کھیل یہ گندا ہے!


پاکستان کی تاریخ میں سیاسی رسہ کشی تو ہر دور میں رہی کبھی اقتدار کے ایوانوں میں محلاتی سازش کی گئی اور کبھی اقتدار سے باہر سیاسی قوتوں نے طوفان برپا کر کے سیاسی ہیجان پیدا کیا پاکستانی تاریخ سیاسی اور فوجی حکمرانوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے سیاسی تاریخ کی اس کتاب میں رہنماؤں کے ہر عمل کو محفوظ بنا دیا گیا ہے کون سیاسی تاریخ کا کتنا پارسا ہے وہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہر کسی کے اقدامات ہی بول رہے ہیں تاریخ کے اوراق ہوا کے تیز جھونکوں میں خود ہی تبدیل ہو کر اپنے اندر چھپے ہوئے راز آشکار کر رہے ہیں۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے تاریخ کا جائزہ لینا پڑا کہ اخلاق سے گری ہوئی موجودہ سیاسی تصویر تو ہمارے قومی نظریے کی نفی دیکھا رہی ہے پاکستان کے قیام میں کسی بھی جگہ شدید مشکلات کے باوجود قائد اعظم محمد علی جناح نے اخلاق سے گری ہوئی ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے ان کے کردار پر انگلی اٹھائی جا سکے انہوں نے نہ کسی پر ذاتی حملہ کیا اور نہ کسی کے کمزور کردار کو اپنی گفتگو کا حصہ بنایا پھر بھی پاکستان کا قیام عمل میں آیا قائد اعظم محمد علی جناح ہوں یا علامہ محمد اقبال سر سید احمد خان ہوں یا مولانا ظفر علی سردار عبدالرب نشتر ہوں یا پھر عطا اللہ شاہ بخاری سب ہی بات کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے مقرر بھی تاریخ کے مانے ہوئے تھے ان کے خطاب شروع ہوتے تو چاروں سو خامشی چھا جاتی علامہ اقبال کی شاعری ہو یا عطا اللہ شاہ بخاری کا دلیرانہ خطاب سر سید احمد خاں کی طرف سے تعلیم و تربیت کی بات ہو یا پھر مولانا ظفر علی خاں کا صحافتی کردار جس نے اندھیروں میں شمع روشن کی سردار عبدالرب نشتر کا گرج دار خطاب ہو یا قائد اعظم اور علامہ اقبال کے درمیان خط و کتابت کسی بھی موقع پر ایسی کوئی تحریر، تقریر یا گفتگو سامنے نہیں آئی جو اخلاقیات کے معیار پر پوری نہ اترے ان رہنماؤں کے مخالفین بھی ان کے حسن اخلاق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

نظریات کا اختلاف ضرور تھا لیکن کسی مخالف کی ذات پر ذاتی حملہ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا تاریخ کے اس پہلو پر بات کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے رہنما قوم کی اخلاقی تربیت کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوتے گے جس قوم نے تنہا اپنی بے مثال قربانی سے پاکستان حاصل کیا وہ رہنماؤں کی طرف سے اخلاقی تربیت سے محروم ہوتی گئی سیاست دانوں نے اقتدار کے حصول کے لیے تمام اخلاقی قدروں کو تباہ کیا سیاست کے کھلاڑیوں کی اس باہمی چپقلش نے جہاں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو کمزور کیا وہاں قوم کا کردار بھی پستی کا شکار ہوتا گیا۔

جب قوم کا کردار کمزور ہوا تو دنیا میں بھی ہماری عزت کم ہوتی گئی کئی ایسے ممالک جو ہمارے بعد خطہ ارض پر آزاد ہوئے وہ ہم سے زیادہ ترقی کی طرف گامزن ہو گئے بلکہ یہ کہنا اور بھی مناسب ہو گا کہ وہ دنیا کی ایک طاقت کا روپ دھار گے جب کہ پاکستان جو اپنے قیام کے چوبیس سال کے اندر ہی اپنے ہی رہنماؤں کی خواہشات کی بھینٹ چڑھ کر دولخت ہو گیا۔ اس سانحہ پر قوم اور ان پر براجمان رہنماؤں کو اپنے کردار پر شرمندگی نہ ہوئی نہ سیاست دانوں نے اپنا رویہ تبدیل کیا اور قوم کو بھی یکسر تقسیم کر دیا کبھی دایاں بازو اور بایاں بازو کے ناموں سے سیاست کی کبھی اسلام کے نام کو استعمال کیا تو کبھی اپنے مفادات کے لیے فرقہ وارانہ سیاست کا سہارا لیا۔

دوسری طرف حکومتی طبقے کے کردار کو دیکھیں تو مایوسی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا حکومت عوام کو حقوق دینے کو اہمیت نہیں دیتی جس کے باعث معاشرہ انتشار کا شکار ہے جس کا علاج کرنا ممکن نظر نہیں آتا اس کی بڑی وجہ سادہ سی ہے کہ علاج کون کرے سیاست دان تو اقتدار کے لیے تمام ملکی مفادات کو کچلتے جا رہے ہیں انہوں نے سیاسی منڈیاں لگا رکھی ہیں جہاں سوداگر اپنی پسند کا مال خرید رہے ہیں شاعر نے ایسے ہی حالات کے متعلق لکھا ہے کہ۔

گھر سے باہر ڈھونڈ رہے ہو دشمن کو۔ ہوتا ہے ہر وار اندر سے۔ اپنے اپنے دائرے میں دیکھ لو۔ حسب طاقت ہر کوئی فرعون ہے۔ ایک مسلم ریاست کا شہری ہونے کے ناتے ہر طبقہ فکر اور یہاں پر بسنے والے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں سیاسی رہنماؤں، حکومتی اکابرین سے درخواست ہے کہ وہ اپنے طور پر ایسی سیاست کو ترک کر دیں جو ہمیں اخلاقی پستی کی طرف لے کر جا رہی ہے اگر آپ رہنما ہیں تو قوم کی رہنمائی فرمائیں ورنہ تو رہزن بھی اپنے علاقہ کے حکمران ہی ہوتے ہیں عوام بھی اپنے اندر رہنما پیدا کریں اور یہ تبھی ممکن ہے کہ عوام اپنے کردار کو مضبوط بنائیں ان اخلاقی اقدار کے پاسبان بن جایں جن کی بنیاد پر پاکستان کو حاصل کیا گیا عوام گالی گلوچ کرنے والے سیاست دانوں کو خیر باد کہہ دیں اگر یہ سیاست دان عوام کی حمایت سے محروم ہو جایں گے تو ان کی اخلاقی پست پر مبنی سیاست بھی دم توڑ جائے گی۔

پاکستان پر قابض یہ طبقہ دن کو ایک دوسرے کو گالیاں دیتا ہے اور راتوں کو ان کی محفلیں مشترکہ چلتی ہیں یہ رات کے اندھیروں میں عوام کے جذبات کی سودا بازی کرتے ہیں یہ اپنی طاقت کے نشے میں انسانوں کے ضمیروں کی بولی لگاتے ہیں یہ پسے ہوئے عوام کی تمناؤں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلتے ہیں ان سب کی ذاتی خواہشات کو پوری نہ ہونے دینا عوام کے ہاتھ میں ہے اپنے پیارے پاکستان کو بچانے کے لیے عوام خود میدان میں آ جایں اور کسی کو اپنے حقوق کا سودا نہ کرنے دیں اور عوام کو اس وقت ہی اپنے بنیادی حقوق مل سکتے ہیں جب وہ دنیا میں اپنے کردار کو اپنے اخلاق سے بلند کریں گے عوام پاکستان کو زمینی طور پر ہی بچانے کی کوشش نہ کریں بلکہ اس کی نظریاتی سرحدوں کے بھی خود محافظ بن جائیں۔

آج کے پاکستان کے سیاسی رہنما ایک دوسرے کے بارے جو زبان استعمال کرتے ہیں اس کا اثر عوام کو بری طرح متاثر کر رہا ہے جو انتشار قوم میں پیدا ہو چکا ہے وہ ختم کرنے کی ضرورت ہے ورنہ دنیا ہم سے مکمل طور پر منہ موڑ جائے گی ایسے گندگی سے بھرے کردار کی وجہ سے ملک پر سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی پر بھی دنیا ہماری مدد کو تیار نہیں اور دنیا کیونکر ہماری مدد کرے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے ہی نہیں اسے جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے اپنی غلطیوں کے مداوے کے لیے اس جذبے کے ساتھ اجتماعی کوشش کرنی چاہیے کہ نیک نیتی سے کوشش کی جائے تو مشکل سے مشکل کام بھی نا ممکن نہیں رہتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments