عمران خان کی تحریک اور اس کے ظاہر ہوتے ثمرات


کسی بھی ملک اور معاشرے میں کچھ سیاسی روایات ہوتی ہیں، جو ان کے تمدن کا خاصہ اور ان کے طرز زندگی کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ان روایات میں مخالفین سے برتاؤ، مخاطب سے طرز گفتگو، خواتین کی عزت، بزرگوں کا ادب، چھوٹوں پہ شفقت، مخالف کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت وغیرہ شامل ہیں۔ یہ پیرامیٹرز دراصل اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اس معاشرے کی اٹھان کن خطوط پر استوار ہوئی ہے، اور یہ کس سمت جا رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ایک ایسا ماحول نظر آتا ہے جہاں چند بدکردار لوگوں کو چھوڑ کر اکثریت ایک صحت مند سیاسی ماحول میں جدوجہد کرتی نظر آتی ہے۔

وہاں مخالف کی بات کو نہایت تحمل سے سن کر، برداشت کیا جاتا تھا اور پھر شائستگی کے ساتھ جواب بھی دیا جاتا تھا۔ بردباری اور عفو و درگزر کی یہ حالت تھی کہ ماضی کے سیاسی دشمنوں کو بھی وطن کی خاطر گلے سے لگا کر آمریت کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ فخر انسانیت باچا خان اور مسٹر جناح کی سیاسی رقابت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، مگر ایوب کے خلاف جب محترمہ فاطمہ جناح نے الیکشن کا فیصلہ کیا تو باچا خان اور اس کے خانوادے نے تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر محترمہ کا ساتھ دیا۔

محترمہ کے احترام کا یہ عالم تھا کہ عبد الولی خان فاطمہ جناح کے سر پر بھائی کی طرح ہاتھ رکھ کر شانہ بشانہ چلتا تھا اور جلسے میں محترمہ کی کرسی کے پیچھے مودب انداز میں ایک خادم کی طرح کھڑا رہتا تھا۔ اور یہی کردار کم و بیش ہمیں دو ہزار گیارہ تک مجموعی طور پر دیگر سیاسی شخصیات کے اندر بھی نظر آتا تھا۔ محترمہ بینظیر کی فوتگی پر میاں صاحب تمام مصروفیات ترک کر کے بینظیر ہسپتال پہنچ گئے اور پیپلز پارٹی کے کارکنان کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہوئے۔

حالیہ دنوں عمران شفقت صاحب کی بیٹھک میں بھی مکرمی وجاہت صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ جب میاں صاحب کو محترمہ کی کردار کشی کے لئے تصاویر پھیلانے کو کہا گیا، تو انہوں نے کمال خوبصورتی سے رد کر دیا۔ اور یہی حال محترمہ کا بھی تھا جن کے سامنے جب مریم کی تصاویر رکھی گئیں تو انہوں نے لانے والے کے منہ پر دے ماریں۔

ماضی کی ان خوشگوار یادوں سے انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا خوبصورت صاحب کردار لوگ تھے اور کیا شفاف زمانہ تھا، کہ سیاسی دشمنی کو کبھی بھی ذاتیات تک نہیں لے جاتا تھا۔ مگر پھر ایک نئے کردار کو تراش کر، بے لگام گھوڑے کی طرح عوام میں چھوڑا گیا، جو بد تمیزی، بد تہذیبی اور دشنام طرازی کی گرد اڑاتا سر پٹ دوڑتا جا رہا ہے اور اس بے لگام کے پیچھے جانے والے شتر بے مہار اس کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ کر اس سے بھی دو ہاتھ آگے جا رہے ہیں۔

یہ بند دماغ اور شخصیت کے سحر میں قید بونے اس بات کو سننے اور سمجھنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں کہ ان کا آقا ایک معصوم فرشتہ نہیں بلکہ انسان ہے جو خطا کا پتلا ہے اور جس کی سوچ ہرگز ضروری نہیں کہ ہمیشہ صحیح ہو۔ مگر ذات اور سوچ کے حصار میں قید ان بونوں کی کبھی اس نہج پر تربیت نہیں کی گئی کہ تمہارا مخالف بھی ایک عزت دار انسان اور محب وطن ہے، لہذا اس کی جان، مال اور عزت پہ کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے۔ اور آج حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ کسی عزت دار انسان کا گھر سے نکلنا محال ہو چکا ہے۔ جہاں کوئی سیاسی مخالف دیکھا، وہیں ہلڑ بازی کر کے اس کی عزت کا سرعام جنازہ نکال کر پھر اس پر فخر کرنا کہاں کی شرافت ہے۔ مگر افسوس قائدین پر ہے جو اس عمل کو سراہنے کے ساتھ ساتھ انہیں مزید اکساتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔

گزشتہ شاندار سیاسی روایات کا سرعام جنازہ نکال کر، مخالفین کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے روا رکھ کر، ان کو ہر طرح سے زچ کر کے یہ بونے اپنے تئیں سمجھتے ہیں کہ ہم نے گویا حب الوطنی کا فرض ادا کر دیا ہے۔ یہاں مجھے ولی خان کا وہی جملہ یاد آ جاتا ہے جو انہوں نے افغان جہاد کے لئے کہا تھا کہ پرائی آگ میں جو جا رہے ہو تو ایک دن یہ اٹک کا پل پار کر کے رہے گی۔ سو آج جس طریقے سے یہ جماعت اور اس کا قائد اپنے ان بونوں کی حرکات کو سراہ رہا ہے اور انہیں مزید ہلہ شیری دے رہا ہے، ڈر ہے کہ یہ ایک دن خود اسی آگ میں جلنا نہ شروع ہو جائے۔

اور ماضی میں ایسا ہو چکا ہے۔ ایک بار جمعیت علمائے ہند کے سربراہ مولانا حسین احمد مدنی کو جالندھر کے اسٹیشن پر قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل شمسو نامی آل انڈیا مسلم لیگ کے نوجوان نے تشدد کا بنایا تھا۔ مولانا نے صبر سے کام لیا اور چپ رہے۔ مگر اس نے جب واپس جاکر شیخی بگھاری تو ایک بزرگ نے کہا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم آگ میں جل کر ہلاک نہ ہو جاؤ۔ اور پھر وہ نوجوان قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے جب لائلپور آیا تو ایک لیگی رہنما کے ہی ہاتھوں تیزاب کی بھٹی میں جل کر ایسا ہلاک ہوا کہ نام و نشاں تک نہ ملا۔

سو آج اس تحریک اور اس کے زعماء کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے متبعین کو جس نہج پر تربیت دے کر اس مقام تک لے آئے ہیں، اس کی زد میں آج اگر ان کے مخالفین ہیں تو کل وہ خود بھی آسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ سیاست ہے اور سیاسی جوار بھاٹا میں کئی بار بڑے بڑے برج الٹ جاتے ہیں اور انسان کو سمجھوتہ کرنا پڑ جاتا ہے۔ مگر ایسا نہ ہو کہ اس سمجھوتے کی پاداش میں ان کی اپنی جان، مال اور عزت بھی لٹ جائے اور سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ ہاتھ نہ آئے۔

ان قائدین اور زعماء کو تنہائی مین بیٹھ کر یہ لازمی سوچنا چاہیے کہ ہم نے ملک کے سیاسی ماحول کو جو اس قدر مکدر کر دیا ہے، اس کا انجام کیا ہو گا اور ہماری آنے والی نسلوں کی سیاسی سوچ کن خطوط پر استوار ہوگی۔ دلیل کی بجائے دشنام طرازی کی جو بنیاد ہم نے رکھ دی ہے، اگر اس کو یہاں پر قابو نہ کیا گیا تو اگلی منزل پھر سروں کی فصل کی کٹائی پر جاکر ختم ہوگی، جس کی زد مین مخالف اور موافق سبھی آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments