے درویش صفت چال چلن سے کچھ پروفیسر نالاں بھی تھے. وہ کہتے کہ ڈاکٹر صاحب نے کالج کا ڈسپلن خراب کر دیا ہے. ان کے ذہن میں ابھی تک گورنمٹ کالج کے پرنسپل کا امیج اسی کلونیل انگریز کا تھا. گورنمنٹ کالج اور دوسرے تعلیمی ادارے انگریز نے میکالے کی تعلیمی پالیسی پر بنائے تھے اور ان کا مقصد بابو پیدا کرنا تھا لیکن اسی کالج سے اقبال اور پھر راشد اور فیض بھی پیدا ہوئے جنہوں نے اس کالج کی کلونیل وراثت کی مزاحمت کی, ڈاکٹر صاحب اسی روایت کو زندہ رکھنا چاہتے تھے. میں نے ایک دن اس کا ذکر ڈاکٹر صاحب سے کیا تو انہوں نے کہا, بھئی ایک ٖڈسپلن ملٹری ڈسپلن ہوتا ہے جہاں ٖڈسپلن اوپر سے مسلط کیا جاتا ہے اور ایک ڈسپلن ایوالو evolve ہوتا ہے یعنی گراؤنٖڈ سے شروع ہوتا ہے. نوجوان طالب علم ایک پودے کی طرح ہے, ہمیں اس کی نشوونما کرنی چاہیے. اسے پھلنے پھولنے دینا چاہیے.
ایم اے میں مجھے کالج کے رسالے ‘راوی’کا ایڈیڑ بنایا گیا. راوی کے نگران قیوم نظر ہوا کرتے تھے, وہ تھے تو بڑے پیارے آدمی لیکن انہیں طالب علموں کو ذہنی اذیت دینے میں بہت مزہ آتا تھا. میری ان سے شروع سے ہی کچھ ان بن تھی, پہلے تو انہوں نے مجھے اردو کی کلاس سے نکالا تھا اور بعد میں جب میں نے فرسٹ یئر میں ان کو ایک غزل ‘راوی’کے لئے دی تو انہوں نے سب کے سامنے میرا خوب مذاق اڑایا اور ایک سفاکانہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولے ‘دیکھو ذرا اس فرسٹ ایر کے لڑکے کو, یہ اپنے آپ کو شاعر سمجھتا ہے. سوچو بھلا اس کو راوی کے لیے غزل دینے کی جرات کیسے ہوئی’. اب چونکہ میں اسی ‘راوی’کا ایڈیٹر تھا اور قیوم صاحب نگران تو ہمارا کوئی نہ کوئی تو جھگڑا ہونا ہونا تھا, چنانچہ ایک دن ایڈ یٹوریل پر ان سے بدتمیزی کی حد تک جدل ہو گیا. قیوم صا حب کو میرا لکھا ہوا اداریہ سخت ناپسند تھا لہذا انہیں نے اسے چھاپنے سے انکار کر دیا اور مجھے ان کی مرضی کے مطابق اداریہ لکھنے کو کہا جس کے لیے میں ہرگز تیار نہیں تھا. چنانچہ قیوم صاحب نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے مجھے ‘راوی’کی ایڈیڑی سے نکال دیا. معاملہ پرنسپل تک پہنچ گیا. ڈاکٹرصاحب نے بورٖڈ کی میٹنگ بلائی جس میں مجھے بھی بلایا.
‘قیوم صاحب آپ نے سرمد کو کیوں’راوی ‘سے نکال دیا؟’
‘سر یہ بڑا بدتمیز ہے, گستاح اور ضدی ہے, آگے سے جواب دیتا ہے. ‘
‘قیوم صاحب اگر میں سرمد کو کہوں کہ تم راوی کے ایڈیڑ بن جاؤ اور یہ آگے سے نخرے کرے اور کہے مجھے ایڈیٹر نہیں بننا, تو میں کیا کروں گا؟ میں اس کے نخرے سہوں گا. اس کے ناز آٹھاؤں گا. آپ بھی اس کے ناز اٹھائیں. ‘قیوم صاحب اس بات پر بہت پریشان ہوئے. میٹنگ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹر اجمل صاحب کو راوی کا نگران بنا دیا اور میرا اداریہ جوں کا توں چھپ گیا. عجیب اتفاق ہے کہ کچھ سالوں بعد قیوم صاحب ریٹائر ہو کر اورئنٹل کالج چلے گئے تو میری ان سے ایک نہایت خوبصودرت دوستی شروع ہو گئی. اب وہ ہر ہفتے خاص طور پر مجھے ملنے آتے اور دیر تک مجھ سے باتیں کرتے. میں بھی ان کو اورئنٹل کالج ملنے جاتا. ہماری بحث بھی بہت چلتی اور وہ قہقہے لگا لگا کر میری باتوں سے خوش بھی ہوتے. ہمارے وہی قیوم صاحب جنہوں نے مجھے پہلے کلاس سے اور پھر ‘راوی’سے نکالا تھا مجھے ایم اے کے امتحان کے ایک پرچے کا ایکسٹرنل ایگزامینر بنا دیا. شاید یہ بھی ڈاکٹر صاحب کا کرشمہ تھا جنہوں نے کہا تھا, ‘قیوم صاحب میری طرح آپ بھی سرمد کے ناز اٹھائیں. ‘

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سرمد صہبائی
Latest posts by سرمد صہبائی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments