’‘ مکلی میں مرگ ”غافر شہزاد کا چھٹا ناول ہے۔ مکلی سندھ کے علاقے ٹھٹھہ کے قریب ایک قدیم قبرستان ہے جہاں گزری صدیوں کے بادشاہوں اور نوابوں کے مقابر ہیں جو اپنے اندر دفن شخصیات کی عظمت اور سطوت کے غماز ہیں۔ سندھ کی قدیم عمارتوں اور قبرستانوں میں فن تعمیر اپنی انتہا کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے جسے دیکھنے کے لیے دنیا جہان سے لوگ یہاں سیاحت کے لیے آتے ہیں۔ ماہر تعمیرات، تاریخ کے طالب علم اور تعمیری جمالیاتی ذوق رکھنے والے لوگ بھی کشاں کشاں یہاں چلے آتے ہیں۔

اسی مکلی کے قبرستان کو اس ناول میں موضوع بنایا گیا ہے اگر چہ ضمنی موضوعات کی بھی بہتات ہے۔ مکلی میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہو رہا ہے جسے کوئی عالمی تنظیم منعقد کرا رہی ہے۔ اس واقعہ کا تعلق اگرچہ اگاتھا کرسٹی کے ناول ’‘ اورینٹ ایکسپریس میں قتل ”جیسا سسپنس اور تھرل لیے ہوئے تو نہیں ہے لیکن اس میں ایک معروضیت ضرور ہے۔

ناول کا آغاز ارسلان منور نامی ایک شخص کو موصول ہونے والے دعوت نامے سے شروع ہوتا ہے جسے ایک عالمی تنظیم نے بھیجا ہے جو روایتی عمارات کی تعمیر کی سرپرستی کرتی ہے اور اس تقریب کا انعقاد مکلی میں ہونا ہے۔ ارسلان کے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے جو کسی حد تک منطقی ہے کہ کہ آخر ایک قبرستان یا اس کے نواح میں روایتی تعمیرات کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والی ایک عالمی تنظیم کے زیر انتظام اس تقریب کے منعقد کرانے کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟

مکلی کے قبرستان میں خاص طور پر زندگی اور موت کا ایک عجیب امتزاج ملتا ہے۔ ایک طرف گزری صدیوں کے بادشاہوں اور نوابوں کے مقبرے مرنے کے بعد بھی عوام کے دلوں پر ان کی شہنشاہیت اور حاکمیت کے گرز برساتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دوسری جانب کثیر تعداد میں عوام کی قبریں بھی موجود ہیں جو مٹی کے ساتھ مٹی ہو رہی ہیں۔ اگرچہ مٹی میں مل کر سب مٹی ہو گئے لیکن ان قبروں پر تعمیر عمارتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں جس کے سبب یہاں دفن ہونے والوں کی الگ الگ شناخت بنتی ہے اور انہیں شناختوں کے مطالعے کے لیے پہلے بھی یہاں کانفرنسوں کا انعقاد ہوتا رہا ہے۔

ادب اور روایت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عالمی سطح پر ادب سے ہی روایت کا تصور براہ راست فن تعمیر میں بھی آیا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جدید ترین عمارات کی تعمیر اور اعلی ترین تعمیراتی تکنیک اور ٹیکنالوجی کا استعمال دن بدن بڑھ رہا ہے وہیں روایتی طرز تعمیر سے محبت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں جو روایتی طرز تعمیر میں عمارتیں بناتے ہیں اور لوگوں کے طرز رہن سہن کو روایت سے جوڑتے ہیں۔ یہ عمارتیں اندرونی طور پر مہیا کردہ آسائشوں اور سہولیات میں اگر چہ جدید ترقی یافتہ آلات سے مزین ہو رہی ہیں مگر بیرونی منظر نامے اور مکانیت میں یہ عمارتیں روایتی جمالیات لیے ہوئی ہیں۔

زندگی کے ساتھ ساتھ موت کی روایات بھی اتنی ہی پرانی ہیں جتنا خود انسان۔ شعور سنبھالنے کے بعد جو تخلیقی عمل اس زمین پر انسان نے ابتدائی طور پر سر انجام دیا اس کا اظہار عمارتوں کی صورت روئے زمین پر باقی ہے۔ یہ عمارتیں ہی ہیں جو انسانوں کے برعکس روایات کے ساتھ ایسی جڑی ہوئی ہیں کہ نہ صرف اپنے عہد کی معاشرت کا مظہر ہیں بلکہ اپنے وجود میں اپنے عہد کے ایسے لمحات کو آنے والے کل کے لیے سنبھال کر بھی رکھتی ہیں۔ جو آج کی حیرت ہے، آنے والے کل کی یہ روایت ہے۔ یہ روایت ہی ہے جو تسلسل سے اپنا سفر جاری رکھتی ہے اور یوں زندگی اور موت کی روایات آپس میں گڈمڈ ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

زندگی اور موت کا آپس میں کیا ربط ہے؟ آخر کیوں کچھ لوگ دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی زندہ انسانوں کے ذہنوں میں ایک اور طرح کی زندگی پا لیتے ہیں؟ دراصل یہ زندگی زندہ انسانوں کی ہی عطا کردہ ہوتی ہے، مرنے والے کو جس نے جس انداز سے دیکھا، پرکھا اور برتا ہوتا ہے وہ اسے ویسے ہی اپنے ذہن میں زندہ رکھتا ہے اور اسی طرح اس کی شخصیت کو دوسروں تک پہنچاتا رہتا ہے۔ مرنے والے کی یہ شناخت ساکت اور جامد نہیں ہوتی بلکہ وقت اور حالات کے مطابق لوگوں کے ذہنوں میں خود بخود تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ بسا اوقات یہ شناخت اس شخصیت کے اصل سے کہیں آگے بڑھ جاتی ہے۔ ہر شخص اپنے تصور کے مطابق اسے ایک ماورائی صورت دے دیتا ہے اور یوں یہ شخص ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوسرے لوگوں کے ذہنوں میں امر ہو جاتا ہے اور یوں صوفیا اکرام کے مزارات وقوع پذیر ہوتے ہیں بنتے ہیں اور پھلتے پھولتے ہیں۔

اسی طرح عقیدت مندوں نے صدیوں پہلے دفن ہو جانے والے صوفیا کو دیکھا نہیں ہوتا صرف ان کے بارے میں سنا اور کتابوں میں پڑھا ہوتا ہے لیکن وہ ان کے ذہنوں میں بار بار تولد پذیر ہوتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں یوں مر جانے کے بعد بھی ان صوفیا کے نقوش ایک تسلسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے رہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ عملی طور پر مر جانے کے بعد دوسرے لوگوں کے ذہنوں میں اس کی موت کیوں واقع نہیں ہوتی اور یوں ان کے مزارات ایک علامتی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ یہاں موجود ہیں۔ لاہور میں موجود معروف صوفیاء اکرام کے درباروں کا احوال اس ناول میں موجود ہے لیکن تصوف کے حوالے سے کم اور تعمیراتی کرپشن کے حوالے سے زیادہ۔

دو کردار ہیں جن میں ایک ہے بابا مستان اور دوسرا ہے طارق اسمعیل جو کہ ایک صحافی ہے جس کا بابا مستان سے ایک عقیدت بھرا تعلق قائم ہوجاتا ہے بعد میں یہی کردار ایک دوسرے کے ممد و معاون ہو جاتے ہیں اور درباروں میں ہونے والی کرپشن کے قصے اخبارات کے زینت بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ اولین کہانی جو طارق اسمعیل نے اپنے اخبار میں شائع کی وہ خانقاہ علی ہجویری کی جامع مسجد کے ایوان میں لگائے گئے ائر کنڈشنر کی تنصیب کے حوالے سے تھی اس میں بابا مستان نے تو صرف اشارہ دیا تھا جب کہ باقی سارہ کام طارق اسمعیل کی محنت کا شاخسانہ تھا۔

اسی طرح بی بی پاک دامن کا مزار ہے اور اس سے جڑی کہانیاں ہیں اور تعمیرات کے حوالے سے کرپشن کی کہانیوں کے انبار ہیں اور یہ مزار بھی آج تک کیوں مکمل نہیں ہو سکا؟

شیخوپورہ میں موجود ایک دربار جو عشق مجازی کو اپنا مجازی خدا ماننے والے شاعر اور قصہ ہیر رانجھا کو لکھنے کے حوالے سے امر ہو جانے والے وارث شاہ کا مدفن ہے، اس کے تعمیری معاملات میں آخر کیا الجھن ہے کہ یہ دربار آج تک کیوں مکمل نہیں ہو سکا؟

ناول کا آغاز اگرچہ بظاہر ایک آرٹیکل کا سا انداز لیے ہوئے ہے جس کا عنوان زندگی اور موت کا آپس میں کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ اس ناول کی ہیئت ایک ڈاکومینٹری ناول کی ہے لیکن ناول آغاز سے ہی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ غافر شہزاد بنیادی طور پر آرکیٹیکچر ہیں تو اس حوالے سے یہ ناول کسی حد تک سوانحی ہو سکتا ہے اور ناول اکثر سوانحی ہی ہوا کرتے ہیں جس میں لکھاری اپنی ذات کے تجربے، مشاہدے اور علم کو بروئے کار لا کر ایک افسانوی ماحول تیار کرتا ہے جس میں وہ اپنا مافی الضمیر ناول کی صورت بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا ہی یہ ناول ہے۔ اسے فنکشن ہاؤس لاہور نے مناسب گیٹ اپ اور مناسب قیمت میں شائع کیا ہے۔