تاریخ ندوہ العلماء پر ایک طائرانہ نظر


تاریخ نویسی ایک ایسا فن ہے جس کے ساتھ انصاف کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تاریخ نویس کا ذاتی تجربہ، اسکا میلان اور لگاو، اس کی فکر اور آراء اکثروبیشتر تاریخ نویسی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ دنیا میں وہی تاریخ نویس قابل اعتماد مانے گئے ہیں جنھوں نے حتی الامکان ان سے بچتے ہوئے حقائق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
حال ہی میں ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صاحب کی ایک نئی کتاب (تاریخ ندوہ العلماء) شائع ہوئی ہے جو ہندوستان کے مشہور اسلامی درسگاہ دارالعلوم ندوہ العلماء کی تاریخ اور اسکی خدمات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صاحب ایک زود نویس قلمکاراور مصنف ہیں جن کا بنیادی موضوع حدیث رہا ہے۔ ہم ڈاکٹر صاحب کی اس کوشش کی ستائش کرتے ہیں کہ انھوں نے عالم عرب میں ندوہ کا تعارف کرانے کی پہل کی ہے، جس کی ضرورت بہت دنوں سے میں شدت سے محسوس کررہا تھا۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے اور اس میں بارہ سو اڑتالیس صفحات ہیں۔ کتاب پر سرسری نظر ڈالنے سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے دارالعلوم ندوہ العلماء کی ایک خوبصورت تصویر عربوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو انکی اپنے ادارہ سے لگاو، اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے والہانہ محبت اور اپنی مادر علمی کے تئیں فکر اور اس کے لئے کچھ کرنے کے نیک عزم کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ کتاب پندرہ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں تحریک ندوہ العلماء کا ذکر ہے۔ دوسرے باب میں دارالعلوم کی تاسیس سے لیکر مولانا محمد علی مونگیری تک کا عہد ہے۔ تیسرے باب میں مسیح الزمان شاہ جہاں پوری اور خلیل الرحمن سہارنپوری کے دور کا ذکرہے۔ چوتھے باب میں علامہ سید عبدالحی حسنی اور امیر سید علی حسن خان کے دور میں ندوہ کی ترقی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پانچویں باب ڈاکٹر عبدالعلی حسنی کے عہد پر مشتمل ہے، چھٹا باب مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے دور میں ندوہ کی ترقی کو پیش کرتا ہے تو ساتواں باب مولانا رابع حسنی ندوی کے دور میں ندوہ کی تعمیروترقی سے بحث کرتا ہے۔ آٹھویں باب میں ندوہ کے ڈپارٹمنٹ کا ذکر ہے تو نویں باب میں ندوہ کے اندر جاری نصاب اور درسی کتابوں کی تفصیل ہے۔ دسویں باب میں ندوہ سے شائع ہونے والے رسائل وجرائد پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس باب میں مصنف نے دارالمصنفین کے قیام اور اس کے کارناموں کامفصل ذکر کیا ہے، پھر مجلس تحقیقات ونشریات کا ذکر کیا ہے۔ تفصیل سے باور ہوتا ہے کہ دارالمصنفین بھی ندوہ اور اہل ندوہ کے کارناموں میں سے ایک ہے، حالانکہ دارالمصنفین کاقیام اس وقت عمل میں آیا جب علامہ شبلی ندوہ سے نکال دئے گئے، گرچہ وہ اس کو ندوہ میں قائم کرنا چاہتے تھے مگر اہل ندوہ نے اس خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا، اس بنیاد پر ندوہ کی تاریخ میں ندوہ کی خدمات اور کارناموں میں دارالمصنفین کا شمار کرنا انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ مجموعی طورپر جلد اول نے ندوہ کی تاریخ پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے تجربات، تاثرات اور ذاتی خیالات کا اظہار کیا ہے۔قاری کبھی کبھی کنفیوزہوجاتاہے کہ وہ ندوہ کی تاریخ پڑھ رہا ہے یا کسی شخصیت کی گراں قدرآپ بیتی۔ اگراپنے نجی معاملات سے صرف نظر کیا گیا ہوتا تو مناسب ہوتا۔

جہاں تک دوسری جلد کا تعلق ہے تو اس میں گیارہ سے لیکر پندرہویں باب تک درج ذیل عناوین ہیں:
گیارہواں باب۔ تالیف علماء الندوہ فی مختلف الموضوعات: اس میں ندوہ اوراہل ندوہ کی علمی اور تصنیفی خدمات کی تفصیل ہے۔ مصنف نے علامہ شبلی، حمید الدین فراہی، حسن خان ٹونکی اور ایسے دیگر علماء اور مصنفین کا ذکر کیا ہے اور انکی خدمات کو  ندوہ کی خدمات میں شمار کیا ہے جب کہ وہ ندوہ کے فارغین نہیں تھے۔ بعض نے ندوہ میں اپنی بیش بہا خدمات انجام دیں تو بعض نے صرف کچھ لکچر وغیرہ دیے، مگر انکی  خدمات کو اس ادارہ کی خدمات میں شمار کرنے سے قارئین کے ذہن میں یہ غلط فہمی پیدا ہونے کا اندیشہ ہے کہ یہ سب بھی ندوہ کے پروڈکٹ تھے اور ندوہ کے کارناموں میں انکی علمی خدمات بھی شامل ہے جو حقیقت  اور تاریخ نویسی کے اصول وضوابط کے خلاف ہے۔  جہاں تک ندوی فضلاء کی علمی خدمات کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام ندوی فضلاء کی تصنیفات کا احاطہ ایک کتاب میں کرنا بہت مشکل ہے۔ شاید اسی لئے مصنف نے بہت اختصار کے ساتھ مختلف موضوعات کے تحت کتابوں کا ایک تعارف پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو قابل تعریف ہے۔ مگر کتابوں کے تعارف میں کہیں بہت ہی اختصار تو کہیں بہت ہی طوالت سے کام لیا گیاہے۔ مثلا علامہ شبلی، علامہ سلیمان ندوی وغیرہ کی کتابوں کا تعارف مختصر ہے تو مولانا علی میاں ؒ اور مولانا رابع حسنی ندوی صاحب اور مولانا واضح رشید ندوی صاحب ؒ کی کتابوں کے تعارف پر تفصیل زیادہ ہے۔ اسی طرح مصنف نے اپنی کتابوں کا بھی بھرپور تعارف کرایا ہے۔ مثلا قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ جہاں جہاں مولانا واضح رشید ندوی صاحب کی تصنیفات کا ذکر ہے تو مصنف کے کئی کئی صفحے رقم کئے ہیں جو شاید انکے تعلق اور محبت کی غماز ہے، مگراس کے مقابلہ میں علامہ شبلی، علامہ سلیمان ندو ی وغیرہ کی کتابوں کے تعارف میں بہت اجمال سے کام لیا گیا ہے۔ حق تو یہ تھا کہ اکابر ندوہ کے علمی خدمات اور انکی کتابوں پر زیادہ روشنی ڈالی جاتی اور مراتب کے لحاظ سے تفصیل واجمال کا فیصلہ کیا جاتا۔ اسی طرح جب مصنف نے صفحہ 883 سے 907 تک سفرناموں کا ذکر کیا ہے تو اپنے تیرہ سفرناموں کی تفصیلی رپورٹ پیش کردی ہے، جب کہ کئی نامور ندوی فضلاء کے سفرنامے اس فہرست میں نہیں آسکے ہیں۔  ایک تاریخ نویس کے لئے یہ زیبا نہیں دیتا کہ وہ اپنی تاریخ میں اس نوعیت کی کوتاہی کرے۔ بہتر یہ ہوتا کہ سارے مصنفین کے تعارف کا ایک ہی خاکہ،ایک ہی طرز  اور ایک ہی معیار ہوتا جس کا فقدان اس کتاب میں محسوس ہوتا ہے۔
دوسری طرف اس کتاب میں بہت سے نامور ندوی فضلاء جیسے مولانا سلمان حسینی ندوی، مولانا سجاد نعمانی ندوی، مولانا محسن عثمانی ندوی اور دیگر ندویوں کی علمی خدمات اور تصنیفات وتالیفات کا بھی ذکر نہیں ملتا۔ حالانکہ ایسے ندوی فضلاء کی تصنیفات کا ذکر ہے جو کسی بھی طرح انکے معیار کے نہیں۔مثال کے طور پر مولانا وثیق ندوی، مولانا فرمان ندوی اور دیگر اپنے ہم عصر ندوی فضلاء کاسوانحی خاکہ دیا ہے مگرعالمی شہرت یافتہ چند ندوی فضلاء کا ذکر سرے سے غائب ہے، جو بھی ندوہ اور ندوی فضلاء سے واقف ہے اسکو یہ محسوس ہوگا کہ شاید تعصب کی وجہ سے ان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، جو فاضل عالمی شہرت یافتہ مصنف کی شخصیت پرزک پہونچانے کا کام کرسکتا ہے۔  افکار وخیالا ت کا اختلاف اپنی جگہ پر مگر جب تاریخ لکھی جاتی ہے تو اس میں اپنے معاصر اور حریف سبھی کی خدمات کا ذکر ضروری ہوجاتا ہے خواہ وہ آپ کو پسند ہو یا نہ ہو۔یہاں بھی مصنف سے سہو ہوگیا ہے جو مصنف کی نیک نامی، انکی عالمی شخصیت اور انکی عظمت کے شایان شان معلوم نہیں ہوتا۔

اگر مجموعی طور پر ایک غیرجانبدار مورخ کی حیثیت سے ندوہ کے شعبہ حدیث، تفسیراور فقہ کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سو سال میں ندوہ اور ندوی فضلاء کسی بھی شاندار اور قابل ذکر کارنامے انجام دینے سے قاصر رہے ہیں۔ مثلا حدیث میں ایک دو کتابوں کو چھوڑ کر صرف حدیثیوں کو جمع کرکے چند کتابیں لکھی گئی ہیں جو حدیث کے شعبہ میں کسی قابل ذکر خدمات کے زمرہ میں نہیں آتیں۔ اسی طرح صرف تعلیق، تبویب اور حواشی کو عظیم الشان خدمات میں شمار نہیں کیا جاسکتا، حدیث کے شعبہ میں مولانا سلمان حسینی ندوی کی خدمات بھی قابل قدر ہیں جن کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ فقہ کے میدان میں بھی ندوی فضلاء کا کوئی گرانقدر کارنامہ نہیں ہے۔ صرف چند کتابیں متوسط معیار کی موجود ہیں۔ البتہ تاریخ میں ندوی فضلاء کا بہت قابل ذکر کارنامہ رہا ہے، اس لئے مصنف کو چاہئے تھا کہ وہ ایمانداری کے ساتھ ندوہ کی سو سالہ علمی اور تصنیفی خدمات، اس کے معیاراور اسکے اثرات کا جائزہ لیتے تاکہ اگر ایک طرف ندوہ اور اہل ندوہ اپنی کمیوں کے تدارک کی طرف دھیان دے پاتے تو دوسری طرف انکی کتاب مستند اور زیادہ قابل اعتماد ہوتی۔

بارہواں باب: العرب وندوہ العلماء
