ہم مر جائیں لیکن غیرت زندہ رہے


پاکستان جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں خواتین سب سے زیادہ تولیدی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں اور جہاں زچگی کے دوران سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان میں حاملہ خواتین، نئی ماؤں اور ان کے خاندانوں پر صحت کے دباؤ میں مزید اضافہ کیا ہے، اور زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی صحت میں موجودہ عدم مساوات کو بڑھا دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ، یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 18.9 ملین لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے اور 4.6 ملین کی 15 سال سے پہلے شادی کر دی جاتی ہے۔ بہت سی لڑکیوں کو کم عمری میں خطرناک حمل پر مجبور کیا جاتا ہے۔

طبی سہولیات کے فقدان کی صورت میں خواتین یا کم عمر لڑکیوں کو اسقاط حمل ہو جاتا ہے جو انہیں احساس جرم، دوبارہ حاملہ نہ ہونے کا خوف اور خاندان کے طعنوں کی وجہ سے نفسیاتی اذیت سے دوچار کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ زنانہ بیماریاں، صدمہ، خاوند کا غلط رویہ اور تشدد ڈپریشن، مایوسی، اضطراب، بے چینی جیسے مسائل میں اضافہ کر دیتا ہے۔ لیکن ان سب باتوں پر بات کرنا، ماہر نفسیات کے پاس جانا یا ڈاکٹر کو دکھانا خاندان کی عزت خراب کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے لہذا بیشتر خواتین گھٹ گھٹ کر زندگی گزار دیتی ہیں یا پھر ان کے گھر والے انہیں بے سہارا چھوڑ دیتے ہیں یا پھر وہ کسی ایدھی جیسے ادارے میں پناہ لے لیتی ہیں۔ پاکستان کی دو کروڑ سے زیادہ کی آبادی نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں جس کا ثبوت معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت، خودکشی کا رجحان، تشدد اور جنسی زیادتی میں اضافہ کی صورت میں سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں قندیل جیسے لڑکی کا بھائی بہن کی کمائی کے پیسے کھانا جائز لیکن پیسے نہ ملنے پر غیرت میں آ کر سے قتل کر دیتا ہے، ظاہر جعفر جیسے مرد دوست بن کر لڑکی کے گھر سے ساتھ لاکھ منگواتا مگر اس کی دوسری جگہ شادی کا سن کر غیرت میں آ کر پہلے تشدد اور پھر بے رحمی سے اسے قتل کر دیتا ہے یا پھر شاہنواز جیسے شخص بیوی کے پیسے کھاتا، اس کے پیسوں سے گاڑی خریدتا ہے لیکن اس کے اعتراض پر غیرت میں آ کر قتل کر دیتا ہے۔

پنجاب کے ایک گاؤں بستی احمد دین کے 400 رہائشی لوگوں نے کیمپوں میں اپنی خواتین کو منتقل کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ایسا کرنا ان کی غیرت گوارا نہیں کرتی تو دوسری جانب سندھ میں سیلاب سے متاثرہ لوگ پلوں اور سڑکوں پر بے سروسامانی کے ساتھ بیٹھے ہیں گو کہ بہت سے ادارے ان کی مدد کر رہے ہیں مگر ابھی بھی بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں کسی بھی قسم کی امداد نہیں پہنچی۔ طبی امداد کے کیمپوں میں حاملہ خواتین کو زچگی کے دوران مشکلات کی صورت میں جب ہسپتال منتقل کرنے کی بات کی جاتی ہے تو وہ انکار کر دیتی ہیں کیونکہ ان میں رواج ہی نہیں۔

دیہاتوں میں خواتین شانہ بشانہ کھیتوں مٰیں کام کر سکتی ہیں لیکن نہ تو انہیں اجرت ملتی ہے اور نہ ہی ان کھیتوں میں سے ان کا حصہ وسائل کی کمی کی صورت میں لڑکیوں کا سکول چھڑوا لیا جاتا ہے مگر لڑکوں کو پڑھایا جاتا کیونکہ وہ تو ان کے وارث ہیں جبکہ لڑکیوں نے تو کل کو پرائے گھر جانا ہے۔

ہمارا پدرسری نظام ثقافتی رسم و رواج (مثلاً کارو کاری، ونی، سوارا وغیرہ) ، سماج، خاندان کی عزت کا واسطہ دے کر بچپن سے ہی بچیوں کا استحصال شروع کر دیتا ہے۔ انہیں مرد کی عزت اور جان و مال بچانے کے لیے قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ کسی بھی قسم کی ذہنی، جسمانی، معاشی، نفسیاتی زیادتی کے نتیجہ میں خواتین یا بچیوں کا خود کسی بھی قسم کے فیصلے کرنے، مدد لینے یا مرضی کرنے کی صلاحیت کو اس حد تک ختم دیا جاتا ہے کہ وہ اسے اپنے ”عورت“ ہونے کے ناتے قبول کرنا اپنا مقدر سمجھ لیتی ہیں۔

ہماری غیرت عورت کے جسم کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ غصہ یا طیش میں آ کر گالیوں کی شکل میں اسی عورت کی تذلیل کرتے وقت ہمیں غیرت نہیں آتی۔ اپنی عورت ہسپتال، خیموں، سکول یا کالج یا پھر کام کی غرض سے باہر لکلے تو غیرت آتی ہے مگر دوسری عورتوں پر آوازیں کستے، ان کو چھیڑتے یا پیچھا کرتے وقت غیرت نہیں آتی۔ زمانے کے ڈر سے اپنی بچیوں کو سکول نہیں بھیجتے مگر کسی کی کمسن بچی کے ساتھ زیادتی کر کے اسے مارتے وقت غیرت نہیں آتی۔

ایک لمحہ کو رک کر سوچیں آخر غیرت کس چیز کا نام ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).