جماعت اسلامی اور قومی فریضہ


ہماری سیاسی تاریخ کی اس حقیقت سے بہت ہی کم افراد واقف ہیں کہ جب گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی جو کہ دستور ساز اسمبلی تھی، کو توڑا تو ملک میں محمد علی بوگرہ کی حکومت تھی۔ اس اسمبلی کو توڑنے کی وجوہات میں قرارداد مقاصد کو دستور میں شامل کر نا بھی ایک وجہ تھی۔ قرارداد مقاصد منظور ہونے کے بعد دستور کے لئے بنیادی اصول مرتب کر نے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس کمیٹی نے 1950 میں جو رپورٹ پیش کی وہ قرارداد مقاصد کے بالکل برعکس تھی اور یہ ایک سیکولر طرز حکومت اور دستوری خاکے پر مبنی تھی۔ رپورٹ جمہوری اور وفاقی نقطہ نظر کے بھی منافی تھی۔ رپورٹ کے آنے کے بعد مولانا مودودی نے بالخصوص شدید احتجاج کیا چنانچہ حکومت نے اپنی رپورٹ واپس لے لی۔ نئی کمیٹی بنی مگر بے سودی رہی۔

لیاقت علی خان کے قتل کے بعد غلام محمد گورنر جنرل بن چکے تھے خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم تھے ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور مشرقی پاکستان کے ارکان اسمبلی کی اکثریت سیکولر دستور کے خلاف تھی۔ وہ قرارداد مقاصد کے مطابق دستور کے خواہاں تھے۔ ملک میں سیکولر نظریات کے حامل افراد اور با اثر گروہ نے بھی اپنا دباؤ بڑھانے کی کوشش کی۔ اسی دور ان کشیدگی بڑھتی چلی گئی اور نئی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومت پر کنٹرول کر نے والے طاقتور سیکولر خیالات کے حامل افراد نے فسادات شروع اور لاہور کی حدود میں پہلی بار مارشل لاء کا نفاذ عمل میں آیا اور یہ معاملہ قادیانی مسئلہ بنا اور مولانا مودودی کو قادیانی مسئلہ پمفلٹ لکھنے پر سزائے موت کی سزا سنائی گئی۔

عالمگیر رد عمل نے حکومت کو مجبور کیا کہ مولانا مودودی کو سزائے موت سے روکے اور ان کو چودہ سال قید کی پھر سزا دی گئی۔ فضا مکدر گورنر جنرل پاکستان کو ماڈرن ملک بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے امریکہ میں پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو بلوا کر وزیراعظم بنا دیا۔ بوگرہ نے مجبور ہو کر خواجہ ناظم الدین ہی کی رپورٹ پر دستور سازی کا کام مکمل کروایا اور اعلان کیا کہ 25 دسمبر 1954 کو دستور نافذ العمل ہو جائے گا۔ گورنر جنرل نے 24 اکتوبر 1954 کو آئین ساز اسمبلی ہی توڑ دی اور ساتھ ہی صوبائی حکومتوں کو بھی ختم کر دیا گویا سارے ملک میں گورنر جنرل فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بن گیا۔

جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو جماعت اسلامی کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل اور بعد ازاں امیر میاں طفیل محمد نے مولانا امین احسن اصلاحی جو اس وقت جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر تھے کے ساتھ مشورہ کیا کہ صورتحال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ ہمیں اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے لہذا انہوں نے گورنر جنرل کے اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر نے کا اعلان کر دیا۔ ان کے نزدیک اسمبلی کا توڑنا، دستور کا نافذ نہ ہونا پاکستان کو دین کی راہ سے ہٹا کر لادینیت اور آمریت کی طرف لے جانے کا اقدام تھا بلکہ یہ جمہوری اور بیوروکریٹک قوتوں کے درمیان جنگ کا آغاز تھا۔

اسمبلی توڑے جانے کے باوجود مولانا تمیز الدین جو کہ خود لا گریجویٹ تھے سپیکر ہی تھے اور ان کی نامزدگی قائد اعظم محمد علی جناح نے خود کی تھی۔ میاں طفیل محمد کے مشاہدات اور تحریر کے مطابق مسلم لیگ کے کسی رہنما کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ اس بارے میں کوئی عملی اقدام کرے۔ میاں طفیل محمد کے بقول ان کے علم میں تھا کہ مولوی تمیز الدین مقدمہ کے اخراجات برداشت نہ کر سکیں گے لہذا انہوں نے ایک عزیز ٹھیکیدار عبد الرشید جو اچھرہ لاہور میں ہی رہتے تھے، سے اس بارے بات کی اور انہوں نے بلا تامل پانچ ہزار روپے کی خطیر رقم دے دی۔

انہوں نے امیر جماعت اسلامی کی اجازت سے کراچی جا کر کلفٹن میں مولوی تمیز الدین کے سناٹا شدہ سر کاری رہائش گاہ میں ان سے ملاقات کی۔ مولوی تمیز الدین خوفزدہ تھے اور یہ ان ہر دو حضرات کی پہلی ملاقات تھی۔ مولوی تمیز الدین نے کہا کہ مجھے تو انہوں نے قید کر رکھا ہے اس صورت میں کیا کر سکتا ہوں اور میرے پاس مقدمہ کے اخراجات بھی نہیں اور مسلم لیگی صدر اقتدار چاہتے ہیں۔ بقول میاں طفیل محمد کے انہوں نے رقم مولوی صاحب کے حوالہ کی اور رات گئے مسلم لیگ کے سیکرٹری منظر عالم کے پاس گئے۔ انہوں نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا بعد ازاں مولانا ظفر انصاری، ڈاکٹر الٰہی علوی، قاضی شریح الدین اور سر دار عبد الرب نشتر سے ملے جو اس وقت وکالت شروع کر چکے تھے۔

مولوی تمیز الدین برقع پہن کر عدالت میں اپنی درخواست جمع کروانے میں کامیاب ہوئے۔ 9 فروری 1955 کو سندھ ہائی کورٹ کے فل بیچ نے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا۔ وفاقی حکومت نے فیڈرل کورٹ جانے کا فیصلہ اور ٹھیکہ دار عبدالرشید نے پھر پانچ ہزار روپے عطیہ دیا تاہم قائد اعظم کے دست راست کہلانے والے ممتاز مسلم لیگی آئی آئی چندریگر نے بغیر فیس مقدمہ جو در حقیقت پاکستان اور جمہوریت کا تھا لڑنے سے انکار کر دیا اور یوں جسٹس منیر ان کے ساتھی، آمریت، مضبوط بیورو کریسی، غیر قانونی اقدامات اور فوجی اقتدار کی جیت ہوئی جبکہ جمہوریت، وفاق، وحدت پاکستان، قانون کی حکمرانی ہار گئی اور آج تک یہ بازی ہاری ہوئی بازی ہے۔

قانون کی حکمرانی کی ہاری بازی میں جماعت اسلامی نے جیت کے لئے جو اقدامات اس وقت کیے آج ان کی ضرورت بہت ہی زیادہ ہے جماعت اسلامی نے مسلم لیگ اور تحریک انصاف دونوں کے ساتھ مل کر حکومتیں بنائی ہیں اور اس وقت وہ ہر دو فریقین کے ساتھ کسی بھی قسم کا لین دین نہ رکھے ہوئے ہیں ایسے ہی جبکہ مقتدر حلقے بھی جماعت اسلامی کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور آصف علی زر داری منصورہ بھی جاتے ہیں۔ گویا ہر جماعت اور طبقہ کے ساتھ جماعت کے تعلقات ہیں بھی اور نہیں بھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی سلامتی، بقاء، خود انحصاری، امن وامان کو برقرار رکھنے اور صورتحال کو نارمل کر نے کے لئے کوئی دوسرا میدان میں آ ہی نہیں سکتا اور ہر دو فریقین کے درمیان کشیدگی اس قدر زیادہ ہے کہ کمی کا امکان نہیں جبکہ جماعت اسلامی یہ کردار ادا کر سکتی ہے۔

فضا کی کشیدگی کم ہو جائے، ملک کی معیشت کو مزید تباہی اور غیر ملکی ایجنڈا سے دور کر نے کے لئے یہ ایک دینی فریضہ بھی ہے، سیاسی ضرورت بھی ہے اور حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے تو کیوں نہ جماعت اسلامی ایک مثبت کر دار پھر ادا کر کے ملک کے عوام میں اطمینان پیدا کرے۔ سراج الحق، عمران خان، شہباز شریف، آصف علی زار داری، مولانا فضل الرحمن وغیرہ کے ساتھ بے تکلفی کے ساتھ سنجیدہ قومی وسائل پر بات کر سکتے ہیں جبکہ دیگر ادارے بھی ان کا احترام کرتے ہیں لہذا وقت کی آواز اور ضرورت کے تحت یہ قومی فریضہ انجام دینے میں کوئی بار نہیں ہونی چاہیے۔

عظیم چوہدری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عظیم چوہدری

عظیم چوہدری پچھلے بیالیس سالوں سے صحافت اور سیاست میں بیک وقت مصروف عمل ہیں ان سے رابطہ ma.chaudhary@hotmail.com پر کیا جاسکتا ہے

azeem-chaudhary has 39 posts and counting.See all posts by azeem-chaudhary

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments