پشاور اپ لفٹ پروگرام


وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خانی پشاور اپ لفٹ پروگرام کے دوسرے مرحلے کے تحت متعلقہ حکام کو نئے منصوبوں کے ساتھ ساتھ حیات آباد ٹریل سمیت پہلے سے جاری سکیموں کی بروقت اور معیاری تکمیل یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے جب کہ پشاور کی خوبصورتی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کو دیر پا اور موثر بنانے کے لئے باضابطہ مینٹننس اینڈ مینجمنٹ پلان کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے ۔ پشاور کی اپ لفٹنگ اور خوبصورتی کو یقینی بنانے کے لیے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ حکومت نے پشاور میں پیشہ وارانہ بھکاریوں کے خلاف بھی کارروائی میں تیزی لائی ہے۔

اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کرنے کے لئے پیشہ وارانہ بھکاریوں کے سرغنہ عناصر اور گروپس کو لگام ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اصل میں پیشہ ورانہ بھکاریوں کی صرف پکڑ دھکڑ ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کے کلی طور پر تدارک کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں جس میں ان افراد کی گرفتاری اور نشئی افراد کی طرح الگ بحالی کے مراکز کا قیام بھی ممد و معان ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں کو خدشہ ہے کہ پشاور میں کارروائی کی وجہ سے پیشہ ور بھکاری دیگر اضلاع کی طرف بھی رخ کر سکتے ہیں جن پر وہاں بھی کڑی نظر رکھنے اور ان کے خلاف موثر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔

پیشہ ور بھکاریوں کے علاوہ پشاور کی گلی کوچوں، پلوں اور گرین بیلٹس میں پڑے ہوئے نشئی افراد کے خلاف بھی حال ہی میں دوسرے مرحلے کے تحت ان نشئی افراد کی گرفتاری اور بحالی مراکز کو منتقلی کا عمل جا ری ہے جس سے توقع ہے کہ پشاور میں درجنوں کے حساب دندنانے والے نشئی افراد کونہ صرف لگام ڈالنے میں مدد مل سکے گی بلکہ ان کی بحالی کے ذریعے یہ ناکارہ بلکہ معاشرے کے لیے ناسور کی حیثیت رکھنے والے افراد مفید اور کارآمد شہری بھی بن سکیں گے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پشاور اپ لفٹ پروگرام کے تحت 20 کے قریب مختلف اسکیموں پر پیشرفت جاری ہے جن کا تفصیلی ڈیزائن متعلقہ فورم سے منظور کیا جا چکا ہے اور اگلے ایک ہفتہ کے اندر ان اسکیموں کا ٹینڈر بھی جاری ہونے کا امکان ہے۔ پشاور اپ لفٹ پروگرام کے تحت چھ کلومیٹر طویل حیات آباد ٹریل کے قیام کا منصوبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جو 80 کروڑ روپے کے تخمینہ لاگت سے مکمل کیا جائے گا۔ حیات آباد ٹریل میں جاگنگ اینڈ سائیکل ٹریکس کے علاوہ پبلک ٹائلٹ، ٹک شاپ، کڈ زون، اوپن جیم، بیڈمنٹن اینڈ باسکٹ بال کورٹس، لائبریری، لیڈیز جیم اور سکیٹنگ ایریا سمیت دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

حقیقت ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور اسٹیٹ آف دی آرٹ منصوبہ ہو گا جو 18 فٹ چوڑے ٹریکس، دونوں اطراف میں گرین بیلٹس پر مشتمل ہو گا۔ پروگرام کے تحت دیگر منصوبوں میں اقرا چوک (یونیورسٹی روڈ) کی خوبصورتی، ٹاؤن مارکیٹ پارک ایونیو، یونیورسٹی ٹاؤن سے تیگا چوک پارک ایونیو کا قیام، پلوسئی روڈ انٹر سیکشن اور یونیورسٹی روڈ سے چڑیا گھر تک کی بیوٹیفیکیشن، خیبر ٹیچنگ ہسپتال سے یونیورسٹی ماڈل کالج تک روڈ کی خوبصورتی جیسے اہم منصوبے شامل ہیں۔ علاوہ ازیں آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے ایگریکلچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، محافظ خانہ اور گورنمنٹ حسنین شریف شہید سکول نمبر 1 کی بحالی و تزئین و آرائش کے منصوبے بھی پروگرام کا حصہ ہیں۔

اسی طرح پروگرام کے فیز ٹو کے لئے تجویز کی گئی نئی اسکیموں میں کابلی گیٹ سے قصہ خوانی بازار، قصہ خوانی سے چوک یادگار، چوک یادگار سے گھنٹہ گھر، اندر شہر بازار، یونیورسٹی ماڈل کالج سے کار خانو مارکیٹ تک سڑک کی بحالی، خوبصورتی اور تزئین و آرائش کے منصوبے شامل ہیں۔ ان منصوبوں کے علاوہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں پارکنگ پلازہ کا قیام بھی پروگرام کا حصہ ہے جس میں 300 گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے سہولت موجود ہو گی جب کہ وزیراعلیٰ نے سکیم چوک، باچا خان چوک، چارسدہ روڈ اور شاہی باغ کے انٹری پوائنٹ کو بھی پروگرام میں شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ نئے مجوزہ منصوبے کے تحت پشاور کے انٹری پوائنٹس، جی ٹی روڈ اور صوبائی دارالحکومت میں موجود تمام انڈر پاسز کی خوبصورتی کے لئے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔

پشاور کے مسائل اور اس کی خوبصورتی کے مجوزہ پلان میں اگر رنگ روڈ اور یونیورسٹی روڈ کے درمیان اور ملحقہ واقع بعض علاقوں کے لنک روڈز کو پختہ کیا جائے اور ان کی کارپٹنگ کے ساتھ ساتھ نکاسی آب کے مسائل کو بھی شامل کیا جائے تو اس سے اگر ایک طرف ان علاقوں کے لاکھوں رہائشیوں کو آمد و رفت کی بہترین سہولیات دستیاب ہوں گے تو دوسری جانب اس سے پشاور کے ٹریفک کے گمبھیر مسئلے کے حل میں بھی کافی حد تک مدد مل سکے گی۔ اسی طرح پشاور شہر کے قریبی دیہی اور مضافاتی علاقوں میں اگر پشاور کے ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے کے لیے راستوں اور ندی نالوں کے اردگرد بڑے پیمانے پر شجر کاری کی جائے تو اس سے بھی پشاور کے ایک اور بڑے مسئلے ماحولیاتی آلودگی پربھی قابو پانے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔

پشاور کا ایک اور بڑا مسئلہ یہاں بچوں اور خاص کر خواتین کی سیر و سیاحت اور تفریح طبع کے مواقع کا نہ ہونا ہے حیات آباد میں چند گنے چنے پارکوں کے علاوہ پشاور کی پچاس لاکھ آبادی کے لیے نہ تو پارکس ہیں اور نہ ہی کوئی اور سہولت موجود ہے اس لیے ہماری خواتین اور بچے ساری عمر تنگ و تاریک گھروں اور محلوں میں گزارنے تک محدود ہونے کے علاوہ انہیں شہر کے گرد آلود فضاء کے علاوہ کوئی بھی پر فضاء اور پر سکون ماحول میسر نہیں ہے لہٰذا اگر پشاور اپ لفٹ پروگرام میں ویلج اور نیبرہوڈ کونسلز کی سطح پر پارکس اور کھیل کود کے منصوبوں کو بھی شامل کیا جائے تو یہ اہل پشاور کے لیے ایک خوش گوار فیصلہ ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments