نظرانداز کئے افتادگانِ خاک


عالمی سطح پر اپنی اداکاری کی وجہ سے مشہور ہوئی انجلینا جولی پرخلوص ستائش کی مستحق ہیں۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے تقریباََ چار کروڑ پاکستانیوں کی زندگی تباہ وبرباد ہوئی تو ان پر نازل ہوئی آفت کے برسرزمین مشاہدے کی خاطر ہمارے وطن آئی۔سیلاب زدگان کے درمیان اس کی موجودگی اور اس تناظر میں دیگر مصروفیات مگر ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر کماحقہ انداز میں اجاگر نہ ہو پائیں۔ میڈیا کی زبان استعمال کروں تو اس کا دورہ پاکستان میری نگاہ میں ”انڈر پلے“ ہوا۔ میں اس لفظ کا اردو متبادل ڈھونڈنے سے قاصر ہوں۔

پاکستان کے چند بااثر میڈیا اداروں سے وابستہ کچھ سرکردہ افراد میرے بھائیوں جیسے دوست ہیں۔ اپنی عمر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اکثر ان کی ”کوتاہیوں“ کی نشاندہی کرنا لازمی تصور کرتا ہوں۔ ان کا شکریہ کہ مجھ بے اثراور ریٹائر ہوئے رپورٹر کا جھکی پن صبر سے برداشت کر لیتے ہیں۔انجلینا جولی کا سیلاب زدگان سے رابطہ مجھے ”انڈر رپورٹ“ ہوتا محسوس ہوا تو تلملا کر انہیں فون کئے۔ میری ترش گفتگو کو احترام سے سننے کے بعد وہ سب مجھے یہ بتانے کو مصر رہے کہ ”سکیورٹی خدشات“ کی وجہ سے مقامی صحافیوں کو انجلینا جولی کی سیلاب زدگان کے ساتھ ملاقاتوں سے دور رکھا گیا تھا۔

انجلینا جولی جیسے سیلبیریٹی یقینا رپورٹروں اور کیمرہ مینوں کے ہجوم سے گھبراتے ہیں۔ انسانی ہمدردی کے جذبات سے مغلوب ہوکر قدرتی آفات کا نشانہ بنے مصیبت زدگان سے ملنے آئیں تو کامل توجہ اور دھیان سے ان کی دکھ بھری داستان سننے ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔پاکستان جیسے ممالک میں ”سکیورٹی خدشات“ انہیں مزید پریشان کرتے ہیں۔

مذکورہ بالا حقائق تسلیم کرنے کے باوجود مصر ہوں کہ انجلینا جولی کے دورہ پاکستان سے قبل موثر پیغام رسانی کے ذریعے اسے اس امر کو تیار کیا جاسکتا تھا کہ وہ سیلاب زدگان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کو ریکارڈ پر لانے کی اجازت دے۔ روایتی میڈیا کے علاوہ ٹک ٹاک،انسٹا گرام اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارموں کو ہنر مندی سے استعمال کرنے والے افراد کی ایک مختصر ترین ٹیم جو دو یا تین افراد پر ہی مشتمل ہوتی اگر اس کی سیلاب کی زد میں آئے علاقوں اور انسانوں میں موجودگی کو ریکارڈ کرتے ہوئے مسلسل رپورٹ کررہی ہوتی تو میڈیا کی زبان میں اسے Hype بنایا جا سکتا تھا۔ اس کی بدولت لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر میں پھیلے افراد یہ جان پاتے کہ حالیہ سیلاب نے پاکستان پر کس نوعیت کا سنگین عذاب نازل کیا ہے۔ یہ موقع مگر ہم نے گنوا دیا۔

چند روز قبل لکھے ایک کالم میں یہ عرض گزارنے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان ایسے وسائل سے ہرگز مالا مال نہیں جو ہماری سرکار اور خیراتی اداروں کو اپنے تئیں سیلاب زدگان پر نازل ہوئی مصیبتوں کا مداوا فراہم کرنے کے قابل بنائے۔ اس ضمن میں ہمیں بھاری بھر کم غیر ملکی امداد اور بھرپور معاونت درکار ہے۔اس کے حصول کے لئے مگر ہمیں ایک طاقت ور بیانیہ بھی دنیا کے روبرو رکھنا ہو گا۔ پاکستان کا عالمی برادری کے روبرو رکھا مقدمہ اس باعث بھی خصوصی توجہ کا مستحق ہے کیونکہ دنیا بھر میں پھیلی فضائی آلودگی میں صنعتی اعتبار سے نسبتاً پسماندہ ملک ہوتے ہوئے ہمارا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ عالمی سطح پر پھیلی آلودگی مگر ہمارے گلیشئر بہت تیزی سے پگھلارہی ہے۔ حالیہ سیلاب اس کی وجہ سے نازل ہوئی آفتوں کا بھرپور اظہار ہے۔