یہ باب انتہائی قیمتی معلومات پر مشتمل ہے۔ اس سے عرب قارئین کے ذہن میں ندوہ کی اچھی اور مثبت تصویر پیدا ہوگی۔ ا س باب میں عرب اساتذہ جنھوں نے ندوہ میں تعلیم دی انکا تفصیلی ذکر ہے، ساتھ ہی ان عرب فضلاء کا ذکر بھی ہے جنھوں نے ندوہ میں تعلیم حاصل کی، پھرجن عرب علماء کرام اور مشہور ہستیوں نے ندوہ میں کوئی لکچر دیا یا ندوہ کی زیارت کی اور اپنے تاثرات پیش کئے ان سب کا ذکر ہے، مگر کہیں کہیں بلاوجہ غیر ضروری تفصیلات ہیں جو کتاب کو بلاوجہ مزید ضخیم بنادیتی ہیں۔ جیسے علامہ رشید رضا کے ضمن میں کئی صفحات لکھے گئے ہیں جو ضروری نہیں تھے۔ اس میں شیخ محمد طیب مکی، شیخ محمد حسین انصاری، ڈاکٹر تقی الدین ہلالی، شیخ عبد الفتاح غدہ، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، استاذ محمد المجذوب، شیخ خلیل یمانی، علامہ محمد رشید رضا، علامہ عبدالعزیز الثعالبی التونسی، مفتی امین حسینی، شیخ ابراہیم الجبالی، شیخ عبد الوہاب نجار، سعودی شہزادہ امیر مساعد بن عبد الرحمن، استاذ سعید رمضان، شیخ عبدالحلیم محمود، شیخ علی طنطاوی، شیخ احمد عبدالعزیز المبارک، شیخ عبد الرحمن رافت باشاوغیرہ کے نام شامل ہیں۔
تیرہواں باب۔ اسانید ندوہ العلماء: میرے خیال میں علم حدیث سے شغف ہونے کے باعث مصنف نے اسانید کا بھی ذکر کردیا ہے، حالانکہ اسانید کے ذکرکی کوئی خاص ضرور ت تاریخ میں نہیں ہوا کرتی، اس سے کتا ب کی ضخامت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
چودہوں باب۔ الاربعون الندویات المتباینات: مصنف لکھتے ہیں کہ مختلف کتابوں سے لی گئی مختلف ابواب پر مشتمل ندویوں کی چالیس احادیث کے سند کا ذکر ہے۔ یہ باب بھی غیر ضروری طوالت کا باعث ہے۔ اس کا ذکر احادیث اور اسناد کی کتابوں میں ہونا چاہئے۔
پندرہواں باب۔ دور الندوہ فی عالمنا المعاصر:  اس میں ندوی فضلاء نے جن دانشگاہوں اور تعلیمی اداروں کو قائم کیا ہے اس کا ذکر ہے۔ جن میں بعض مدارس کا ذکر ہے جیسے دار العلوم تاج المساجد، جامعہ اسلامیہ بھٹکل، کاشف العلوم اورنگ آباد، مدرسہ ضیاء العلوم اور فلاح المسلمین وغیرہ۔ مگر ان مدارس کے تعلیمی معیار پر ایک تاریخ نویس کی حیثیت سے کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی ہے۔ جب کہ جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان مدراس کے تعلیمی معیار کو جانچنے، ان کو ندوہ کے اسٹیندرڈ پر لانے اور ان کے محاسبہ کا کوئی نظم نہیں ہے، جس کے نتیجہ میں ندوہ کے معیار میں گرواٹ اور ندوی فارغین کی علمی صلاحیت میں مسلسل کمی آرہی ہے۔
اس کے بعد ایک ذیلی عنوان المرتبطون بالحرکات الاسلامیہ کے تحت صفحہ 1174-1175پربعض تحریکوں سے وابستہ ندوی فضلاء کا ذکر ہے،  جس میں تین ندوی فضلاء مولانا ابواللیث ندوی، مولانا مسعود عالم ندوی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کا ذکر کیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ مصنف نے انجمن شباب اسلام کے بانی مولانا سلمان ندوی اور تبلیغی جماعت سے منسلک مولانا سجاد نعمانی کے ذکر خیر سے کیوں گریز کیا جب کہ یہ دونوں بھی تحریکوں سے وابستہ ہیں۔  پھر مختلف یونیورسٹیوں کے ندوی پروفیسر حضرات کا ذکر کیا ہے اور چند کا تعارف پیش کیا ہے۔ میرے خیال سے دنیا کی بہت ساری یونیورسٹیوں میں ندویوں کی اتنی بڑی تعداد درس وتدریس میں مشغول ہے کہ اس کے لئے ایک الگ تحقیق کی ضرورت ہے، بہتر ہوتا کہ ان کے نام سے گریز کیا جاتا کیونکہ بعض سینئر ندوی پروفیسرحضرات اپنا نام نہ آنے کی وجہ سے مصنف سے بدظن ہوسکتے ہیں اس لئے اس کو نہ شامل کرنا زیادہ بہتر ہوتا۔ اور یوں بھی اس سے ندوہ کی کوئی خاص اہمیت واضح نہیں ہوتی، دوسرے مدارس جیسے اصلاح وغیرہ کے کہیں زیادہ فضلاء یونیورسٹیز میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس میں ایک اضافہ یہ بھی کیا جاسکتا تھا کہ جو ندوی فضلاء گورمنٹ کے اونچے عہدوں پر اپنے دینی تعلیمی بیک گراونڈ  کے باوجودفائز ہیں ان کا ذکر بھی مناسب تھا، جیسے آئی اے ایس اور سول سروسز سے میں کام کرنے ندوی فضلاء۔ اس کے بعد ذیلی عنوان کے تحت عرب ممالک میں کام کرنے والے بعض ندوی فضلاء کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ محمد اجمل بن محمد ایوب الاصلاحی، مولانا وقار عظیم ندوی، ڈاکٹر علی احمد غلام ندوی، مولانا شکیل احمد اعظمی،مولانا وزیر احمد اعظمی کا تعارف پیش کیا ہے، مگر ان کے علمی کارناموں اور تصنیفی خدمات کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اس کے بعد دیگر ممالک کے ندوی فضلاء کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان اور بنگلہ دیش کے ندوی فضلاء کا ذکر کیا ہے، پھر انڈونیشیا اور ملیشیا کے مولانا فہمی زمزم، مولانا عبدالماجد غوری، ترکی کے محمد یوسف صالح قراجہ جاپان کے مولانا سلیم الرحمن خان ندوی، آسٹرئلیا کے ڈاکٹر محمد انس ندوی، جنوبی افریقہ کے مولانا سلمان ندوی اور شیخ علی آدم بنوری، امریکہ کے ڈاکٹر محمد مزمل صدیقی ندوی اور برطانیہ میں مقیم ندوی فضلاء میں اپنے نام کا ذکر کیا ہے۔ ہندسے باہر مقیم ندوی فضلاء کے بارے میں مختصر تعارف سے ندوہ کی تاریخ کا کوئی خاص تعلق نہیں معلوم ہوتا کیونکہ جن شخصیات کا ذکر خیر ہے اللہ ان سے دین وملت کا کام لے، ان سے کہیں زیادہ علمی، دینی اور دعوتی کاموں میں مصروف دیگر ندوی فضلاء بھی موجود ہیں جن کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
ایک مورخ اور تاریخ نویس کے لئے مناسب نہیں، اور خاص طور پر ڈاکٹر محمد اکرم ندوی کے قلم سے جب کوئی بات نکلتی ہے تو علمی حلقہ اسے قبول کرتا ہے، اس لئے ڈاکٹر صاحب کو ان نکات کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا۔
کتاب کی زبان مجموعی طور پر بہت اچھی اور سلیس ہے، مصنف کی اپنی مادر علمی سے لگاؤ اور محبت کی کی غماز ہے۔ بلاشبہ یہ کتا ب ندوہ کا عالم عرب میں تعارف کرانے میں ممدومعاون ثابت ہوگی مگر فنی طور پر اس کتاب کو تاریخ نویسی کے دائرہ میں رکھنا مشکل ہے۔ابھی بھی ایک ایسے مورخ کی ضرورت ہے جو بغیر کسی لگاؤ اور جھکاؤ کے ندوہ کے عظیم الشان کارناموں اور امت اسلامیہ پر اس کے گہرے اثرات کا جائزہ لے اور تاریخٰی حقائق کو اس انداز میں پیش کرے جو ایک مورخ کے شایان شان ہوتا ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments