پاکستان پوسٹ۔ ایک ڈولتی ناؤ


 

کسی ملک کی معاشی ترقی کا انحصار اس کے ذرائع رسل و رسائل پر ہوتا ہے۔ یہ ذرائع نہ صرف تجارتی مقاصد کے لئے ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ذاتی پیغامات و تحائف کی ترسیل میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ ان کی مدد سے صارفین اور پیدا کاران کے درمیان اعتماد کا رشتہ برقرار رہتا ہے۔ ذرائع رسل و رسائل میں سے ایک اہم قومی اثاثہ او ر ورثہ پاکستان پوسٹ بھی ہے جو دن بدن مائل بہ زوال ہے۔

دنیا کے گلوبل ویلج میں تبدیل ہونے کے بعد ہی خط، منی آرڈر اور فیکس کی ضرورت دن بدن ختم ہوتی جا رہی ہے لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آج بھی دنیا کے تمام بڑے بڑے اداروں کو کسی نہ کسی صورت میں کورئیر کمپنی کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ آپ جس دفتر میں بھی جائیں، جہاں بھی نوکری کے لئے درخواست گزاریں یا کسی بھی کمپنی کے نمائندے کے طور پر کوئی معاہدہ کریں، آپ کو لازماً کچھ نہ کچھ کاغذات اپنی کمپنی کے صدر دفتر کو بھیجنا ہوں گے، اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے، اکثر صارفین تیز اور سستی ترین کورئیر سروس کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔ پاکستان پوسٹ گو اس وقت سستا ترین اور تیز ترین نیٹ ورک میں شمار کیا جا سکتا ہے لیکن وائے بدقسمتی کہ ہمیں اور ہماری تجارتی کمپنیوں کو اس پہ ذرا بھی بھروسا نہیں ہے۔

پاکستان پوسٹ کی ویب سائٹ کے اعداد و شمار کی رو سے پاکستان میں اس وقت 13000 سے زیادہ ڈاک خانہ جات 20 ملین سے زیادہ لوگوں کو مستفید کر رہے ہیں۔ اس محکمہ کی اہم خدمات میں سے پوسٹل لائف انشورنس، بچت سکیم کے علاوہ ٹیکس ریٹرن اور یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کی سہولت شامل ہے۔ یہ ایک ایسا ہمہ جہت ادارہ ہے جو ملک کے جی ڈی پی میں اضافہ کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کا کماؤ پوت بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان پوسٹ نے دنیا بھر میں یونیورسل پورٹل سروسز کے نام سے کاغذات اور سامان کی ترسیل کا کام بھی بڑے پیمانے پر ارزاں نرخوں پر شروع کر رکھا ہے۔

اس سال کے اوائل میں شروع کی گئی برآمدی پارسل سروس ’ای ایم ایس پلس‘ بھی پاکستان پوسٹ کی ایک اہم خصوصیت تھی جو چھوٹے تاجروں کے لیے کم سے کم نرخوں پر 72 گھنٹے کے اندر اندر اپنے پیکج کو غیر ممالک میں پہنچا سکتے ہیں۔ پاکستان پوسٹ کی ارجنٹ میل سروس (UMS) نے واک ان صارفین کے لیے سستے نرخ بھی پیش کیے ہیں۔ اس سروس کو فوری میل کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جو کہ دستاویزات اور پارسلز کی ترسیل کے لیے وسیع ترین نیٹ ورک کے ساتھ راتوں رات/دوسرے دن گھر کی ترسیل کی ایک تیز، موثر اور محفوظ خدمت ہے۔ اس سروس کے لیے کمپیوٹرائزڈ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم بھی دستیاب ہے۔

پوسٹل سروسز کی اہمیت سے پوری دنیا کی اقوام واقف ہیں اور ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کو سستی اور تیز ترین سروس مہیا کی جائے۔ تاہم، پاکستان پوسٹ کی صورتحال بہت مختلف ہے جہاں آنے والی حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے پیداواری صلاحیت کا فقدان معمول بن گیا ہے۔ نتیجتاً، لوگ پرائیویٹ کورئیر سروسز کی طرف چلے گئے ہیں، جو پاکستان پوسٹ سے زیادہ تیز اور فعال سمجھی جاتی ہیں۔ اگرچہ پرائیویٹ کورئیر سروسز کے ذریعے ترسیل میں تین دن سے زیادہ وقت نہیں لگتا، لیکن ان کی خدمات کے لیے بھاری معاوضے ہیں۔

مثال کے طور پر بلوچستان سے پنجاب کو ایک خط تین دن میں پہنچانے کے لیے 300 سے 450 روپے لاگت آ سکتی ہے۔ جو لوگ اتنی رقم ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ مجبوراً پوسٹل سروس کا استعمال کرتے ہیں، ہو سکتا ہے ان کے اس خط کو پہنچتے پہنچتے ایک ماہ بھی لگ جائے۔ سابقہ دو سالوں کے دوران کرونا کی خوف ناک لہر نے جہاں تمام اداروں کو متاثر کیا، وہاں پاکستان پوسٹ کو بھی۔ امریکہ، یورپ سمیت برطانیہ اور دیگر ممالک کے درمیان پاکستان پوسٹ کے آپریشنز معطل کرنے پڑے ۔

بچت سکیم سے ادارے کو سالانہ آمدنی میں 10 فیصد خسارہ ہوا ہے اور خسارہ بڑھ کر 60 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ پاکستان پوسٹ کی مالی سال 2020۔ 2021 کے لیے پانچ ماہ کی آمدنی 3.7 ارب روپے رہی جب کہ گزشتہ سال یہ 4.2 ارب تھی۔ پنشن، یوٹیلٹی بلز اور سیونگ سکیم جیسے گھریلو آپریشنز کی بندش کی وجہ سے پاکستان پوسٹ کی آمدنی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان پوسٹ کو رواں مالی سال کی آمدنی میں 10 فیصد کا نقصان ہوا ہے

دیکھا جائے تو پاکستان پوسٹل سروس عوام کو اپنی خدمات کے لیے مارکیٹ میں موجود دیگر کورئیر سروسز کے مقابلے تین گنا تک سستے چارجز کی پیشکش کر رہی تھی۔ کورئیر مارکیٹ کے سب سے پرانے کھلاڑی ہونے کے ناتے، مختلف سروسز میں پاکستان پوسٹوں کے چارجز 20 گرام تک کے خطوط کے لیے 8 روپے سے شروع ہوتے ہوئے اور 2 کلوگرام تک کے خط کے لیے 100 روپے تک جبکہ 250 گرام تک کے چھوٹے پیکٹ کے لیے 20 روپے اور 2 کلو تک وزن کے لیے 45 روپے تک نرخ ہیں اور یہ نرخ نجی کورئیر سروسز کمپنیوں جیسے OCS، TCS اور Leopard کورئیر سروسز کے مقابلے تین گنا سستے ہیں۔

میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق نجی کورئیر کمپنیوں کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ایسے طالب علم /پارٹ ٹائم ملازمین کی تعیناتی جو پہلے وقت میں تو کسی کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور لنچ ٹائم کے بعد کسی نہ کسی کوریئر کمپنی کے پارسل اور پیکٹ گھر گھر پہنچانے کا کام بھی کرتے ہیں۔ پارسل کی ڈیلیوری کی صورت میں نجی کورئیر کمپنی ان کو کمیشن بھی دیتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈاکیا یا پوسٹ مین اپنی کم تنخواہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنی کمزور سی سائیکل کے ساتھ سفر کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ گو شہر تو کافی گنجان ہوتے ہیں لیکن دیہی علاقوں میں مقامی ڈاکخانوں کو کئی مربع کلو میٹر کا علاقہ دیا جا تا ہے جس کی وجہ سے ڈاک، پارسل، وی پی یا یو ایم ایس پڑے پڑے زائد المیعاد ہو جاتا ہے۔

سابقہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان پوسٹ نے مالی سال۔ 19 -2018 میں 14.77 بلین روپے کا ریونیو حاصل کیا، اگر سسٹم میں کچھ اصلاحات لائی جائیں تو اس میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں موجود کسی بھی ڈاک خانے کو اپنے پتہ پر پارسل پہنچانے میں جو مشکلات درپیش ہیں ان میں غلط یا نامکمل پتہ؛مکتوب کو دوسرے پتے پر منتقل کرنا؛ڈاکیا یا ڈیلیوری ایجنٹ کی نا اہلی، کسٹم کے ذریعے پارسل کی حراست؛کسٹم یا اینٹی نارکوٹکس فورس کے ذریعے پارسل کی ضبطی؛بھاری کسٹم ڈیوٹی کی وجہ سے مخاطب کا انکار سب سے اہم ہیں۔

اکثر وی پی پی یعنی کیش آن ڈیلیوری پارسل صرف صارف کی عدم توجہی یا اس وقت پیسے نہ ہونے کی صورت میں واپس کر دیے جاتے ہیں۔ میرے خیال میں اگر کوئی بھی حکومت صرف اپنے اپنے تمام حکومتی اداروں اور نجی و حکومتی بنک کو پابند کردے کہ تمام خط و کتابت پاکستان پوسٹ کے ذریعے کی جائے تو لامحالہ ہمارے اس محکمے کی کارکردگی میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔

اس کے علاوہ اکثر پارسل اور خطوط اس لئے بھی وصول کنندہ تک نہیں پہنچ سکتے کہ مکتوب الیہ کا پتہ، نام وغیرہ غلط درج ہوتا ہے اگر نجی کورئیر کمپنی کی طرح ہر پارسل پر وصول کنندہ کا موبائل نمبر لکھا جائے تو مکتوب پہنچنے میں آسانی ہو گی اور اگر پاکستان پوسٹ کو نادرا کے ڈیٹا کے ساتھ منسلک کر دیا جائے تو سونے پہ سہاگہ ہو گا۔ موجودہ المناک صورت حال یہ ہے کہ ٹاؤن اور چھوٹے چھوٹے دیہی علاقہ جات میں موجود ذیلی ڈاکخانے بند کئیے جا رہے ہیں، جس کی بنا پر ملازمین سے ان کا روزگار چھن رہا ہے اور ملکی سرمائے میں پاکستان پوسٹ کا حصہ کم ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments