رقاصہ کے خرچے پر صحافیوں کا عمرہ اور سیلاب متاثرین


ایک صدی کے بعد سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ 1927 ءمیں اتنی آبادی نہیں تھی، پانی کھلم کھلا دندناتا رہا مگر اس وقت بھی سیلاب کی تباہ کاریاں ہولناک تھیں، اب آبادی میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ لوگوں نے دریاوں کے راستوں پر گھر بنا لئے ہیں، نہ صرف گھر بلکہ فیکٹریاں لگا لی ہیں، ان عقل کے اندھوں کو کوئی سمجھائے کہ جس جگہ قبضہ کر کے آپ فیکٹریاں چلا رہے ہیں یا رہائش رکھے ہوئے وہاں سرکاری ہرکاروں کو ”چوغا“ دے کر تو آپ سکون سے رہ سکتے ہیں مگر سیلاب تو کوئی ”چوغا“ نہیں لیتا اس کو صرف اپنے راستے سے پیار ہوتا ہے اور وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو تہہ و بالا کر دیتا ہے

سیلاب ہو یا کوئی آفت، آ کر گزر جاتی ہے مگر وہ تباہی کی جو داستانیں رقم کرتی ہے ان کے منظر عام پر آنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر یاد آتا ہے کہ انسان کتنا کمزور ہے، اتنا کمزور ہونے کے باوجود کیوں اتنی اکڑ میں رہتا ہے، بعض اوقات سوچتا ہوں کہ گناہ تو چند لوگوں کا ہوتا ہے پھر بے گناہ کیوں زد میں آ جاتے ہیں، پھر اسلام سے جواب ملتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ سلام کی اونٹنی چار افراد نے ماری تھی مگر اللہ نے عذاب پوری بستی پر نازل کیا تھا کیونکہ باقی لوگ جانتے ہوئے بھی خاموش رہے تھے

عذاب تو ان حکومتوں اور سرکاری ملازمین پر آنا چاہیے تھا جنہوں نے ”چوغا“ لے کر دریاوں کے راستوں پر تعمیرات کی اجازت دی تھی، سیلاب کی تباہ کاریوں کی تصاویر دیکھ کر کئی کئی روز غم میں ڈوبا رہا، الفاظ ہی نہیں مل رہے تھے جو ان خوفناک اور المناک واقعات کی منظرکشی کرسکیں، تونسہ کی ایک تصویر نے مجھے رولا ہی دیا جو اس شخص کی تھی جو سیلاب کی گار میں دھنس کر سسک سسک کر مر گیا

میڈیا پر اس حوالے سے جو رپورٹ چلی ہیں ان کے مطابق متوفی اپنے بچوں کو سیلاب سے بچانے کے لئے پانی میں کود گیا اور ڈیڑھ سو کلومیٹر تک بچے تلاش کرتا رہا اور پھر جب سکت نہ رہی تو سیلاب کی گار میں دھنس گیا، تصویر میں اس کے صرف ہاتھ ہی زمین سے باہر تھے، نجانے وہ مدد کے لئے کتنا چلایا ہو گا، اپنے رب کو بھی پکارا ہو گا مگر مسلمان ہونے کے ناتے یہی ایمان نے ہے اللہ نے اس کی لکھی ہی ایسے تھی مگر حکومتی ادارے تھوڑی سی کوشش تو کرتے۔ ۔

سیلاب سے انسانی جانوں کا نقصان اس وقت 1576 تک پہنچ چکا ہے، کھربوں کی جائیدادیں، فصلیں برباد ہو گئی ہیں، لوگوں کی جمع پونجی ختم ہو گئی، سندھ میں سیلاب ابھی تک اترنے کا نام نہیں لے رہا، سندھ حکومت کوشش کر رہی ہے مگر اسے کامیابی مل نہیں رہی، سندھ حکومت اگر اس حوالے سے کچھ کام کیا ہوتا شاید آج اتنا نقصان نہ ہوتا، سندھ حکومت گزشتہ پچاس برسوں سے سندھ کے بھولے عوام کو اس بات کا یقین دلانے میں مصروف ہے کہ بھٹو آج بھی زندہ ہے، زندہ ہے بی بی زندہ ہے۔

ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، آفت آئی اور تباہی مچا کر گزر گئی، اب اس سے متاثر ہونے والوں کے لئے سوچنا ہو گا، ہماری بھکاری حکومت کو سیلاب کا بہانہ مل گیا اور وہ ہر بس اڈے پر اس شخص کی طرح اپنی اہلیہ اور چھ بچوں کے ساتھ کھڑا ہو کر بندے بندے سے مانگ رہی ہے کہ میرا ککھ نہیں رہا، آپ کی بہن بھی ساتھ ہے، میری مدد کریں، پاکستان میں ہر حکومت چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو اس کے لچھن ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، اوپر سے بھولی اور جاہل قوم کو ایک ایسا وزیراعظم عطاء کر دیا گیا ہے جو شوبازی میں دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا

ہماری بدنصیبی ہے کہ ہماری حکومت کا ہمیشہ یہی رویہ رہا ہے یا یوں کہہ لیں ان کا بگاڑ نہیں ختم ہونا، عوام مر جائیں ان کی بلا سے، افسوس اس بات کا ہے ہماری سماجی رویے بھی بدل چکے ہیں، دو ماہ سے بھرپور کوشش کے سیلاب متاثرین کے لئے کوئی رقم نہیں نکال سکا، سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھ کر دل رویا، کوشش کی کہ اللہ نے جو مجھے عطاء کیا ہے اس میں سے کچھ سیلاب متاثرین کی مدد کردوں مگر بجلی کے بلوں نے تین ماہ سے جو مت ماری ہے اس سے ایک روپے کی گنجائش نہیں نکل سکی جس پر نادم نہیں ہوں صرف افسوس ہی ہے کیونکہ ایک تنخواہ دار آدمی مہینے کی لگی بندھی سے زیادہ کہاں سے لائے

سماجی رویے بدلنے کا افسوس دنیا کی نامور اداکارہ انجلینا جولی کی اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر بن پاکستان آنے پر مزید بڑھ گیا ہے، یہ عورت سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کر رہی ہے، متاثرین سے ملاقاتیں کر رہی ہے، ان کے دکھ، درد بانٹ رہی ہے، رپورٹس کے مطابق انجلینا جولی متاثرین سیلاب کی حالت زار دیکھ کر روتی رہی، انجلینا جولی نے میڈیا کے ذریعے عالمی براری کو شرم بھی دلائی ہے کہ بہت برے حالات ہیں، دنیا سیلاب متاثرین کی مدد کرے

ماضی میں پاکستان پر کوئی آفت پڑتی تھی، مخیر حضرات مصیبت زدہ بہن، بھائیوں کی مدد کے لئے سڑکوں پر آ جاتے تھے، فنکار برادری سڑکوں پر کھڑی ہو کر متاثرین کی مدد کے لئے چندہ اکٹھا کرتی، اب حالات یہ ہیں کہ فنکاروں نے صرف میڈیا پر افسوس کر کے اپنا فرض پورا کر دیا ہے، کوئی فنکار سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے سڑک پر نہیں آیا، سوشل میڈیا پر تصاویر وائرل ہیں کہ انجلینا جولی سیلاب متاثرہ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی دلجوئی کر رہی ہیں اور ان کا حوصلہ بڑھا رہی ہیں کہ وہ اور دنیا ان کی مدد ضرور کریں گے جبکہ ہمارے فنکار بیرون ملک مہنگے ہوٹلوں میں قیام اور کھانا کھانے کی تصاویر شیئر کر رہے ہیں، یہ صورتحال دیکھ کر چار سال قبل سٹیج کی رقاصہ میگھا کی وہ خبر یاد آ گئی جو کہ تمام اخبارات میں شائع بھی ہوئی تھی، میرے دوست کی ویب سائٹ سکوپ نیوز تھی میں نے وہ خبر بنا کر ویب سائٹ پر بھیج دی جو چند گھنٹوں بعد پوسٹ کردی گئی

خبر یہ تھی کہ سٹیج کی قتالہ، معروف رقاصہ میگھا نے لاہور کے 11 شوبز صحافیوں کو عمرہ کرایا ہے، صحافی جب عمرہ کر کے لوٹے تو اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ میگھا کے خرچے پر عمرہ کرنے والے صحافی عمرہ کر کے واپس وطن پہنچ گئے، اس خبر کو جب ویب سائٹ کے لئے لکھا تو اس کی سرخی لگائی کہ ”رقاصہ کے خرچے پر صحافیوں کا عمرہ“ ، خبر پوسٹ ہوئی تو لوگوں نے کمنٹس کیے کہ ایک رقاصہ کی کمائی سے عمرہ جائز ہے تو میرا جواب تھا کہ میں نے خبر میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی، یہ اللہ اور میگھا کا معاملہ ہے کیونکہ اللہ رحمن الرحیم ہے، وہ چاہے تو ایک طوائف کو پیاسے کتے کو پانی پلانے پر بھی بخش دیتا ہے

میں نے خبر کے اصولوں کے مطابق میگھا کو واٹس ایپ میسیج کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے نیک کام کر کے روحانی تسکین ملتی ہے، اس لئے صحافیوں کو عمرہ کرایا ہے، ان کو موقف میں نے خبر وہ ویسے ہی لکھ دیا، سوال یہ ہے کہ اب جب غریب پاکستانیوں پر اتنی بڑی مصیب آئی ہے تو میگھا سمیت کسی فنکار کو نیک کام میں حصہ لینے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی، مصیب زدہ افراد کی مدد بے شک بہت بڑا ثواب کا کام ہے مگر شاید اب ہمارے معاشرے میں غریبوں کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں ہے یا پھر وہ سوچتے ہوں گے کہ غریب ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ امیروں کے حصے کی تکالیف بھی برداشت کریں، کاش ہمارے فنکاروں میں سے کسی کے پاس بھی ایک غیر مسلم اداکارہ انجلینا جولی جیسا دل ہوتا اور وہ بھی مصیب زدہ افراد کے پاس جاکر ان کا دکھ درد بانٹ لیتا۔ سیلاب متاثرین کا اللہ ہی وارث ہے، اس ملک کی حکومت اور فنکاروں سے وہ کوئی امید نہ رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments