خطرناک!


بچپن میں ہم جسے ’بدمعاش‘ کہتے تھے، اسے آج کل ’خطرناک‘ کہا جاتا ہے، ’خطرناک‘ خوفناک اور ڈراؤنے شخص یا فعل کو کہا جاتا ہے، جبکہ ’بدمعاش‘ کا اطلاق بداطوار، بدکردار، بدذات اور لچے لفنگے پر کیا جاتا ہے جس کا گزارہ عموماً برے کاموں کی آمدنی پر ہوتا ہے۔ دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ بدمعاش کا ہر قول و فعل تقریباً ’خطرناک‘ ہوتا ہے۔ ’بدمعاش‘ شخص کے لیے دلوں میں محبت تو نہیں ہوتی مگر چونکہ اس کا ہر فعل خطرناک ہوتا ہے اس لیے اس کے آگے سلوٹ کیے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔

’خطرناک‘ شخص در اصل ایک قسم کے جنون میں مبتلا ہوتا ہے جس کے بعد وہ ہوش و خرد کے بندھنوں سے ایک طرح سے آزاد ہو جاتا ہے۔ ایسا شخص پھر یہ نہیں دیکھتا کہ اس کا پھینکا ہوا پتھر، کس کا سر پھوڑے گا یا اس کے خطرناک دہن سے نکلا ہوا شوشہ کس کے دل کو لہولہان کرے گا۔ اس کے اقوال جتنے خطرناک ہوتے ہیں اتنے ہی اس کے افعال خوفناک ہوتے ہیں۔ وہ نہ اظہار خیال کی نفاستوں سے آشنا ہوتا ہے اور نہ ہی زبان و بیان کے سلیقوں سے بہرہ ور ہوتا ہے۔

اس کا مقصد اپنے مفادات کا حصول اور طاقتور سے طاقتور افراد پر اپنی دھاک بٹھانا ہوتا ہے تاکہ میدان اس کے گھناؤنے کرتوتوں کے لیے خالی رہے اور وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں بہر حال کامیاب رہے۔ ’خطرناک‘ شخص سے لوگ اس لیے بھی احتیاط برتتے ہیں کہ اسے نہ خود اپنی عزت کی فکر ہوتی ہے، نہ ملک کی اور نہ ہی اپنے اہل خانہ کی، بلکہ عموماً اس کے خاندان کا اتا پتہ بھی نہیں ہوتا، سو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ’خطرناک‘ شخص سے قانون بھی حد درجے محتاط رہتا ہے۔

مثلا، اگر وہ توہین عدالت کر لیتا ہے تو معزز ججز صاحبان اپنی فیس سیونگ کے لیے اس سے برائے نام معافی نامہ جمع کرانے کا مطالبہ کر لیتے ہیں اور اگر وہ معافی نامہ کو بھی اپنی تذلیل سمجھ کر آگے سے آنکھیں دکھانا شروع کر دے تو عدالت فوراً اس کے لیے قانون کو ہائبرڈ بناتے ہوئے اس کے قول کی کوئی مناسب توجیہ پیش کر کے اسے باعزت بری کرنے کا غیر صائب مگر بے چارگی والا حکم صادر فرما دیتے ہیں۔

خطرناک شخص اگر مسلمان بھی ہو تب بھی اس کا لب و لہجہ ہمیشہ تہدید آمیز ہی ہوتا ہے۔ نہ وہ قرآن کے ان فرامین پر کان دھرنے کے لیے تیار ہوتا ہے کہ ”لوگوں سے بھلی بات کہو“ اور اگر بحث کی نوبت آئے ”تو وہ بھی حسین پیرائے میں کیا کرو“ اور نہ ہی وہ نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کو خاطر میں لاتا ہے کہ

”قیامت کے دن مومن کے میزان میں اچھے اخلاق سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی اور یہ کہ اللہ تعالیٰ بے حیاء اور بدزبان سے نفرت کرتا ہے“ ۔ ترمذی۔ وہ تو بس، اپنے ”میں پن“ میں مگن رہنے سے لطف لیتا ہے۔ اب آپ سوال کریں گے کہ پورے معاشرے میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہوتا کہ جو اس بے لگام ’خطرناک‘ کے منہ کو لگام دے؟ تو جناب! عرض یہ ہے کہ ’خطرناک‘ کوئی بہادر شخص نہیں ہوتا کہ لوگ اس کا سامنا نہ کر سکیں، بلکہ بہادر اور خطرناک میں تو بہت بڑا فرق ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ بہادر شخص خوددار اور شریف النفس ہوتا ہے، اس میں ضبط کا مادہ ہوتا ہے، وہ دوسروں کی توہین نہیں کرتا جبکہ خطرناک کو نہ اپنی عزت عزیز ہوتی ہے اور نہ ہی وہ دوسروں کی عزت کا لحاظ رکھتا ہے، اس لیے وہ جتنی بھی دھمکیاں دے، کوئی بھی اس کو منہ لگانے یا اس کا مقابلہ کرنے کی غلطی نہیں کرتا۔

افسوس، مگر یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو شخص شریف منش اور نیک خصلت ہوتا ہے اسے بزدل اور ناکام تصور کیا جاتا ہے، یعنی جو دھوکا نہیں کرتا ہو، ایمانداری سے کام لیتا ہو، رشوت لینے اور دینے سے کتراتا ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ماں بہن کی گالیاں دینے سے احتراز کرتا ہو، ٹیکس، بلز بر وقت اور پورا جمع کراتا ہو، گاڑی قانون کے مطابق چلاتا ہو، کوئی اسلحہ نہیں رکھتا ہو، قطار میں اپنی باری کا انتظار کرتا ہو، خواتین کا احترام کرتا ہو اور

حق پر ہوتے ہوئے بھی نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد پر عمل کرنے والا ہو کہ ”میں اس شخص کے لیے جنت کی ایک جانب گھر کا ذمہ دار ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے۔ اور ایک گھر کا ذمہ دار ہوں جنت کے درمیان میں، اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے، اگرچہ مزاح ہی میں ہو اور جنت کے اعلی درجے میں ایک محل کا ذمہ دار ہوں، اس شخص کے لیے جو اپنے اخلاق کو عمدہ بنا لے۔“ ابو داؤد۔

جی ہاں! ایسے ہی قیمتی ہیرے کو ہمارے ہاں، بزدل، نادان، ناکام اور سادہ لوح کہا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں ’خطرناک‘ یا ’بدمعاش‘ کی قدر زیادہ اور شریف انسان کی کم ہے، تو پھر کیوں نہ ہر شخص خطرناک بننے کی کوشش کرے گا؟ سوچیے گا ضرور!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments