درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا


کپتان لگ بھگ چار سال پہلے پاکستان کے وزیراعظم بنے تھے۔ کپتان سے پہلے پانچ سال مسلم لیگ نون اور اس سے پہلے اتنے ہی برس پیپلز پارٹی حکمران رہی تھی۔ مشرف نے اس سے پہلے سات برس نکال لئے تھے۔ یہ بجا کہ آج کی دنیا تحقیق اور ترقی کی دنیا ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں ہر روز کچھ نہ کچھ نیا ہوتا ہے کہ کروڑوں اذہان ہر لمحہ کچھ نیا پانے اور کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ اس بات سے البتہ انکار ممکن نہیں کہ جاسوسی کے حوالے سے سائبر دنیا میں جو کچھ 2018 میں یا اس کے بعد ممکن ہوا وہ کم و بیش اس سے قبل کے چار پانچ سالوں میں بھی ممکن تھا۔ ہاں کام آسان ضرور ہوا ہے لیکن جہاں تک کسی گھر یا مکان، بندے یا گروہ کی جاسوسی کی بات ہے، ایسا کرنا اگر زیادہ دور نہ بھی جائیں تو آج سے نو برس پہلے بھی ہو سکتا تھا اور ہوتا بھی تھا۔ پھر یہ پچھلے چار سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ پاکستان کے سب سے حساس ایوان میں ملک کے اعلی ترین سطح کے فیصلہ سازوں کی آپس کی گفتگو ریکارڈ ہوئی؟

اس کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ حد درجہ لاپروا اور بے احتیاط بندے کے ہاتھ میں ملک کے معاملات آ گئے تھے۔ مجھے معاف کریں لیکن یہ مفروضہ اپنانے میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا۔ آج تو یہ بات صرف مفروضہ ہے لیکن کل ہو سکتا ہے کہ یہ حقیقت بن جائے اور یہ ثابت ہو جائے کہ سیاسی جنگ جیتنے کے لئے جاتے جاتے ایوان وزیراعظم کو مکمل طور پر بگ کر لیا گیا ہو اور جب یہ سب کچھ ہو گیا ہو تو اس کی زد میں خود ایسا کرنے والے بھی آ گئے ہوں۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ آئندہ منظر عام پر آنے والی آڈیوز یا ویڈیوز کتنے عرصے پر محیط ہیں؟ ابھی تک آنے والی آڈیوز تو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد کی ہیں لیکن سیکورٹی ادارے بہ آسانی معلوم کر سکتے ہیں کہ جاسوسی کے اس سلسلے کا آغاز کب ہوا؟

پاکستان تحریک انصاف نے سوشل میڈیا یا زیادہ وسیع معنوں میں سائبر دنیا کا جو استعمال کیا وہ آج تک پاکستان میں کوئی جماعت نہیں کر سکی ہے بلکہ اس کے قریب بھی نہیں پہنچی ہے۔ جب کسی جماعت کو اپنا وجود منوانے کے لئے سب سے زیادہ زور سائبر ورلڈ پر ہی صرف کرنا ہو تو لازمی طور پر اس میدان کے ماہر شہسوار ہی اس میں گھوڑے دوڑائیں گے۔ اس لئے یہ بات بھی قرین از قیاس ہے کہ سائبر دنیا کے ماہر لوگ جب تحریک انصاف میں اتنی اہمیت حاصل کر گئے ہوں گے تو ان کو حساس مقامات تک بھی رسائی ملی ہوگی، اعلی ترین عہدیداران کے فون نمبرز بھی ان کی دسترس میں ہوں گے، ان کے سیل فونز بھی ان کے ہاتھوں میں آئے ہوں گے، ایوان وزیراعظم اور دیگر اعلی ترین حکومتی دفاتر کی سائبر سیکورٹی سے جڑی باریکیاں بھی ان کے ہاتھ لگی ہوں گی، اپنے موبائلز فون، کمپیوٹرز اور دیگر آلات کو ان اہم مقامات کے اندر پہنچانا بھی ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں رہا ہو گا۔ اس طرح ان لوگوں کے لئے نہایت آئیڈیل حالات بنے ہوں گے جس کا فائدہ ان تخریبی ذہنوں نے ضرور اٹھایا ہو گا اور پاکستان تحریک انصاف کے لئے ہر جائز و ناجائز کام کرنے والے ان افراد نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے بلکہ غوطے کھانے کا فیصلہ کیا ہو گا۔

ان تخریب کاروں کے کمالات کے نمونے عام لوگوں نے فیسبک اور ٹویٹر ہر خوب دیکھے ہیں جہاں انہوں نے اپنے مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز کی مخالفت میں بدتہذیبی اور بد تمیزی کا وہ بازار گرم کیا کہ ہر شریف بندہ کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوا۔ سوشل میڈیا پر وہ آڈیو پوری دنیا نے سنی جس میں مبینہ طور پر بشری بی بی ایسے ہی ایک تخریب کار سے کہتی سنائی دیتی ہے کہ بس آپ نے سب کو غداری کے ساتھ لنک کرنا ہے۔ یادش بخیر جب مریم نواز نے چند ویڈیوز کا تذکرہ کیا تو پی ٹی آئی کے سوشل میڈیائی مجاہد بجائے اس کے کہ ان ویڈیوز کی حقیقت پر بات کرتے، مریم نواز کی کردار کشی پر لگ گئے اور ”ٹوٹوں“ کا وہ شور بلند کیا کہ مریم نواز سمیت پوری مسلم لیگ نون کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ جب ملک کی اعلی ترین انٹیلیجنس ایجنسی ایک جماعت کا ہراول دستہ بن بیٹھی تو پھر کس کو پڑی تھی کہ ایوان وزیراعظم اور دیگر حساس مقامات کی سیکورٹی پر نظر رکھتے۔ سینیٹ میں ووٹنگ کے دوران اندر نصب کیمروں کا معاملہ سب کو یاد ہو گا۔ جب محافظ خود ہی حملہ آور ہو جائیں تو دشمنوں کو کون روک سکتا ہے؟ جب سے آڈیوز کا یہ سلسلہ شروع ہوا ہے، مجھے عمران خان، آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کی وہ میٹنگز یاد آ رہی ہیں جو اندر کمرے کے بجائے باہر ایوان وزیراعظم کے سبزہ زار میں ہوتی تھیں، میرا گمان ہے کہ ان تینوں میں سے دو یا کم از کم ایک بندے کو پتہ ضرور تھا کہ درون خانہ کیا کیا ہنگامے برپا کرنے کی تیاری ہو چکی ہے۔

جو بھی ہے ان آڈیوز سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستانی دورے پر آنے والے وفود اور سربراہان اب بلا خوف و خطر پر اعتماد طریقے سے ہمارے سربراہان سے بات چیت کر سکیں گے۔ اللہ آگے خیر کرے، اگر سیکورٹی سے متعلق ہمارے بڑوں کے آپس کی یا بیرونی سربراہان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کی گفتگو منظر عام پر آئی تو کیا ہو گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments