اترپردیش اور اتر آکھنڈ میں مسلم مدارس کا سروے


ہندوستان کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اترپردیش اور اتر آکھنڈ میں مسلمانوں کے مدارس کے سروے کا اعلان کیا ہے جس سے ان علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں میں مزید عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے، یہ ریاستیں ہندو مسلم منافرت اور مذہبی تصادم کے حوالے سے نہایت حساس خیال کی جاتی ہیں۔ ادیتیہ ناتھ حکومت نے غیر سرکاری مدارس کے باقاعدہ سروے کا عندیہ دے دیا ہے، سروے پانچ اکتوبر دو ہزار بائیس تک مکمل کر کے حتمی رپورٹ پچیس اکتوبر دو ہزار بائیس تک حکام اعلی کے سامنے پیش کی جائے گی۔

حکومتی ذرائع کے مطابق ان ریاستوں میں بیس ہزار کے لگ بھگ موجود مدارس میں سے صرف پانچ سو ساٹھ مدارس ریاستی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے تسلیم شدہ ہیں، باقی مدارس کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے، اس کے حقائق اور اعداد و شمار جاننے کے لئے اس سروے کا اقدام کیا گیا ہے، ان غیر تسلیم شدہ مدارس میں دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلما لکھنو اور مطاہر العلوم جیسے مشہور مدارس بھی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے تسلیم شدہ نہیں ہیں۔

مسلمانوں کی جانب سے مدارس کے سروے پر اعتراض کرنے کی اہم وجہ مولانا ارشد مدنی نے یہ بتائی کہ اس سے قبل بھی انتہاپسند ہندو جماعت کے بسوا سرما نے آسام میں کئی مدارس کو القاعدہ سے تعلق کے شبے میں مسمار کروا دیا تھا اور ہمارے یہی تحفظات ہیں کہ اب دوبارہ ہمارے ساتھ یہی زیادتی نہ کی جائے۔ مزید انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے گزشتہ ریکارڈ کی طرح ہندو مسلم منافرت پھیلانے والی سرگرمیوں سے گریز کرے اور ایک ذمہ دار حکومت ہونے کا ثبوت دے۔

مولانا مدنی کے مطابق ملک میں ہزاروں غیر تسلیم شدہ سکولز کی موجودگی میں مدارس کی بیخ کنی کے لئے ایسے سازشی سروے کا مقصد صرف مسلم اقلیتوں کو ہراساں کرنا ہے اور یہ ہندو مسلم خلیج بڑھانے کا نہایت قبیح فعل ہے۔ مدرستہ العلوم دیوبند کے منتظم اعلٰی کے بیان کے مطابق مدارس کے تمام اخراجات ہندوستان میں موجود مسلمانوں کے عطیات، صدقات، زکواۃ اور خیرات وغیرہ سے چلتے ہیں اور یہ بات سب پر عیاں ہیں تو پھر مدارس کے سروے پر اس قدر اصرار کیوں ہے۔ مولانا سیف الرحمن کے مطابق مدارس کے طلبا نے جنگ آزادی میں نہایت نمایاں کردار ادا کیا ہے اور اس بات کا اعتراف بھارت کے پہلے صدر راجندر پرساد اور وزیراعظم جواہر لعل نہرو بھی کرچکے ہیں، صرف مدارس کا سروے مسلمانوں کی توہین ہے ہم اس سروے کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کے مطابق ہمارا ادارہ بین الاقوامی شہرت یافتہ ہے، ہمارے طلبا کے روزگار کی سو فیصد ضمانت ہے وہ معاشرے کے فعال شہری کی حیثیت سے ہندوستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو مزید قاضیوں، امام اور اساتذہ کی آسامیاں مستقل پیدا ہو رہی ہیں۔ انتہا پسند جماعتوں کے اہلکار ہمیں طعنے دیتے ہیں کہ مدارس کے اہلکار سرکاری آسامیوں کے قابل نہیں ہوتے، وہ چارٹرڈ اور ایسی دیگر اچھی ملازمتیں نہیں کر سکتے۔

اس اعتراض پر مدرسے کے نمائندے کا جواب تھا کہ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے بھارت کی اتنی زیادہ آبادی ہے کہ ریاست کے لئے ہر بچے کو مفت تعلیم دینا ہر گز ممکن نہیں، مدارس تو ریاست کا بوجھ بانٹنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں، وہ بچے جن کی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے ان کو بنیادی تعلیم، رہائش، اور روزگار کی ضمانت انہی مدارس کی وجہ سے مل رہی ہے اگر بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی آنکھوں سے تعصب اور انتہا پسندی کی عینک اتار کر دیکھے تو حقائق سے آشنا ہو۔ ہمارا مقصد مسلم آبادی کے بچوں کی فلاح و بہبود ہے کہ وہ مستقبل میں ریاست پہ بوجھ نہ بنیں۔

دوسری جانب بھارتی حکومت مدارس کے سروے کو ایک عظیم کارنامے پر تعبیر کرتی دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے مزید انتہاپسند جماعتیں اس کی بھرپور تائید بھی کر رہی ہیں اور ان کی جانب سے یہ منفی پراپیگنڈہ پھیلایا جا رہا ہے کہ غیر تسلیم شدہ اور سرکاری اعانت سے محروم مدارس ہندوستان دشمن ممالک کی فنڈنگ پر چل رہے ہیں، ان کی فنڈنگ کا کوئی شفاف ریکارڈ موجود نہیں اور یہ بیرونی ایجنڈے اور فنڈنگ کی وجہ سے ملک میں شرپسندی اور فساد کا باعث بنتے ہیں، کچھ بین الاقوامی شہرت یافتہ لیکن غیر تسلیم شدہ مدارس نے علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ اور دھاک بٹھا رکھی ہے اور وہ سیاسی اور ریاستی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں۔

ہندوستان میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے مطابق بھی سروے مسلم مدارس کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ کے ناظم مولانا مفتی شوکت بستوی نے اجلاس میں منشور جاری کیا اور الی ال علانیہ کہا کہ مسلمانوں کے مسلم مدارس کے منفی تاثر ابھارنے میں بھارتی میڈیا کا بہت ہاتھ ہے ایک طرف یہ مسلمانوں میں عدم تحفظ کی کیفیت پیدا کر رہی ہے تو دوسری جانب ہندو اکثریت میں بھی مسلمانوں کے خلاف تعصب کو بھڑکانے کا سبب بن رہی ہے۔

مدارس کبھی بھی ریاست مخالف سرگرمیوں کا حصہ نہیں رہے اس لیے میڈیا مدارس کے بارے میں گمراہ کن پراپیگنڈہ بند کرے۔ دونوں جانب کے انتہائی شدید تحفظات کے بعد اتر پردیش میں اقلیتی بہبود کے وزیر دانش انصاری کا دعوی ہے کہ سروے صرف حکومتی ریکارڈ کے لئے ہے، اس بات کی ضمانت ہے کہ سروے کے بعد کسی بھی مدرسے کو مسمار نہیں کیا جائے گا، ہاں یہ تجاویز ضرور زیر غور ہیں کہ کم تعداد کے طلبا پر مشتمل مدارس کو بڑے اور الحاق شدہ مدارس میں ضم کر دیا جائے گا۔ دونوں طرف سے خدشات تھمنے کا نام نہیں لے رہے، سروے پانچ اکتوبر کو مکمل ہو گا اور حتمی رپورٹ پچیس اکتوبر کو پیش کی جائے گی اس کے بعد ہی واضح ہو گا کہ سروے واقعی نیک نیتی پر مبنی تھا یا اس کا مقصد مدرسہ دیوبند، سہارن پور اور دیگر عالمی شہرت یافتہ مدارس کی نیک نامی کو زک پہنچانے کے لئے کیا گیا۔

بہرحال اس ساری صورتحال میں ایک بات تو واضح ہے کہ بی جے پی حکومت مسلم کمیونٹی کو غیر محفوظ ہونے کا تاثر دے رہی ہے جس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ مسلمان رہنماؤں کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم مدارس کے سروے کے اس غیر ضروری عمل کوفی الحال روک دینا چاہیے اور سب سے پہلے ان رہنماؤں کو اعتماد میں لیا جائے، اس سروے کے حوالے سے انہیں طریقہ کار اور اس کے فوائد سے آگاہ کیا جائے۔ یہ سب کیے بغیر کوئی بھی قدم اٹھانا بھارتی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا ایک ثبوت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments