فیصلہ: ملاں کی سائنس یا ٹرانسجینڈر فرد کا حق؟


ٹرانسجینڈر ایکٹ پاس ہونے کے بعد پاکستان میں یہ سب سے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے اور اس پہ کافی بحث ہو رہی ہے۔ تیسری جنس کو معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش کے آگے سماج ڈٹ کر کھڑا ہو گیا ہے اور مختلف حیلے بہانوں سے انھیں معاشرے کا ایک الگ طبقہ قرار دینے پہ بضد ہے۔ اس حوالے سے پہلے تو اس ایکٹ سے ہم جنس پرستی نکال لی گئی لیکن چیپٹر اول میں ٹرانسجینڈر کی تعریفیں اور اس کے بعد اسی بنیاد پہ آگے جنس کے تعین کے بعد یہ پروپیگنڈا دم توڑ گیا کیونکہ عام مرد یا عورت کا اس بل سے تعلق نہیں اور شادی کا تو دور دور تک تعلق نہیں۔

جماعت اسلامی کے رکن کی جانب سے بھی جو اعتراض سامنے آیا ہے وہ ہرگز اس ایکٹ کے ہم جنس پرست ہونے پہ نہیں بلکہ میڈیکل ٹیسٹ کی ضد پہ ہے۔ اچھا موقع دیکھتے ہوئے محترم اوریا مقبول جان سمیت کئی لوگ شرعی عدالت جا پہنچے اور پریس کانفرنس کر کے عوامی مقبولیت سمیٹتے رہے۔ غامدی صاحب جیسے لوگ بھی اس بل پہ کڑھتے نظر آئے کیوں کہ سائنس سے نابلد ہونے کی وجہ سے کم از کم ہر مولوی سائنسی مسئلوں پہ مقبول بیانیہ ہی اپناتا ہے اور غامدی صاحب بھی بہرکیف ایک کٹر ملاں ہی ہیں۔ ابھی تک کا سب سے مضبوط پروپیگنڈا یہ رہا کہ میڈیکل ٹیسٹ کی شرط لازمی کیوں نہیں کی جا رہی۔ قانون تو ظاہر کو مانتا ہے لہذا کسی ٹرانسجینڈر کو مرد کہنا یا عورت اس کا فیصلہ وہ کیوں کرے بلکہ اس کے لیے میڈیکل ٹیسٹ ہونا چاہیے۔

جنس کے تعین کی ذمہ داری کی شق چیپٹر دوم میں ہے لیکن پہلے تو مذکورہ شخصیت کو چیپٹر اول کی چھلنی سے گزرنا ہے اور شک کی صورت میں اسے یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ٹرانسجینڈر ہے۔ اس کے بعد باقی پروسس ہے۔ اول تو محترمہ شیری مزاری کا یہ استدلال کافی مضبوط تھا کہ ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے سے رشوت کی راہ ہموار ہو گی کیونکہ یہاں میڈیکل ٹیسٹ حاصل کرنا تو عام سی بات ہے۔ دوم اس سے خواجہ سراء مزید پریشانی کا شکار ہوں گے اور ان کا جسمانی استحصال ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سب کے علاوہ سب سے اہم یہ ہے کہ کوئی بھی میڈیکل ٹیسٹ اس کی جنس کا حتمی تعین ہی نہیں کر سکتا۔ چلیں سائنسی انداز میں دیکھتے ہیں۔

اگر ہمیں سائنسی پہلوؤں سے جائزہ لینا ہے پھر تین بنیادی مضامین پہ دسترس حاصل ہونی چاہیے یا پھر ان مضامین کا سہارا لے کر حقائق تک پہنچنا چاہیے۔ وہ تین مضامین جنیٹکس، نیوروبائیولوجی اور انڈوکرینالوجی ہیں۔ سائنس اب XX کروموسوم والا فیمیل اور XY میل سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ XX کروموسومز میل گونیڈز بھی رکھ سکتا ہے اور اسی طرح موخر الذکر زن کے مخصوص اجزاء کا حامل بھی ہو سکتا ہے۔ جب بچہ بن رہا ہوتا ہے تو پہلے پانچ ماہ تک اس کے جنس کا فیصلہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ دونوں خصوصیات رکھتا ہے اور اس کے بعد SRY نامی جین ایکٹیویٹ ہو سکتی ہے جو میل گونیڈ کا پہلا کورڈ ہے لیکن اس کی غیر موجودگی کی صورت میں فیمیل گونیٹڈ یا ان دونوں کے درمیان کی ترکیب بنتی ہے۔

یاد رہے کہ SRY جین کے ایکٹیویٹ ہونے کے دوران دیگر جنیز جیسے FOXL 2 اور DMRT 1 بھی ایکٹیویٹ ہوتی ہیں کیونکہ ان کے غیر موجودگی میں مخالف جنس بننے کا پروسس شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ دیگر کئی پہلو ہیں جو جنس کی بنیاد بنتی ہیں جن میں ہارمونز، ماحول، حساسیت اور جینز کا تعامل شامل ہے۔ بات صرف ظاہری نہیں ہے بلکہ اس میں ذہن کا کردار بھی شامل ہے جسے سائنسی زبان میں Behaviour کہا جاتا ہے۔

دماغ کا ایک چھوٹا سا حصہ sdnPOA کہلاتا ہے جس میں میل اور فیمیل کے لیے ساخت اور سائز میں کچھ فرق نوٹ کیا گیا ہے لیکن تمام سٹڈیز کے بعد حتمی نتیجہ یہ نکلا ہے کے کہ اس حصے کی سٹڈی ہمیں عام حالات کے علاوہ حتمی طور پہ جنس کے متعلق نہیں بتا سکتی۔ نہ صرف یہ کہ جسمانی ساخت اور دماغی مشاہدے کی بنیاد پر ٹرانس کی جنس کا حتمی فیصلہ کر پانا ممکن نہیں ہے بلکہ ایک تیسرا پیچیدہ فیکٹر بھی ہے جسے ہارمونز کہتے ہیں جیسا کہ سکول میں سب نے میل کے لیے ایسٹروجن اور فیمیل کے لیے ٹیسٹروجن پڑھا تھا۔

ایک غلط فہمی یہ ہے کہ ٹیسٹروجن، پروجیسٹیرون اور ایسٹروجن کی بنیاد پہ جنس کا تعین کیا جا سکتا ہے لیکن یہ تینوں بائی پوٹینشل رینج میں ہوتے ہیں اور حتمی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اس کے علاوہ ان کا لیول عمر پہ بھی انحصار کرتے ہیں جو بدل جاتا ہے۔ جنیٹکس جنس کے تعین میں کل ملا کر 56 فیصد کردار ادا کرتے ہیں۔ ماحولیاتی، معاشرتی اور طرز عمل جیسے فیکٹر بھی ہارمونز پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ نفسیاتی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یوں حتمی فیصلہ صرف وہی شخصیت کر سکتی ہے کہ وہ اپنی جنس کے متعلق کیا محسوس کر رہی ہے۔

ونڈربلٹ یونیورسٹی میڈیکل سنٹر اس وقت دنیا کا ڈی این اے کا سب سے بڑا ڈیٹا بینک ہے۔ ٹرانس بڈی پروگرام بھی یہی سے شروع کیا گیا اور ٹرانس جینڈر کے حوالے سے سب سے زیادہ ریسرچ اسی سنٹر میں کی گئی ہے۔ 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ حکومت نے امریکہ میں پہلے سے موجود کچھ قوانین میں تبدیلی کی۔ خصوصاً باتھ روم بل نے کافی ہنگامہ مچایا جہاں ٹرانسجینڈر کو سسجینڈر کے واش روم استعمال کرنے سے منع کر دیا گیا۔ اس دوران ونڈربلٹ یونیورسٹی میڈیکل سنٹر سمیت دنیا کے جید ادارے جیسے جارج واشنگٹن یونیورسٹی اور بوسٹن چلڈرن ہسپتال سمیت دیگر اداروں نے مل کر اس مسئلے پہ گرینڈ ریسرچ کا پروگرام بنایا۔

انھوں نے دس ہزار لوگوں کے خون کے نمونے اکٹھے کیے اور ان کا ڈی این اے نکالا جن میں تین ہزار ٹرانس جینڈر تھے۔ اس ریسرچ میں ٹرانسجینڈر بننے کی بنیادی وجوہات تک پہنچنا تھا۔ یوں تو یہ ریسرچ کافی مثبت رہی اور بہت کچھ سکھا گئی لیکن ایک بات طے ہو گئی کہ جنس کے بارے میں حتمی فیصلہ صرف وہ شخصیت خو کر سکتی ہے کیونکہ ابھی تک سائنس کے پاس کوئی ایسا خاص پیمانہ نہیں جو ٹرانس جینڈر کو حتمی طور پر میل یا فیمیل قرار دے۔

المختصر اس پیچیدہ سائنسی مسئلے کو دیکھتے ہوئے اگر ٹرانسجینڈر خود سے محسوسات کی بنیاد پہ اپنی جنس کا خوف تعین کر رہا ہے تو اس میں معاشرے کو کتنا نقصان ہے؟ اس سے ہم جنس پرستی کی راہ نکلنے یا معاشرتی تہذیب و تمدن کے نقصانات کا بہانے مضحکہ خیز ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments