ٹرانس جینڈر ایکٹ، مضمرات، اثرات


2018 ء میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے آخری دنوں میں ”خواجہ سرا“ کے حقوق کی آڑ میں پیپلز پارٹی نے ایک بل پیش کیا۔ مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور تمام لبرل پارٹیوں نے (اپنے تمام سیاسی اختلافات بھلا کر) اس بل کی حمایت کی اور یوں یہ بل، ایکٹ یعنی قانون کی حیثیت اختیار کر گیا۔ بعد ازاں جب سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس ایکٹ کے غیر شرعی اور دستور پاکستان سے متصادم شقوں میں ترامیم پیش کی تو تحریک انصاف حکومت کے انسانی حقوق کے وزیر شیریں مزاری صاحبہ نے نہ صرف اس کی بھرپور مخالفت کیں بلکہ امریکہ اور مغربی تائید پر خوشی کے شادیانے بھی بجا لئے اور کریڈٹ لینے کی کوشش کیں۔ بل پیش کرنے والوں نے خواجہ سراؤں کے حقوق کا سہارا لے کر ایسی چابکدستی اور عیاری سے اس قانون کا مسودہ تیار کیا کہ اس میں ہم جنس پرستوں کے لیے قانونی تحفظ کا ایک شاندار چور دروازہ رکھ دیا گیا۔

اس طرح ہم جنس پرستی کو باقاعدہ قانونی تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے۔ یہ ایکٹ نہ صرف کئی اسلامی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ اس سے ہم جنس پرستی جیسے کبیرہ گناہ کا راستہ اس طرح کھل جائے گا کہ اس کا سد باب بہت مشکل ہو جائے گا۔ آسان الفاظ میں یہ سمجھ لیں کہ اس ایکٹ میں ٹرانس جینڈر کی تعریف (جس کے لیے درست لفظ انٹر سیکس ہے ) میں بائیولوجیکل ساخت کے اعتبار سے مکمل مرد اور عورت کو بھی محض اپنے احساسات کی بنا پر ٹرانس جینڈر قرار دیا گیا۔

دوسرا ان افراد کو یہ حق دیا گیا کہ وہ چاہیں تو مکمل مرد یا عورت ہونے کے باوجود اپنی جنس اپنی مرضی سے، اپنے شناختی کاغذات میں اپنے احساسات کے مطابق تبدیل کر سکتے ہیں اور NADRA یہ تبدیلی کرنے کا، قانونی طور پر پابند ہو گا اور اس کے لیے اس قانون میں Self Perceived Gender Identity کی اصطلاح ڈالی گئی ہے۔

ایکٹ میں ”ٹرانس جینڈر کی کیا تعریف بیان کرتے ہوئے اس کی تین تعریفات بیان کی گئی ہیں، جن میں سے پہلی تعریف درست ہے۔ لیکن اس کے لیے درست لفظ“ ٹرانس جینڈر ”نہیں بلکہ انٹر سیکس یا ہرمافروڈائٹ (Hermaphrodite ) ہے۔

پہلی تعریف: وہ شخص ٹرانس جینڈر ہے جس کے اعضا ء میں پیدائشی صنفی ابہام (Sexual ambiguity) ہے۔ لیکن اس کے لیے درست لفظ ”انٹر سیکس یا ہر ما فروڈائٹ“ ہے۔

دوسری تعریف: کے مطابق وہ شخص جو مکمل مرد ہے وہ کسی وجہ سے مثلاً دوائی یا ایکسیڈنٹ کی وجہ سے مردانہ صلاحیت سے محروم ہو جائے، وہ بھی اس ایکٹ کے مطابق ٹرانس جینڈر ہے : حالانکہ وہ مکمل مرد ہے ؛ اس کے احساسات، جذبات، اس کی بائیولوجیکل ساخت مردوں کی ہے ؛ صرف اس کی مردانہ قوت زائل ہونے سے اس کی جنس ہرگز تبدیل نہیں ہو سکتی۔

تیسری تعریف: کے مطابق ایسے افراد جو پیدائشی طور پر، جسمانی اور ہارمونز کے اعتبار سے مکمل عورت یا مرد کی جنس کے ساتھ پیدا ہوئے۔ مگر بڑے ہو کر کسی نفسیاتی الجھن یا پیچیدگی، معاشرتی دباؤ، ٹرینڈ، ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر اپنی جنس سے ناخوش ہیں۔ اس ناخوشی یا نفسیاتی بیماری کو Gender dysphoria کہا جاتا ہے۔

ایسے افراد کو بھی ایکٹ میں ٹرانس جینڈر کہا گیا۔ حالانکہ بائیولوجیکل ساخت کے اعتبار سے وہ ایک مکمل مرد یا عورت ہے۔

اس ایکٹ سے معاشرے میں کیا بگاڑ رونما ہو گا؟

سب سے بڑی خرابی کہ اس سے ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے گا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ایک مرد جس میں کسی بھی قسم کی کوئی صنفی خرابی نہیں ہے ؛ یہاں تک کہ وہ شادی شدہ اور صاحب اولاد ہے مگر اس کی خواہش/ میلان طبع (Inclination) یہ ہے کہ وہ ایک عورت کی طرف پہچانا جائے تو وہ بغیر کسی میڈیکل ٹیسٹ/سرٹیفیکیٹ کے ؛ اس ایکٹ کی شق نمبر 3 اور سب شق 2 کے تحت نہ صرف نادرا بلکہ کسی بھی حکومتی ادارے میں خود کو بحیثیت عورت رجسٹر کروا سکتا ہے یا چاہے تو ٹرانس جینڈر بھی رجسٹر کروا سکتا ہے۔

اور یہی حق ایک عورت کو بھی حاصل ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ مرد جو حکومتی کاغذات میں اب عورت رجسٹر ہے کسی دوسرے مرد سے شادی بھی کر سکتا ہے۔ عورتوں کے لیے مختص تمام جگہوں، ٹوائلٹ، سوئمنگ پول، جاسکتا ہے، عورتوں کے تمام قوانین اس پر لاگو ہوں گے ایک عورت جو پیدائشی طور پر عورت ہے، مرد رجسٹر ہو کر وراثت میں اپنا حصہ دگنا کروا سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں خاندانی نظام میں جو تباہی آئے گی وہ ناقابل بیان ہے۔ نیز ہم جنس پرستی کا طوفان پورے معاشرے کو گھیر لے گا۔ نعوذ باللہ من ذلک۔ افسوس کہ جس مظلوم صنف یعنی حقیقی مخنث (intersex ) کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے اور جن کی تعداد بہت ہی کم ہوتی ہے ؛ ان کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ رہا بلکہ جعلی مرد و عورت قانونی طور پر اپنے آپ کو ٹرانس جینڈر بنا کر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

کیا یہ محض خدشہ ہے یا اس میں کچھ حقیقت بھی ہے؟

یہ کوئی خدشہ یا خیالی بات نہیں بلکہ سینیٹر مشتاق احمد صاحب نے اس وقت کے وزیر داخلہ سے یہ سوال پوچھا کہ جولائی 2018 ء (جب یہ قانون منظور ہوا) سے لے کر جون 2021 ء تک کتنے لوگوں نے جنس کی تبدیلی کے لیے اپلائی کیا؟

وزارت داخلہ سے تحریری طور پر موصول ہو نے والا جواب اور اعداد و شمار انتہائی خوفناک تھے!

جولائی 2018 لے کر جون 2021 تک گزشتہ تین سالوں میں 28,723 افراد نے اپنی میلان طبع اور اندرونی طور پر محسوس کیے گئے احساسات اور جذبات کی بنیاد پر خود کو اپنی اس جنس سے علیحدہ شناخت کے لئے درخواست دی ہے جو انہیں پیدائشی طور پر عطا (Allot) کی گئی تھی اور اب وہ اپنی جنس شناختی کاغذات میں تبدیل کروا چکے۔ ان میں سب سے زیادہ مرد ہیں، یعنی 16,530 ایسے مرد تھے جنہوں نے اپنے آپ کو عورت رجسٹر کروا لیا۔ اس کے بعد 12,154 ایسی عورتیں ہیں جنہیں پیدائش کے وقت لڑکی بتایا گیا تھا، مگر وہ اب خود کو مرد کہلوانا اور قانونی طور پر مرد بننا پسند کرتی ہیں۔

صرف 9 ایسے مرد ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم دراصل خواجہ سرا ہیں مگر ہمیں غلطی سے مردوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے بالکل برعکس 21 خواجہ سرا وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں ہم تو مکمل طور پر مرد ہیں اور اب ہمیں مرد کہا جائے ؛ جبکہ 9 خواجہ سراؤں نے خود کو عورت کہلوانے کے لیے درخواست دی جماعت اسلامی کے محترم سینیٹر جناب مشتاق احمد خان نے اس ایکٹ کے خلاف ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کیا ہے جو کمیٹی میں بھیجا گیا ہے اور آج کل اس پر بحث چل رہی ہے۔

محترم مشتاق احمد خان نے اس قانون میں ترمیم پش کی ہے کہ ٹرانس جینڈر پرسن کی تعریف نمبر 2 اور 3 جس میں مکمل مرد و عورت کو ٹرانس جینڈر قرار دیا گیا ہے وہ ختم کیا جائے۔ ٹرانس جینڈر کے لیے جنس کا تعین self perceived gender identity (ذاتی تصور کی ہوئی جنسی شناخت) کے بجائے میڈیکل بورڈ سے مربوط کیا جائے۔

جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب نے بہت ہی تفصیل کے ساتھ اس ایکٹ کا قانونی جائزہ اور اس کا تجزیہ کیا ہے، ان کے وال کا وزٹ کرنا فائدہ مند رہے گا۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1592599067821478&id=100012142007594&sfnsn=scwspmo

”تیسری قسم (اور یہیں سارے فساد کی جڑ پائی جاتی ہے ) کو ہی اصل ماورائے صنف قرار دے کر اس کی تعریف یوں پیش کی گئی ہے :

ماورائے صنف مرد، عورت، خواجہ سرا، یا کوئی بھی شخص (جی ہاں، اچھی طرح نوٹ کر لیں، کوئی بھی شخص) جس کی صنفی شناخت یا جس کا اظہار صنف (ان دونوں تراکیب کی تعریف اوپر دی گئی ہے، وہ دوبارہ ملاحظہ فرما لیں ) ان سماجی اقدار اور ثقافتی توقعات سے مختلف ہو جو اس جنس پر مبنی ہوں جو اسے پیدائش کے وقت دی گئی تھی۔

سب سے پہلے تو اس تعریف میں ”یا کسی بھی شخص“ (or any person) کے الفاظ پر غور کریں۔ ان الفاظ سے قبل تین خاص صورتیں ذکر کی گئی ہیں : ماورائے صنف مرد، ماورائے صنف عورت، خواجہ سرا۔

اب ان تین خاص صورتوں کے بعد بالکل عمومی صورت ذکر کی گئی: یا کوئی بھی شخص اصول فقہ کی اصطلاح استعمال کریں، تو یہ ذکر العام بعد الخاص ہے۔ گویا اصل ہدف اس عموم کا بیان تھا اور پہلے چند خاص صورتیں صرف بطور مثال ذکر کی گئی ہیں۔

چنانچہ ایک نتیجہ تو اس سے یہ نکلا کہ ”ماورائے صنف شخص“ کی کیٹگری صرف چند مخصوص افراد کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ ”سہولت“ اس قانون نے ”کسی بھی شخص“ کے لیے پیدا کی ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنی صنف (gender) سے ماورا (trans) ہو کر کسی اور صنف میں جاسکتا/سکتی ہے۔

آسان الفاظ میں کوئی شخص جسمانی طور پر مرد ہے لیکن وہ مردوں والے کام نہیں کرتا، جو سماجی اقدار کے مطابق مردوں کے کرنے کے ہیں یا جن کی توقع ثقافتی طور پر مردوں سے کی جاتی ہے، تو وہ یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اپنی صنف تبدیل کر کے خود کو عورت کہلوائے۔ اسی طرح کوئی عورت بھی اپنا عورت پن ترک کر کے خود کو مرد کہلوا سکتی ہے۔

یہ بھی نوٹ کیجیے کہ بات یہیں تک محدود نہیں ہے کہ کوئی مرد خود کو عورت کہلوائے، یا عورت خود کو مرد کہلوائے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کوئی مرد خود کو مرد و عورت کا مجموعہ، یا ان دونوں سے الگ نوعیت میں بھی شمار کر سکتا ہے ؛ عورت بھی یہی کر سکتی ہے ؛ خواجہ سرا بھی یہی کر سکتا ہے ؛ اور ”کوئی بھی شخص“ یہ کر سکتا /کر سکتی ہے۔

مکرر عرض ہے : کوئی بھی شخص!
”ان دفعات کا مفہوم اور نتائج کیا ہیں؟

چونکہ ”کوئی بھی شخص“ کسی بھی وقت ”ذاتی احساس پر مبنی صنفی شناخت“ کے ساتھ تسلیم کیے جانے کا حق رکھتا ہے، اس لیے اگر کوئی شخص جو جنسی طور پر مرد ہو اور وہ نادرا کے دفتر جا کر صرف اتنا قرار دے کہ اس کے ذاتی احساس کی بنا پر اس کی صنفی شناخت کو عورت قرار دیا جائے، تو نادرا کے پاس نہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے، نہ ہی نادرا کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اس کا طبی یا نفسیاتی معائنہ کرانے کا کہے۔ اب جب ایک مرتبہ اسے سرکاری کاغذات اور دستاویزات میں عورت قرار دیا گیا، تو اسے عورتوں کے سارے حقوق بھی میسر آ گئے۔

کسی گرلز کالج میں داخلے سے لے کر قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کی رکنیت تک، کسی بس میں عورتوں کے لیے مخصوص سیٹوں سے لے کر کسی ریستوران میں عورتوں کے لیے مخصوص واش رومز تک؛ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر چونکہ یہ عورت ہے، تو اسے کسی مرد سے شادی کی بھی قانوناً اجازت مل گئی، اور یاد رکھیے کہ یہ سب کچھ اسے ”جنس“ تبدیل کیے بغیر اور جسمانی ساخت میں تغییر لائے بغیر مل گیا!

یہی کچھ کوئی بھی خاتون کر سکتی ہے۔

اب ان کے ساتھ دفعات 4، 5 اور 6 کو ملائیے جن میں کافی تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ ماورائے صنف شخص کے خلاف کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں برتا جائے گا، نہ ہی اسے ہراساں کیا جائے گا، اور اس ضمن میں حکومت کی ذمہ داریوں کی بھی تفصیل دی گئی ہے۔ اگر اس قانون کا اطلاق صرف خنثی اور خواجہ سرا پر ہوتا تو مجھے ان تین دفعات پر شاید کوئی اعتراض نہ ہوتا لیکن چونکہ ان کا اطلاق ماورائے صنف اشخاص پر بھی ہوتا ہے، بلکہ اصلاً یہ قانون بنایا ہی ان لوگوں کے لیے گیا ہے جو اپنی صنف تبدیل کر کے کسی اور صنف میں جانا چاہتے ہیں یا کم از کم اپنی صنف سے نکلنا چاہتے ہیں، اس لیے یہ دفعات بھی بہت خطرناک نتائج کی حامل ہو گئی ہیں۔

پھر ماورائے صنف اشخاص کو یہ اختیار بھی مل گیا ہے کہ وہ اپنے ذاتی احساس پر مبنی صنفی شناخت کے ذریعے وراثت کے احکام بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ مثلاً کوئی جسمانی اور جنسی طور پر عورت اگر وراثت میں زیادہ حصہ لینا چاہتی ہے، تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ وہ نادرا کے پاس جا کر اپنے ذاتی احساس پر مبنی صنفی شناخت کو مرد کروا دے۔ پھر اسے کوئی مرد کا حصہ لینے سے روک نہیں سکے گا کیونکہ اس قانون کی دفعہ 7 کی رو سے یہ لازم ہے کہ وراثت کے حصے بھی ذاتی احساس پر مبنی صنفی شناخت کے مطابق دیے جائیں۔

ان امور کی بنا پر یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ اس قانون کے ذریعے نہ صرف ہم جنس پرست شادیوں اور جنسی بے راہ روی کی دیگر قسموں کو قانونی جواز دیا گیا ہے، بلکہ اس کے ذریعے خاندانی نظام کی جڑیں ہی اکھاڑی جا رہی ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments