نگہت کی کہانی (آخری حصہ)


” سلام باجی صاحبہ میں سلطان ہوں۔ نگہت کا سابقہ شوہر۔ میرا ناروے کا ویزا لگ گیا ہے میں آ گیا ہوں۔ کام بھی مل گیا۔ میں اپنے بیٹے سے ملنا چاہتا ہوں۔ نگہت کے گھر گیا تو وہاں کوئی اور لوگ ہیں۔ نگہت کہاں ہے؟ آپ کو تو ضرور پتہ ہو گا۔ اسے کہیں میں ملنا چاہتا ہوں“

میسنجر پر آئے اس کو پیغام پڑھ کر میں دیر تک سر پکڑے بیٹھی رہی۔ ایک نیا قضیہ؟ کیا ایک بار پھر نگہت کی زندگی میں طوفان آنے والا ہے؟ اس کا سکون سے زندگی گزارنے کا خواب پھر بکھر جائے گا؟ اور اب میں کیا کروں؟ کیا اسے سلطان کے پیغام کے بارے میں بتا دوں؟

میں نے کچھ دن خاموشی مناسب سمجھی۔ لیکن چار پانچ دن بعد اسکول سے گھر آتے دیکھا کہ میرے دروازے کے باہر کوئی شخص تجسس سے ادھر ادھر دیکھ رہا ہے۔ میں نے پہچان لیا۔

” السلام علیکم باجی۔ میں سلطان ہوں“ مجھے دیکھ کر وہ لپک کر میرے پاس آیا۔
” تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“ میں نے درشتی سے پوچھا۔

” وہ آپ کو میسیج کیا تھا شاید آپ نے دیکھا نہیں۔ آپ کا گھر مجھے کچھ کچھ یاد تھا۔ شادی کے بعد آپ نے ہماری دعوت کی تھی نا، بس اندازے سے آ گیا۔ گھنٹہ بھر سے تلاش کر رہا ہوں۔ شکر ہے آپ مل گیں“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ مجھے لگا اب یہ وہ پرانا والا شرمیلا سا کم گو نوجوان لڑکا نہیں رہا۔

” کیا بات ہے؟“ میں نے دروازے پر کھڑے کھڑے پوچھا۔ وہ شاید توقع کر رہ تھا کہ میں اسے اندر آنے کو کہوں گی۔ بیٹھ کر بات ہو گی۔

”آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ بس نگہت کا پتہ بتا دیں“
اس نے دو ٹوک بات کی۔ میں سوچ میں پڑ گئی۔
” وہ تو کافی عرصہ ہوا کہیں چلی گئی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہاں“ میری اس بات پر وہ بے یقینی سے مسکرایا۔
”آپ کو کیسے نہیں پتہ۔ آپ ہی تو اس کی پکی دوست ہیں۔“
اف یہ میں کس مشکل میں گرفتار ہو گئی ہوں۔ نگہت کی دوستی اور کتنے امتحان لے گی۔
”میرا پیغام نگہت کو پہنچا دیں۔ مجھے اس سے ملنا ہی ملنا ہے۔ یہ میرا فون نمبر ہے۔“
لہجہ کچھ کچھ دھمکی آمیز ہو گیا۔

وہ چلا گیا۔ اور میں سوچتی میں پڑ گئی کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ نگہت سے رابطہ تھا لیکن کم کم۔ کسی موقعہ پر اس کا فون یا میسیج آ جاتا۔ کبھی میں کر لیتی۔ وہ برمنگھم میں پیر جما رہی تھی۔ میں کچھ بھی کہہ کر اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سلطان بھی کب تک اسے ڈھونڈے گا۔ تھک کر چپ ہو جائے گا۔ لیکن یہ میری خام خیالی تھی۔ اس کا ایک اور میسیج آیا۔

” مجھے اپنے بیٹے سے ملنا ہے۔ نگہت کہاں ہے؟ کہاں گم ہو گئی ہے؟ پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ درج کراؤں؟“

اب میں سچ مچ گھبرا گئی۔ وہ سالار کا باپ ہے، جاننے کا حق رکھتا ہے اس کا بچہ کہاں ہے اور کیسا ہے کوئی وکیل کر کے کیس بنا سکتا ہے اور مجھے ایک بار پھر پولیس اور عدالت میں اپنے بیانات دینے ہوں گے۔ سچ بتانا ہو گا۔ میرا دل گھبرانے لگا۔ معاملہ یہاں تک نہیں جانا چاہیے۔

کرسمس نزدیک تھی۔ نگہت ہر سال اس موقعہ پر یہاں آتی ہے۔ سلطان کو بمشکل ٹالا کہ کچھ دن صبر کر لے میں تلاش کر رہی ہوں نگہت کو۔ پتہ چل جائے گا تو اسے بتا دوں گی۔

نومبر کے شروع میں نگہت کا فون آیا۔
”باجی آپ سے ضروری بات کرنی ہے“ میرا اندر کا سانس اندر ہی رہ گیا۔
” ہاں بولو“
” میں واپس آنے کا سوچ رہی ہوں۔ “
” کیوں؟ کیا ہوا؟“ ۔ میں گھبرا گئی۔

” یہاں زندگی بہت سخت ہے۔ روز دس گھنٹے کام کرتی ہوں۔ ویک اینڈ پر بھی کام ہوتا ہے۔ سالار کو وقت نہیں دے پاتی۔ نرسری میں اس کا سارا دن گزرتا ہے۔ اب وہ صرف انگریزی بولتا ہے۔ میری بات تو وہ سمجھتا بھی نہیں ٹھیک سے“ ۔ وہ اداس ہو گئی۔

پھر اس نے اپنا پورا پلان مجھے بتایا۔ اپنا بڑا فلیٹ خالی کروا کر وہاں وہ خود رہے گی۔ چھوٹا کرائے پر دے گی۔ ایک دکان لے کر اپنا بیوٹی پارلر کھولے گی۔ برمنگھم میں اس نے کئی بیوٹی کورسز بھی کیے اور ڈپلوما بھی لیا۔

”باجی میں وہاں آ کر سکون سے کام کروں گی۔ یہاں کی زندگی بہت بزی ہے۔ لوگ بھی مصروف ہیں۔ میرے کوئی اچھے دوست بھی نہیں بن سکے۔ “

”دوست تو تمہارے یہاں بھی نہیں ہیں نگہت“

” آپ تو ہیں نا۔ ’وہ لاڈ سے بولی۔“ آپ دنیا میں میری سب سے اچھی اور سچی دوست ہیں۔ ”مجھے ندامت سی ہونے لگی۔

وہ کرسمس سے ہفتہ بھر پہلے آ گئی۔ آتے ہی کرسمس منانے کی تیاری شروع کردی۔ میں ملنے گئی تو وہ سالار کے ساتھ مل کر کرسمس ٹری سجا رہی تھی۔

سالار دوڑ کر میرے پاس آیا ”ہیلو میم۔ ہاؤ آر یو؟“ مجھے اس پر بے تحاشا پیار آیا۔
”آئی ایم فائن۔ ہاؤ آر یو سویٹ ہارٹ؟“
”ویری ویل تھینک یو“
وہ ہنستا ہوا پورے کمرے میں گھوم رہا تھا۔

” دیکھیں نا سالار کو پورا انگریز بن گیا ہے۔ اسے اب یہیں رہنا چاہیے اپنے ملک میں اپنی زبان اپنے رواج سیکھے۔ اسی لیے میں نے واپس آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔“ ۔

ناروے اسے اپنا وطن لگ رہا ہے۔ اور مجھے آئندہ کے اندیشے گڑبڑا رہے تھے۔

” میں نے کرائے داروں کو گھر خالی کرنے کو کہہ دیا ہے۔ پھر آؤں گی اور کوئی دکان دیکھوں گی۔ یہاں آپ بھی میرے ساتھ ہوں گی مجھے بہت سہارا ہے آپ کا۔ یو کے میں زندگی مشکل ہے۔ انگریزی مجھے آتی نہیں۔ کام تو کر لیتی ہوں، زیادہ تر پاکستانی انڈین کسٹمر ہوتی ہیں لیکن وہ سب بھی انگریزی ہی بولتی ہیں۔ کوئی سرکاری خط آتا ہے تو کسی کی منتیں ترلے کرنا پڑتی ہیں کہ پڑھ کے سمجھا دے۔ میں واپس آنا چاہتی ہوں۔ خوش رہنا چاہتی ہوں“

وہ اتنی پرجوش اور خوش تھی کہ مجھے سلطان کے بارے بتانے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ لیکن بتانا ضروری تھا۔

”سلطان آیا ہوا ہے۔ مجھ سے بھی ملا۔ تمہیں ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ سالار سے ملنا چاہتا ہے“ میں نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا۔

اس کے ہنستے مسکراتے سرخ چہرے پر زردی چھا گئی۔
”سلطان؟ وہ یہاں ہے؟“ مدھم آواز میں اس نے پوچھا۔
” ہاں۔ اس کا ویزا لگ گیا ہے۔ کام بھی مل گیا ہے۔“
” وہ چاہتا کیا ہے؟“
” اپنے بیٹے سے ملنا چاہتا ہے“

وہ کچھ دیر سوچ میں ڈوبی رہی۔ پھر سنبھل کر بولی ”ٹھیک ہے باجی۔ وہ باپ ہے اس کا حق ہے۔ سالار بھی پوچھتا رہتا ہے کہ اس کے ڈیڈی کیوں نہیں ہیں، کہاں ہیں۔ میں سلطان سے بات کروں گی“

” دیکھو سمجھداری سے رہنا۔ اسے دشمن مت بنا لینا“ ۔

”آپ فکر مت کریں باجی۔ زندگی نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ اب میں اتنی بے وقوف نہیں ہوں جتنی تھی۔ اپنے مسئلے خود ہی حل کروں گی۔ آپ کو تنگ نہیں کروں گی“۔ وہ بڑے اعتماد سے بات کر رہی تھی۔ میں نے اطمینان کا ایک لمبا سانس لیا اور سلطان کا نمبر اسے دے دیا۔

کچھ دن بعد اس نے مجھے فون پر بتا یا۔

” سالار کو پارک لے گئی تھی سلطان کو بھی وہیں بلا لیا۔ بہت خوش ہوا سالار سے مل کر۔ بہت پیار کیا اسے۔ ایک کھلونا بھالو بھی اس کے لیے لایا۔ میں نے سالار کو بتایا یہ تمہارے ڈیڈی ہیں۔ لیکن باجی دونوں میں کنکشن نہیں بن سکا۔ سلطان کو نہ انگریزی آتی ہے نہ نارویجین۔ اور سالار اردو سمجھ تو لیتا ہے بولنا نہیں آتا اسے۔ وہ آپس میں بات بھی نہ کر سکے۔“

”چلو کوئی بات نہیں۔ محبت کی اپنی بھی ایک زبان ہوتی ہے اور بچے یہ زبان خوب سمجھتے ہیں“ ۔

” میں کرسمس کے بعد برمنگھم جا رہی ہوں۔ دو تین ماہ میں سب سمیٹ کر واپس آ جاؤں گی۔ میں نے سلطان کو سمجھا دیا ہے کہ وہ آپ کو تنگ نہ کرے۔ مجھ سے ہی رابطہ رکھے۔ “

نگہت کے کرائے داروں نے گھر خالی کر دیا اس کی صفائی کروا کر چابیاں میرے حوالے کیں۔ نگہت برمنگھم سے وائنڈ اپ کر کے واپس آ گئی۔ وہ خوش بھی تھی اور کچھ کچھ خائف بھی۔

نگہت سالار کو سلطان سے ملانے لے جاتی۔ باپ بیٹا کچھ وقت ساتھ گزارتے۔ سلطان کسی پاکستانی پیتزا شاپ پر کام کر رہا تھا۔ نگہت اپنے کام کر رہی تھی۔ چھوٹا فلیٹ کرائے پر دیا۔ خود بڑے فلیٹ میں شفٹ ہو گئی۔ بیوٹی سیلون کے لیے جگہ تلاش کر رہی تھی۔ سالار کنڈر گارٹن میں تھا۔ وہ مجھے بتاتی رہتی کہ کیا کر رہی ہے۔ اور زندگی میں کیا ہو رہا ہے۔ ہفتے میں ایک بار سالار کو سلطان سے ملانے لے جاتی۔ ایک دن فون کیا تو کچھ گھبرائی ہوئی سی تھی۔

” کل سلطان کو سالار سے ملانے لے گئی تھی۔ ہم میکڈونلڈ گئے۔ میں نے دونوں کی ویڈیو بنائی۔ گھر آ کر دیکھی اور غور سے سنی۔ وہ سالار سے کہہ رہا تھا“ ڈیڈی کے ساتھ پاکستان چلو گے؟ جہاز میں بیٹھ کر؟ ہم وہاں بڑے مزے کریں گے۔ وہاں دادی ماں بھی ہیں اور تمہارے بہت سارے کزنز بھی۔ باجی یہ سن کر تو میری سانس ہی بند ہو گئی۔ کہیں وہ اسے اغوا نہ کر لے ”۔ اس نے مجھے بھی ویڈیو بھیجی، مجھے بھی تشویش ہوئی۔

اس بات کو ہفتہ بھی نہ ہوا تھا کہ اس کا فون آیا۔
”باجی سلطان واپس چلا گیا“
” ارے کیسے؟ کیوں؟“

اس نے تفصیل بتائی کہ پولیس نے سلطان کو گرفتار کیا۔ سلطان کا ویزا ایکسپائر ہو چکا تھا وہ چھپ کر کسی دوست کے گھر رہ رہا تھا۔ ورک پرمٹ بھی نہیں تھا اس کے پاس۔ غیر قانونی طور پر کام کر رہا تھا۔ کسی نے مخبری کردی اور وہ پکڑا گیا۔ پولیس نے اس کا پاسپورٹ قبضے میں کیا۔ ویزا کینسل کر کے اسے فوری ڈی پورٹ کر دیا۔ کچھ سال کی پابندی بھی لگ گئی ناروے آنے پر۔

” اوہ۔ چلو اب تو تمہیں اطمینان ہو گیا۔“
”ہاں اطمینان تو ہو گیا“
” مخبری کس نے کی ہوگی؟“
” باجی چھوڑیں نا کسی نے بھی کی۔ بھلا تو میرا ہو گیا نا“ وہ عرصے بعد کھل کر ہنسی۔

نگہت کی ایک بار پھر نئی زندگی شروع ہو گئی۔ بیوٹی سیلون دھیرے دھیرے چل نکلا۔ اگلے سال سالار اسکول شروع کرے گا۔ ندیم ڈنمارک چلا گیا وہاں ایک تھیٹر میں میک اپ آرٹسٹ کا جاب مل گیا۔ فضل کے رشتے دار اسے کبھی کبھار ٹکرا جاتے ہیں کوئی دل دکھانے والی بات بھی کہہ دیتے ہیں لیکن اب نگہت کو ان باتوں کی پرواہ نہیں رہی۔ وہ اپنی زندگی میں مگن ہے۔ ہم اکثر ملتے ہیں لیکن اب کوئی ”ضروری“ بات نہیں ہوتی۔ خدا کرے سب ایسا ہی رہے۔ اور ہم سب ہنسی خوشی رہنے لگیں۔ کیا ایسا ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).