ہمارے ہاں مگر ایسے اداکار، ادیب یا شاعر موجود ہی نہیں جو دنیا میں اپنے کام کی وجہ سے مشہور ہوں۔ فاطمہ بھٹو بطور ناول نگار اگرچہ کافی معروف ہے۔ اس ضمن میں اپنی شہرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فاطمہ بھٹو نے نیویارک ٹائمز اور گارجین جیسے بااثر اخباروں کے لئے نہایت دردمندی سے چند کالم لکھے ہیں جن کی مناسب پذیرائی ہوئی۔ہمارے جواں سال سینیٹرمصطفےٰ نواز کھوکھر نے ادبی یا کسی دیگر وجہ سے ”سیلیبریٹی“ نہ ہوتے ہوئے بھی گارجین کے لئے ایسا ہی ایک مضمون لکھا۔ صحافت چھوڑ کر سیاست کی نذر ہوئیں ہماری دوست شیری رحمن بھی پاکستان کی وزیر ماحولیات ہوتے ہوئے عالمی میڈیا کے ذریعے مو¿ثر انداز میں ہمارا مقدمہ پیش کر رہی ہیں۔

ان تینوں کی جانب سے مچائی دہائی مگر عالمی توجہ کے حصول کے لئے کافی نہیں ہے۔ ہمیں مختلف وجوہات کی بنا پر عالمی سطح پر مشہور ہوئے دردمند افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو فضائی آلودگی کی وجہ سے پاکستان پر نازل ہوئے عذاب کی بابت آگہی کے لئے مائل اور متحرک کرنا ہو گا۔امریکہ کا سابق صدر اوبامہ جن دنوں کالج میں تعلیم حاصل کررہا تھا تو ہمارے سندھ کے ایک صاحب اس کے قریب ترین دوستوں کے حلقے میں شامل رہے۔ اوبامہ کی والدہ بھی غیرسرکاری تنظیم سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ہمارے انسانی مسائل سے بخوبی واقف ہے۔ افغانستان کے تناظر میں اوبامہ پاکستان کے ساتھ یقینا ناراض رہا ہے۔ ذاتی طورپر لیکن وہ ایک درد مند انسان ہے۔ہمیں اس سے رابطے کے ذرائع ڈھونڈنا ہوں گے۔ وہ اگر سیلاب زدگان کی مشکلات کو برسرزمین دیکھنے کے لئے ہمارے ہاں آنے کو آمادہ ہوجائے تو دنیا کو موثر پیغام دیا جا سکتا ہے۔ صدر بائیڈن نے سینیٹر جان کیری کو ماحولیات کے حوالے سے ا پنا خصوصی مشیر تعینات کررکھا ہے۔ حال ہی میں اس کی ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سے نیویارک میں ملاقات بھی ہوئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے جان کیری کو یہ ترغیب دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہو گی کہ وہ وقت نکال کر جلد از جلد پاکستان آئے۔حالیہ سیلاب کی وجہ سے آئے عذاب کا بچشم خود مشاہدہ کرے اور ہماری مشکلات کے ازالے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ عالمی سطح پر فضائی آلودگی کے حوالے سے اپنے مقدمے کو موثر ترین انداز میں پیش کرنے کے لئے ہمیں بے تحاشہ وسیلے ڈھونڈنا ہوں گے۔اس کے بغیر چار کروڑ پاکستانی خود کو لاوارث اور نظرانداز کئے افتادگان خاک ہی تصور کریں گے۔ ان کا غم اگر غصہ کی شکل اختیار کر گیا تو ہمارے ہاں سیاسی طوفان کھڑا ہوسکتا ہے۔اس کا بروقت تدارک لازمی ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments