خواب نگر، سیلاب متاثرین اور شہید بھٹو


فجر کی اذان کی آواز فضا میں گونجنے سے پہلے میں اپنی گنہگار آنکھوں سے کیا دیکھتا ہوں کہ،

رات کے اندھیرے میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے دو بیٹوں سمیت متاثرین کے کیمپ میں پکا ہوا کھانا اور سامان دیتے ہوئے دیکھا، جبکہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو گھروں میں خواتین کی مدد کرتے ہوئے نظر آئی،

میں نے سوال کیا محترمہ بی بی آپ یہاں کہا کر رہی ہیں؟
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے شائستہ انداز میں جواب دیا آپ کو میرے بارے میں کس نے بتایا؟
اب میرا آنے کا کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے!
میں نے کہا بی بی آپ کو متاثرین کے ہاں مشکل وقت میں دیکھ کر حیرانی ہو رہی ہے، اور خوشی بھی!

بی بی نے کہا کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کے پاس خود چل کر آئے ہیں، متاثرین کے آنسوؤں، ان کے دکھ درد ہمیں یہاں آنے پر مجبور کر رہے تھے، !

کیا کریں، اگر کوئی آگے نہیں بڑھتا ہم عوام کو تنہا تو نہیں چھوڑ سکتے! بی بی نے نرم لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا!

بی بی نے مجھے ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ کسی صحافی کو بھی نہی بتانا کہ میں یہاں آئی ہوں!
میں نے دھیمے آواز میں کہا بی بی باہر تو آپ کے پارٹی قائدین بھی کھڑے ہیں کیا ان کو بھی روکا جائے؟
ان کی خواہش ہے کہ وہ آپ سے ملاقات کریں!
محترمہ نے کہا کہ اگر وہ متاثرین کے پاس آتے تو مجھے کیوں آنا پڑا؟
بی بی کا جواب سن کر میں خاموش ہو گیا!
میں نے جواب دیا بی بی آپ کے جانے کے بعد آپ کے پارٹی والوں نے تیور ہی بدل دیے ہیں!
میں نے کچھ رہنماؤں کے نام لینا شروع کیے تو بی بی نے کہا کہ آپ ان کا نام میرے سامنے مت لیں!
بی بی نے کہا کہ میں صرف متاثر خواتین سے ملنے آئی ہوں اور واپسی میں آپ کے گھر بھی چلنا ہے!
ہم نے بی بی کو گھمایا، نقصان دکھایا اور تفصیلات کے ساتھ آگاہ کیا، !
بارشوں میں تباہ شدہ مکانات دیکھ کر افسردہ ہو گئیں!
بی بی جب ہمارے گھر (باغ فتح علی شاہ) آئیں تو باہر بڑی تعداد میں میڈیا مین اور پیپلز پارٹی کے رہنما کھڑے تھے، مگر مجال ہے کہ بی بی کسی سے ملیں یا ان کی شکل ہی دیکھنا گوارا کی!
بی بی ہمارے گھر تشریف لائی، گفتگو کی برسات متاثرین کے متعلق معلومات لی اور واپس روانہ ہوئی!

کندھرا اور گرد نواح کے علاقوں کو دیکھ کر پوچھا کہ نہ بجلی ہے نہ گیس نہ پینے کا صاف پانی نہ ہی روڈ راستے اور نہ ہی دیگر سہولیات؟

میں نے جواب دیا کہ بی بی یہاں صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے 40 فیصد لوگوں میں ہیپاٹائٹس ہے اور دیگر امراض میں مبتلا ہیں!

میرے ساتھ پہلے سے موجود صحافی دوست ناراض ہو گئے کہ آپ نے بی بی سے اکیلے بات کی اور اپنے گھر لے گئے، یہ بات درست نہیں ہے، !

ہم مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے واپس سکھر تشریف لائے، محترمہ بے نظیر بھٹو ہشاش بشاش نظر آ رہی تھی اور پرسکون تھی، خاموش بھی تھی! بی بی نے شاید وہ کپڑے پہنے ہوئے تھے جب وہ راولپنڈی جلسے میں شریک تھی اور جلسے کے بعد جاتے ہوئے شہید ہو گئی تھی۔

سکھر میں واپس پہنچے تو کیا دیکھتا ہوں کہ سٹی بائے پاس کے قریب روڈ کنارے کھلے آسمان تلے بارش متاثرین میں شہید ذوالفقار علی بھٹو اپنے دونوں بیٹوں مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے ہمراہ بارش سیلاب متاثرین میں امدادی سامان، پکا ہوا کھانا، اور دیگر اشیاء تقسیم کر رہے تھے۔

جیسے وہ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔

اپنی لخت جگر بے نظیر بھٹو کو دیکھتے ہوئے بولے کہ آپ خواتین سے معلوم کریں اگر کسی کو کوئی ضرورت ہو تو!

میں نے دیکھتے ہی موبائل فون سے شہید بھٹو کی فوٹیج بنانا شروع کردی! شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ آپ اپنا موبائل بند کریں اور ہمارے ساتھ کام میں لگ جائیں! شہید ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے دونوں بیٹوں کے کپڑے پرانے میلے تھے، افسردہ لگ رہے تھے جیسے ان کے گھر تباہ ہوئے تھے!

میں نے کہا بھٹو صاحب آپ اپنے خاندان کے ہمراہ اس اندھیری رات میں متاثرین کے کیمپوں میں کام کر رہے ہیں، آپ کے پارٹی والے کہاں ہیں؟

شہید ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ باتیں چھوڑیں کام پر توجہ دیں! مجھے کہا کہ اپنی موبائل بند کر کے رکھیں یا واپس چلے جائیں، ہمیں بہت کام کرنا ہے!
اب تو صورتحال پہلے سے کافی بہتر ہے، آپ پہلے کہاں تھے نظر نہیں آئے؟ میں نے ڈرتے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے جواب دیا کہ آپ ہمیں آج سکھر میں دیکھ رہے ہو!
ہم تو متاثرین کے ساتھ پہلے دن سے میدان عمل میں تھے!
ہم قمبر شہداد کوٹ تھے پھر کے این شاہ چلے گئے۔
سہون سے ہوتے ہوئے میرپور خاص، سانگھڑ، نوشہرہ فیروز سے ہوتے ہوئے خیرپور اور اب سکھر میں پہنچے ہیں!
شہید ذوالفقار علی بھٹو کے کپڑے جیسے پرانے پھٹے ہوئے ہوں،
میں نے کہا بھٹو صاحب سندھ حکومت بھی تو پہلے دن سے متاثرین کی بحالی امداد کر رہی ہے!
بھٹو صاحب جذبات میں آ کر بولے آپ کس کا نام لے رہے ہو، انہوں نے تو میرے سندھ کو برباد کیا ہے!

میں نے بھٹو صاحب آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی، آپ کی پارٹی پیپلز پارٹی سندھ حکومت نے متاثرین کی امداد بحالی کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے!

مسٹر بھٹو صاحب بولے کہ انہوں نے میرے دستور منشور نعرے روٹی کپڑا اور مکان کو جوتی کے نوک پر رکھ دیا ہے!

میں نے دوبارہ کہا کہ سندھ کے حکمرانوں نے اربوں روپے کا راشن پکا ہوا کھانا اور میٹھا صاف پانی فراہم کر دیا ہے، پھر آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟

مسٹر بھٹو نے کہا کہ مجھے کہیں بھی حکومتی امداد سامان راشن نظر نہیں آیا،
مسٹر بھٹو نے کہا کہ مجھے مختلف مقامات پر سماجی تنظیمیں نظر آئی جو باقاعدہ کام کر رہی تھی!
انھوں نے فرمایا کہ میرا سندھ ہر طرف کربلا کا منظر پیش کر رہا ہے!
انہوں نے مجھے کہا کہ آپ شاید گئے نہی ہیں متاثر علاقوں میں؟

میں نے کہا کہ میں سکھر سے خیرپور تک گیا ہوں، لیکن میڈیا سوشل میڈیا پر دیکھا ہے کہ نقصان بہت ہوا ہے، !

وہ بولے آپ کو کیا بتاؤں ہم نے کیسے کیسے منظر دیکھے ہیں،

دودھ بسکٹ نہ ملنے پر روتے ہوئے بچوں کو دیکھا ہے، اداس مائیں دیکھی ہیں، آگے بولتے رہے کہ سندھ میں ہزاروں نہیں لاکھوں افراد کو بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے دیکھا ہے!

ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے اگر محکمہ آبپاشی پر کام کیا ہوا ہوتا تو سندھ نہ ڈوبتا اگر شہروں میں بلدیاتی نظام کے تحت ڈرینیج نظام بہتر کیا ہوا ہوتا تو شہروں میں کشتیاں نہ چلتی!

میں نے جواب دیا کہ بھٹو صاحب آپ بالکل بجا فرما رہے ہیں، !
سندھ میں متاثرین کے لئے اس وقت تک 2 سو کے قریب بحری اور ہوائی جہاز سامان کے بھر کے آئے ہیں، ۔
مگر مجال ہے کہ وہ امداد متاثرین کو پہنچ گئی ہو! علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے اب تک لاکھوں افراد ملیریا، ڈینگی، گیسٹرو، انفیکشن بخار میں مبتلا ہیں۔
بھٹو صاحب نے کہا آپ درست فرما رہے ہیں، ! مجھے تو بتایا گیا ہے کہ کروڑوں روپے کے بل بنا کر متاثرین کے نام پر غبن کیے جا رہے ہیں،
میں نے کہا بھٹو صاحب اگر ہم چاہیں تو متاثرین کے مسائل حل ہو سکتے ہیں! ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم تمام مسائل حل کر سکتے ہیں، مگر اس کے لئے سچائی ایمانداری محنت لگن کی ضرورت ہوتی ہے! جو کہ موجودہ حکمرانوں میں نظر نہی آتی، ! بھٹو نے کہا کہ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ جس پارٹی کی بنیاد میں نے غریب عوام کی فلاح بہبود روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کے طور پر رکھی تھی، اب وہ پارٹی ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکی ہے، میں نے خود دیکھا بھی ہے اور متاثرین سے سنا بھی ہے کہ سندھ میں گزشتہ دہائیوں سے لوٹ مار کا بازار گرم ہے، تعلیم تباہ صحت تباہ ہے، انفرا اسٹرکچر تباہ ہے،

وہ مزید بولے اگر کوئی ایک چیز درست ہے تو وہ حکمرانوں سیاستدانوں کے اثاثے، بینک بیلنس گاڑیاں دولت ہے جو سب نے غریبوں کے نام پر بنائی گئی ہے۔

میں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ بارشیں کسی بڑی آفات سے کم نہیں ہیں، !
جواب دیا کہ شاید آپ 70ء کی دہائی میں پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، تب بھی سیلاب آیا تھا، ہم کس طرح اس وقت حالات سے نمٹنے میں کامیاب ہو گئے تھے، سوچ بھی نہیں سکتے، اس وقت نہ میڈیا ہوتا تھا نہ سوشل میڈیا نہ اتنے ذرائع ابلاغ ہوتے تھے۔

مسٹر بھٹو نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ دنیا میں قدرتی آفات سیلاب زلزلے واقعات ہوتے رہتے ہیں، قوموں پر مشکل وقت آتے ہیں مگر وہ اس طرح نہیں مقابلہ کرتے جس طرح ہمارے حکمران پارٹی والے کر رہے ہیں، !

میں نے پوچھا سر وہ کیسے، ؟

جواب دیا کہ ہمارے ہاں مچھر دانیاں، خیمے، راشن، سامان، امداد ہڑپ ہو رہی ہے، بھلا آپ بتائیں اس صورتحال میں دنیا ہماری مدد کیوں کرے گی؟ جب ان کو پتا چلے گا کہ ہمارا دیا ہوا سامان متاثرین تک نہیں پہنچ رہا ہے!
مسٹر بھٹو نے کہا کہ آگے سردیاں آنے والی ہیں لوگوں کے پاس رہنے کے لئے چھت نہی ہے۔ پانی نہ نکالنے کی وجہ سے گندم کی کاشت نہ ہو سکے گی، مجھے پریشانی ہے کہ میری قوم آگے مشکل حالات کا کس طرح مقابلہ کرے گی!

میں نے کہا مسٹر بھٹو آپ نے صحیح فرمایا یونیسیف اور یو این او نے خبردار کیا ہے کہ سندھ میں سوا کروڑ افراد بے یارو مددگار ہیں آگے سردیوں تک انہیں سہولیات علاج معالج فراہم نہی کیا گیا تو لاکھوں افراد موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔

اتنے میں شاہنواز بھٹو نے آواز دی کہ سامان تقسیم ہو چکا ہے، ہمیں آگے شکارپور چلنا ہے۔
مسٹر بھٹو نے کہا کہ آپ ہمیں خبردار کرتے رہنا ہم پھر سکھر آئے تو آپ سے ضرور دوبارہ ملاقات کریں گے۔

میں وہاں سے سیدھا آفس پہنچا، ادارے اس بارے میں آگاہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ پاگل ہو گئے ہیں، بھٹو اور اس کا خاندان کب کا مر چکا ہے، یہ آپ کا وہم ہے۔

میں نے کہا مرا کوئی اور ہے، یہ موبائل دیکھیں فوٹیج دیکھیں، بھٹو کل بھی زندہ تھا آج بھی زندہ ہے، شاید اس کی پارٹی مر گئی ہوگی یا بھٹو کے جیالے مر گئے ہوں گے۔

فضا میں فجر کی اذانوں کی آواز گونجی، میری آنکھ کھلی، مسجد طرف چل پڑا، اور شہید بھٹو خاندان کے لئے دعائے مغفرت کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments