ایڈورڈ سعید، دانشور اور پاکستان


9 ستمبر 2001 کے حملوں کے چند ہفتوں کے بعد مجھے ایک ای میل کے ذریعے امریکی فلسفی نوم چومسکی کے ایک لیکچر کا تحریری مسودہ موصول ہوا۔ یہ لیکچر انہوں نے امریکی باشندوں کے سامنے کسی یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں دیا تھا۔ جب پورا مغرب ان حملوں کا تمام تر الزام مسلمانوں پر عائد کرنے کے بعد اسلام اور دہشت گردی کو ہم معنی قرار دے رہا تھا نوم چومسکی نے اپنے لیکچر میں امریکی حکومت کی ان فوجی کارروائیوں کا ذکر کیا جو دنیا کے مختلف ممالک میں کی جا چکی تھیں اور کہیں اس وقت بھی جاری تھیں۔ اور یہ بھی بتلایا کہ امریکا وہ واحد ملک ہے جسے بین الاقوامی عدالت انصاف نے نکاراگوا میں فوجی مداخلت پر فیصلہ سناتے ہوئے ایک دہشت گرد ریاست قرار دیا تھا۔

9 ستمبر کے حملوں کے بعد جب امریکی صدر یہ نعرہ لگا رہے تھے کہ ”تم ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے ساتھ“ اور دنیا کا ہر ملک امریکہ سے اظہار ہمدردی کرنے اور اس کی فوجی کارروائی کی حمایت کرنے میں سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا تھا ایسے وقت میں چومسکی یہ یاد دلانے کی کوشش کر رہے تھے کہ امریکی سرزمین پر ہونے والے حملے اصل میں امریکہ کی ان فوجی کارروائیوں کا ردعمل ہیں جو اس نے دنیا کے مختلف ممالک میں انجام دی ہیں۔

ذرا سوچئے کہ ایسے ماحول میں جب قومی سلامتی کا سوال ہر دوسرے سوال سے زیادہ اہم کر کے دکھایا جا رہا ہو، دنیا بھر کا میڈیا امریکہ کو ایک مظلوم ریاست اور حملوں میں جان سے جانے والوں کو دنیا کے بے بس ترین شہری بنا کر دکھا رہا ہو ایسے میں ایک دانشور امریکی عوام کو مخاطب کر کے کہے کہ یہ حملے تمہاری حکومت کی خارجہ پالیسی کا کیا دھرا ہیں۔ سوچئے اس کام کے لیے کتنی جرآت چاہیے ہوگی۔ ایک عام امریکی باشندہ، ایک امریکی اخبار نویس، حکومتی اہلکار ایسے دانشور کے بارے میں کیا کیا نہ سوچتے ہوں گے۔

جب حملوں کی گرد ذرا بیٹھنے لگی اور اور ان کے اسباب اور حملہ آوروں کے بارے میں تفصیلات آنا شروع ہوئیں تو قیاس آرائیوں اور سازشی نظریات کا وہ بازار گرم ہوا کہ الامان و الحفیظ۔ سب سے اہم بات جو امریکی حکومت کے بارے میں کہی گئی وہ یہ تھی کہ یہ حملے اس نے خود کروائے ہیں تاکہ دیگر ملکوں پر فوجی حملوں کے جواز ڈھونڈنے جا سکیں۔ مشہور امریکی مصنف گور وڈال کی مشہور تصنیف ”اندرونی دشمن“ میں صاف کہا گیا کہ امریکی حکومت نے جان بوجھ کر ان حملوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی جبکہ ایسا یقینی طور پر ممکن تھا۔

لیکن وہ چومسکی جنہوں نے حملوں کے فوراً بعد ان کا الزام امریکی حکومت کی خارجہ پالیسی پر عائد کیا تھا، نے ان سازشی نظریات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے حملوں کی تمام تر ذمہ داری القاعدہ پر ہی عائد کی۔ انسانی سطح پر سوچئے تو امریکی خارجہ پالیسی کے دنیا بھر میں سب سے بڑے ناقد کے لئے یہ کس قدر مشکل رہا ہو گا کہ وہ اپنے تمام تر تعصبات کو ایک طرف رکھ کر ان حملوں کی ذمہ داری امریکہ کی بجائے القاعدہ پر عائد کرے۔

چومسکی نے اس کے برعکس کیا جو ایک وقت میں پورا امریکی معاشرہ کہہ رہا تھا۔ بعد ازاں اس کے برعکس کہا جو پوری دنیا کے امریکہ مخالف لوگ کہہ رہے تھے۔ یعنی ایک طرف انہوں نے اس سے اختلاف کیا جو امریکی حکومت دنیا کو باور کرانا چاہ رہی تھی اور دوسری طرف انہوں نے اس سے اختلاف کیا جو پوری دنیا کے امریکہ مخالف لوگ اپنی تحریروں اور بیانات میں دنیا کے سامنے رکھ رہے تھے۔ دانشور کی یہی وہ تعریف ہے جو ایڈورڈ سعید نے اپنے ریتھ لیکچرز میں بیان کی ہے۔ سعید کے مطابق دانشور وہ ہے جو طاقت کے سامنے سچ کہہ سکے اور ایسا کرتے ہوئے وہ کسی کی بھی طرف داری کرنے سے انکار کر دے۔ اب یہ طاقت حکومت کی بھی ہو سکتی ہے، معاشرے کی بھی اور اپنے گروہ اور ہم خیال افراد کی بھی۔

خود ایڈورڈ سعید کی اپنی زندگی بھی اسی اصول کے مطابق گزری۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آج کی دنیا میں فلسطین اور فلسطینی عوام کی عملی حمایت میں سعید اگلی صفوں میں کام کرنے والے دانشور تھے۔ انہوں نے اسرائیلی مظالم کی تفصیلات ایک اخبار نویس کی طرح نہیں بلکہ ایک دانشور اور مفکر کے طور پر بیان کی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یاسر عرفات اور دیگر فلسطینی قیادت کی کرپشن اور غلطیوں سے بھی اغماض نہیں برتا۔ یاسر عرفات اور دیگر فلسطینی قیادت پر ان کی تنقید اس حد تک پہنچی کہ یاسر عرفات نے فلسطین میں ان کی کتابوں پر پابندی لگا دی۔

بغیر کسی کی طرف داری کے صرف سچ کا بیان۔ بالخصوص طاقت کے سامنے۔ دانشور کا بظاہر یہ ایک سادہ سا فریضہ لگتا ہے۔ لیکن یہ کام صرف عملی طور پر ہی دشوار نہیں ہے بلکہ نظری اور فکری لحاظ سے اس کو سمجھنا اس سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ خاص طور پر جب یہ سوال اٹھتا ہے کہ دانشور کون اور کیسے بنتا ہے۔ دانشور کے اوپر بیان کردہ فرائض معاشرہ اس پر عائد کرتا ہے یا وہ یہ ذمہ داری خود اپنے اوپر لے لیتا ہے۔ ایڈورڈ سعید ان سوالوں کے براہ راست جواب تو نہیں دیتے تاہم وہ وہ جولین بنڈا اور انتونیو گرامچی کے نظریات کا سہارا لے کر اپنی بات بیان کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔

دانشور کی جو تعریف بنڈا نے کی ہے وہ عام آدمی اور مذہبی پیشوا میں تفریق کرتی ہے جبکہ گرامچی کی وضاحت میں استاد اور آرگینک دانشور میں فرق کیا گیا ہے ہے گرامچی کا آرگینک دانشور پر امن انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک بنیادی کردار ہے۔ یہ پرامن انقلاب گرامچی کے مطابق پیداواری طبقات کی حکومت یا اجارہ داری قائم کرنے کے لئے برپا کیا جاتا ہے۔ یہ دانشور آزادی کی جدوجہد میں عوام کی رہنمائی کرتے ہیں اور یہ کام روایتی نظریات اور نعروں پر استوار سطحی سوچ کو رد کیے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔

سعید گرامچی کی تعریف کو بنڈا کی تعریف پر فوقیت دیتے ہیں تاہم یہ سوال اپنی جگہ پر باقی ہے کہ دانشور پر یہ ذمہ داری کس بنیاد پر اور کون عائد کرتا ہے۔ بنڈا کے برعکس گرامچی کے خیال میں معاشرے کا ہر فرد حقیقت میں ایک دانشور کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن صرف چند ہی لوگ ذمہ داری کے اس بار کو اٹھانے پر آمادہ ہو پاتے ہیں۔ لیکن ایڈورڈ سعید کے خیال میں میں دانشور قدامت پسندی اور تنگ نظری کو چیلنج کرتے ہوئے اہم سوال اٹھانے کی صلاحیت سے قدرتی طور پر مالامال ہوتا ہے۔

یہ دانشور نظر انداز کیے جانے والے معاشرتی طبقات کی نمائندگی کرنے اور فراموش کر دیے جانے والے سوالات کو دوبارہ اٹھانے پر خود کو آمادہ اور تیار پاتا ہے۔ اور یہ ذمہ داری معاشرہ نہیں بلکہ دانشور خود پر خود ہی عائد کرتا ہے۔ لیکن ایسا کن محرکات کی بنا پر ہوتا ہے۔ یہ محرکات معاشرتی ہوتے ہیں یا ذاتی؟ اگر یہ محرکات معاشرتی ہوتے ہیں تو دنیا کے بہت سے معاشرے ضرورت کے باوجود دانشور پیدا کیوں نہیں کر پاتے؟ اور اگر اسباب ذاتی ہیں تو دانشور بننے کی صلاحیت رکھنے والے افراد صرف چند ہی معاشروں میں کیوں پیدا ہوتے ہیں؟

سعید کے مطابق دانشور عوام کی رہنمائی کرتے ہوئے کسی حکومت یا کارپوریشن کے ساتھ سمجھوتے نہیں کرتا۔ حکومتوں اور کارپوریشنز کا ذکر 1992 کے ان لیکچرز میں کیا جانا سمجھ میں آتا ہے۔ گھانا کے پہلے صدر اور نیو کالونیل ازم جیسی اصطلاح کے خالق کوامی کروما نے انیس سو پینسٹھ میں یہ بتایا تھا کہ نئی استعماریت حکومت نہیں بلکہ مالیاتی اداروں اور کارپوریشنز کے ذریعے قائم کی جائے گی۔ لیکن اکیسویں صدی میں استحصالی نظام قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے بہت سے غیر حکومتی اور غیر تجارتی گروہ بھی متحرک ہیں۔

انہی گروہوں کے ذریعے جنگیں بھی لڑی جاتی ہیں اور ملکوں میں بدامنی اور سیاسی عدم استحکام پھیلانے کے کام بھی لیے جاتے ہیں۔ اور اکثر صورتوں میں یہ گروہ نہ حکومتوں کی سنتے ہیں اور نہ کاروباری اداروں کی۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان گروہوں کے اپنے اپنے تھنک ٹینک یعنی اپنے اپنے دانشور بھی ہوتے ہیں۔ اور اپنے تئیں یہ دانشور اعلائے کلمۃ الحق بلند کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے اور اس میں بلا مبالغہ کوئی شک نہیں ہے کہ بعض صورتوں میں یہ دانشور پاور سنٹرز کو زچ کر دیتے ہیں۔

یہ دانشور بھی ”مجاہدین، آزادی، انقلاب اور تبدیلی“ جیسے الفاظ بھی استعمال کرتے ہوئے دکھائی دیے جا سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی شاعری پڑھنے والے کئی ایسے گروہوں کو آپ بھی جانتے ہوں گے۔ ان میں سے بعض معاشرتی جمود (سٹیٹس کوو) اور عوامی بے حسی  جیسی اصطلاحات کا سہارا لیتے ہوئے بھی دیکھے گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے بعض اوقات یہ کام مشکل ہو مگر ان دانشوروں اور پاور سینٹرز کے تعلقات کو شناخت ضرور کیا جا سکتا ہے۔

دوسرا اہم سوال جو اب بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے وہ یہ ہے کہ کیا سچ اب صرف پاور سنٹرز کے لئے تکلیف دہ ہے؟ یہ حقیقت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ پاور سنٹر سے زیادہ دنیا بھر کے معاشروں میں موجود پریشر گروپس کے سامنے سچ کہنا مشکل ہو چکا ہے۔ یہ پریشر گروپس ایک حقیقی دانشور کے لئے پاور سنٹر سے زیادہ خطرناک بن چکے ہیں۔ اب ایک عوامی دانشور کو صرف تشدد اور مارے جانے جیسے خطرات کا سامنا نہیں ہے بلکہ اس ہراسانی، توہین اور گالم گلوچ کا بھی سامنا ہے جو ان پریشر گروپس سے منسلک یا متاثر افراد کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ سوشل میڈیا نے دانشور کے کام کو اور مشکل بنا دیا ہے۔

سوشل میڈیا کی طاقت کا یہ پہلو پہلی مرتبہ عرب بہار میں دیکھا گیا تھا مگر وہ ہی سوشل میڈیا بریگزٹ کے ریفرنڈم میں عوام کی مرضی کو ایک خاص سمت دینے کے کام آیا۔ اسی سوشل میڈیا کی طاقت کو ہم اپنے معاشروں میں غلط خبریں پھیلانے اور عوام کے جذبات ابھارنے کے لیے استعمال ہوتے ہوئے روزانہ دیکھتے ہیں۔ ایک دانشور کو یہاں دو سوال درپیش ہیں۔ ایک۔ وہ ایسے معاشرے میں کیسے زندہ رہ کر اپنا کام کر سکتا ہے۔ اور دوسرے۔

وہ ایسے طبقات کے خیالات و نظریات کا کیسے مقابلہ کر سکتا ہے جو بظاہر دکھائی بھی نہیں دیتے۔ یہاں ان نظریات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جن کی اساس وقتی ابال اور جذباتی نعروں پر استوار ہوتی ہے۔ آج کے دانشور کے لیے خطرات دو چند اور کام دوگنا مشکل ہو چکا ہے۔ آج کا دانشور استحصالی ریاستی اداروں، حکومتی ملیشیا، بات بات پر غلط الزامات لگا کر گھیراؤ کرنے والے عوامی جتھے اور شعلہ بیاں خطیب سب کے نشانوں پر ہے۔ ایسی صورت حال اگر عشروں پر محیط ہو تو سوچا جا سکتا ہے کہ ایسے معاشروں میں عوامی دانشوروں کی پیدائش اور بقاء کتنا بڑا سوال ہو گا۔

تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ دنیا کے معروف عوامی دانشور نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید، ہاورڈ زن، اقبال احمد، ارون دتی رائے، طارق علی اور گور وڈال جیسے لوگوں کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ اگر مین سٹریم میڈیا ان کی تحریریں شائع نہ کرے تو ان کی کتابیں لاکھوں میں شائع ہو کر کروڑوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ امریکی خارجہ پالیسی پر شدید ترین تنقید کے باوجود چومسکی، سعید اور زن کو ان کی یونیورسٹیوں سے نکالا نہیں گیا۔ متوازی میڈیا مسلسل ان کے انٹرویوز اور لیکچرز دکھاتا رہا۔

لیکن اب یہی میڈیا یا ”شور کی ثقافت“ کا منبع بن چکا ہے۔ یہ میڈیا ہر سچ کے اردگرد جھوٹ کی ایک بڑی دیوار کھڑی کرنے کا کام کرتا ہے تاکہ یا تو سچ دھندلا جائے یا پھر بالکل ہی نظر آنا بند ہو جائے۔ کسی بھی واقعے کے سامنے آنے کے بعد اس کے حوالے سے متضاد بیانی کا ایک سلسلہ ترنت شروع کر دیا جاتا ہے۔ لاتعداد جعلی علما، سکالرز اور صحافی یہ فورم اپنے اپنے آدھے سچ کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

یہاں طلاقت لسانی علم اور استدلال سے زیادہ بھاری اور پرکشش ہوتی ہے لہذا توجہ اور لائکس بھی روانی سے جذباتی اور سطحی باتیں بیان کرنے والے سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔ ویسے بھی صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں سنجیدہ تحریریں پڑھنے کے رجحانات کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ ایک دانشور کے لیے گمبھیر معاملات پر اپنی رائے ٹویٹر کی تین سطروں میں بیان کرنا بعض اوقات ممکن نہیں ہوتا لیکن ایک نعرہ باز لیڈر ایسا ہمیشہ کر سکتا ہے۔ دانشور بغیر دلیل کے بات نہیں کرتا جبکہ ایک نعرہ باز رہنما اور شعلہ بیان خطیب سے دلیل کی توقع عموماً نہیں کی جاتی۔

ایڈورڈ سعید کے ان خطبات کی اصابت اپنی جگہ پر مگر اب استحصالی طاقتیں سامنے آئے بغیر معاملات کنٹرول کرنے کے قابل ہو چکی ہیں۔ ان قوتوں کو شناخت کرنا اب اتنا آسان نہیں رہا جتنا انیس سو بیانوے میں تھا۔ پاور سینٹرز نے ایک تو دبیز نقاب پہن لیے ہیں اور دوسرے معاشروں میں انہوں نے اتنے بہت سے شراکت کار ڈھونڈ لیے ہیں کہ ہر ایک کے پیچھے طاقت کی موجودگی کا گمان کرنا بے جا نہیں لگتا کیونکہ بظاہر متضاد باتیں کرنے والے یہ گروہ حقیقت میں پاور سینٹرز ہی کے مفادات کو تحفظ فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔

ایسی صورتحال میں ایک انتہائی اہم سوال یہ ہے کہ تاریخ کے اس دوراہے پر دانشور کی کم سے کم ذمہ داری کیا ہو سکتی ہے۔ ایڈورڈ سعید شاید اس سوال کے جواب میں اپنی بات کو نئے پیرائے میں بیان کرتے ہوئے یہ کہیں کہ دانشور وہ ہے جو اس طاقت کو شناخت کر سکیں جس کے سامنے اسے سچ بیان کرنا ہے۔ یعنی دانشور کو آپ صرف سچ بیان نہیں کرنا بلکہ سچ بیان کرنے سے پہلے اس طاقت کو بھی ڈھونڈنا ہے کہ جس کے سامنے سچ بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

دانشور وہ ہے جو نعروں اور مفسد عقائد کے نیچے چھپے طاقت کے عزائم کو دیکھ سکنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور جو طاقت کے حاضر سروس اور طاقت کے دربار کے باہر قطار بند شراکت کاروں کو دیکھ سکے اور ان میں سے ہر ایک کو مسترد کر کے کسی کی بھی حمایت پر آمادہ نہ ہو۔ نہ جھوٹے اور جعلی اوتاروں سے متاثر ہو اور نہ ان کے ساتھ کسی بھی وابستگی کا متمنی ہو۔

آج سعید کی برسی ہے ان کو یاد رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کے نظریات اور افکار کو پھیلا کر ان کا اطلاق آج کے حالات پر کرنے کی کوشش کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments