کوئی راستہ نہیں


تحریک انصاف کی حکومت کی وعدہ خلافیوں کے باعث معطل ہوئے قرض پروگرام کو بحال کرنے کی خاطر رواں مالی سال کا بجٹ مکمل طور آئی ایم ایف کے مطالبات مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے اس بجٹ میں حکومت کا فوکس کسی بھی طرح زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنا تھا لیکن حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ حکومت کے لیے سیلاب کے باعث یہ ٹارگٹ پورے کرنا نہایت مشکل ہو گا۔ حالیہ بجٹ میں جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 5 فیصد اور ٹیکس ریونیو کا ہدف 7004 ارب روپے جبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 2 ہزار ارب روپے مقرر کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ وفاقی ترقیاتی پروگرام ( پی ایس ڈی پی ) کے لیے 800 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا جبکہ افراط زر کی شرح کا تخمینہ 11.5 فیصد لگایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ رواں سال بجٹ خسارہ 3798 ارب روپے اور جی ڈی پی گروتھ 4.9 فیصد تک رہنے کی توقع کی جا رہی تھی۔ ورلڈ بنک کی حالیہ رپورٹ میں لیکن یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ سیلاب کے سبب حکومتی اخراجات کم ہونے کی صورت میں معاشی شرح نمو رواں برس 1.2 فیصد سے 1.7 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ہے جبکہ دو ہزار تئیس تک یہ بالکل صفر ہو سکتی ہے۔ اسی طرح زرعی شعبے میں نمو 4.4 فیصد سے کم ہو کر 2.6 تک منفی ہو سکتی ہے۔ صاف ظاہر ہے ان حالات میں پھر ٹیکس کہاں سے جمع ہوں گے اور جب ٹیکس جمع نہیں ہوں گے بجٹ خسارہ مزید بڑھے گا جس کے بعد حکومتی اخراجات میں 20 فیصد تک کمی ہو جائے گی۔

سیلاب کی وجہ سے زرعی برآمدات میں تو لا محالہ کمی ہوگی جبکہ صنعتی میدان میں ہماری برآمدات پہلے ہی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ اس صورت میں تجارتی خسارہ ایک مرتبہ پھر کنٹرول سے باہر ہو سکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کا مطابق قرض کی ادائیگی اور خسارہ مینیج کرنے کے لیے تقریباً 40 ارب ڈالرز کا مزید قرض رواں مالی سال میں حکومت کو لینا پڑے گا۔ اس کے علاوہ تجارتی خسارہ بھی 50 ارب ڈالرز سے کم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ہماری ملکی جی ڈی پی گروتھ ویسے بھی ہمیشہ امپورٹ بیس رہی ہے اب سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات اور امپورٹ میں کمی کرنے سے جب جی ڈی پی گروتھ کم ہوگی تو کروڑوں لوگوں کے بیروزگار ہونے کا خدشہ ہے۔

سمجھ سے باہر ہے کہ ان حالات میں حکومت کے پاس کیا فارمولا ہے جسے بروئے کار لاکر غریب کے تحفظ کے ساتھ ساتھ معیشت کو سنبھالا دیا جائے گا۔ سننے میں آ رہا تھا آئی ایم ایف کی قسط جاری ہوتے ہی دوست ممالک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے بھاری رقوم جاری ہو جائیں گے۔ اب تک اس حوالے سے بھی کوئی بڑی پیشرفت سننے کو نہیں ملی۔ غیر یقینی کی اس کیفیت کی وجہ روپیہ ایک مرتبہ پھر تیزی سے اپنی قدر کھو رہا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے سبب اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں چالیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور افراط زر کی شرح آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ سب سے زیادہ اثر کھانے پینے کی اشیاء بالخصوص آٹے کی قیمت پر پڑا ہے۔ حالانکہ حکومت کا کہنا ہے کہ ضرورت کے مطابق گندم کے ذخائر ملک میں موجود ہیں پھر بھی روز بروز آٹا نایاب ہوتا جا رہا ہے اور اگر کہیں آٹا دستیاب بھی ہے تو غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔

حکومت نے رواں مالی سال گزشتہ سال کے مقابلے میں بہت زیادہ ٹیکس حاصل کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ پچھلے سال یہ ہدف 5800 ارب روپے تھا جبکہ رواں سال یہ ہدف 7004 ارب رکھا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ ہدف بہت زیادہ ہے جس کا حصول موجودہ حالات میں نا ممکن نظر آ رہا ہے۔ دہری مصیبت یہ ہے کہ ملک کے مجموعی محصولات میں زیادہ حصہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی مد میں آتا ہے جو سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور پٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی کی شکل میں خزانے میں جمع ہوتے ہیں لہذا صاف نظر آتا ہے کہ ہدف کے قریب پہنچنے کے لیے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں اضافہ ہو گا۔

جس کا نتیجہ مہنگائی اور عام آدمی کی زندگیوں میں سنگین مشکلات کی صورت میں نکلے گا۔ مہنگائی اس وقت جس سطح پر پہنچ چکی ہے سیلاب میں ڈوبے غریب عوام اس میں مزید اضافہ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اسٹیٹ بینک اور وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل صاحب ان حالات میں بھی روپے کی بے قدری اور افراط زر روکنے کے لیے طے شدہ فارمولے سے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ وسیع تر تناظر میں مفتاح اسماعیل کی سوچ درست ہے اور ملکی معیشت مکمل تباہی سے بچانے کے لیے حقیقت پسندانہ راستہ یہی ہے۔

سوال مگر یہ ہے کہ حکومت نے بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لانے کی کوئی ٹھوس کوشش کی؟ یہاں تک درست ہے کہ بجلی گیس کے شعبے میں گردشی خسارے میں کمی لانے کے لیے وہ غریب کے حلق سے نوالہ نکال کر سبسڈیز خاتمہ کر رہے ہیں۔ لیکن متبادل توانائی کے ذرائع پر منتقل ہونے کی کوئی سنجیدہ کوشش تاحال نظر نہیں آئی۔ اس طرح خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں جیسے پی آئی اے اور اسٹیل مل وغیرہ کی نجکاری میں اب تک کوئی سرگرمی کیوں نہیں دکھائی گئی۔

ان اداروں میں غیر ضروری ملازمین کی بھرمار ہے اور ٹیکس دہندگان کی خون پسینے کی کمائی سے جمع شدہ قومی خزانے سے ہر سال اس خسارے کی مد میں سینکڑوں ارب خرچ ہوتے ہیں۔ خسارے میں چلنے والے اداروں پر لگایا جانے والا پیسہ بچا کر اگر ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کر دیا جائے تو عوام کے روزگار کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں ہو سکتا؟ جب حکومت اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا کر انرجی کی قیمتوں میں تاریخ ساز اضافے جیسا کڑوا گھونٹ بھر چکی ہے جس سے ملک کا ہر شخص متاثر ہو گا تو خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری سے کیوں گھبرا رہی ہے؟

ایف بی آر میں ٹیکس اصلاحات کا مسئلہ بھی جوں کا توں ہے۔ ایک طرف مفتاح اسماعیل عوام کو کڑوے گھونٹ پینے کا درس دے رہے ہیں اور مخالفین سے بھی توقع رکھ رہے ہیں کہ معاشی پالیسیوں پر پوائنٹ اسکورنگ نہ کی جائے۔ دوسری جانب خود ان کی جماعت ان کے شانہ بشانہ نہیں کھڑی اور ہر غیر مقبول فیصلے پر گالیاں مفتاح اسماعیل کو دلوائی جاتی ہیں۔ حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ مفتاح صاحب پر نا حق تہمت ہے مختاری کی۔ ان کی حیثیت اتنی ہے کہ تاجروں سے بجلی کے بل کے ذریعے ٹیکس وصولی کا اقدام سے انہیں مریم نواز کے حکم پر پیچھے ہٹنا پڑ گیا۔

نون لیگ کی قیادت عدم اعتماد کی مہم سے قبل اچھی طرح نتائج جانتی تھی لیکن پھر بھی جانتے بوجھتے اس نے یہ طوق اپنے گلے میں ڈالا۔ یہ بھی نون لیگ کی قیادت کے علم میں ہے کہ وطن عزیز کے لیے سب سے بڑا چیلنج تباہ حال لوگوں کی بحالی کے ساتھ قرض پروگرام کامیابی سے مکمل کرنا ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط سے روگردانی کا نتیجہ کیا ہو گا۔ ریاست بچانے کے چکر میں سیاست تو پہلے ہی غرق کرلی کہیں اب سیاست بچاتے معیشت بھی مکمل تباہ نہ ہو جائے۔ یعنی نہ خدا ملے اور نہ ہی وصال صنم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments