تعلق کا نادیدہ بوجھ اور آخری موڑ


طلاق ابھی فائنل نہیں ہوئی تھی۔ علیحدگی کو سات ماہ ہو چکے تھے لیکن ابھی تک اسے اکیلے رہنے کی عادت نہیں پڑی تھی حالانکہ اس کے ہوتے بھی وہ اکیلی ہی تھی۔ علیحدگی کی وجہ یہی تھی کہ دونوں ایک دوسرے میں دلچسپی کھو چکے۔ فہد وکیل تھا، ہنیڈسم تھا، اچھا کماتا تھا۔ باتیں اچھی کرتا تھا۔ سونیا بھی دو ٹین ایجر بچوں کی ماں ہوتے بھی کافی اسمارٹ اور حسین بھی تھی۔ ڈاکٹر تھی اور بات چیت کا سلیقہ رکھتی تھی۔ بس پتہ نہیں کیا اور کب ہوا کہ ایک دوجے کے لیے کچھ کچھ اجنبی ہو گئے۔ زندگی مصروف تھی۔ دونوں کے جابز، لمبی میٹینگز، ایکسٹرا آورز، ڈنر پارٹیز، آفیشل لنچز۔ بس ایک دوسرے کے لیے وقت نہ ملا۔

پاکستان سے ڈاکٹری کرنے کے بعد اسپیشالئزیشن کے لیے سونیا شکاگو امریکہ کی یونیورسٹی سے چائلڈ اسپیشلسٹ بن گئی۔ ایک پارٹی میں فہد سے ملاقات ہوئی۔ دوستی ہوئی، محبت بھی ہوئی۔ دونوں کے خاندان پاکستان میں تھے شادی میں صرف دوست اور کولیگز تھے۔ دو بچے ہوئے اور ایک پرفیکٹ امریکن فیملی بن گئے۔

چار پانچ سال پہلے ہی دونوں ہی کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی شادی ایک بے جان بندھن ہے۔ دو سال سے تو بیڈ روم بھی الگ ہو چکے تھے۔ کچھ خاندان کا پریشر تھا کچھ بچوں کا خیال کہ کوئی فیصلہ کر نہیں پا رہے تھے۔ انہیں ایک دوسرے سے نفرت نہیں تھی بس محبت نہیں رہی۔ حالانکہ ایک طوفانی عشق کے بعد شادی کی تھی۔ لیکن اب نہ طوفان ہے نہ عشق۔ سونیا کو بھی پروا نہیں تھی۔ وہ تو کب کا دل سے اتر چکا تھا۔ اب تو اس کے آفٹر شیو کی بو سے بھی اس کا دل الٹتا تھا۔

میگی فہد کی لا فرم میں کام کرتی اس سے فہد کی کچھ انڈراسٹینڈینگ ہو گئی۔

علیحدگی اس دن آفیشل ہوئی جس دن سونیا نے فہد کو کسی سے فون پر بات کرتے سنا۔ وہ کہہ رہا تھا ”تم مجھے پھر سے جوان ہونے کا احساس دلاتی ہو۔“

You make me feel young again.

سونیا نے اسے کہا کہ اب وہ اب کہیں اور ٹھکانہ بنا لے۔ وہ بھی بغیر کسی احتجاج کے چل دیا۔ سونیا کو یقین تھا کہ وہ اپنی نئی محبوبہ میگی کے ساتھ رہ رہا ہے۔

فہد کے جانے کے بعد سونیا کے کچھ دن تو دوستوں سے ملنے ملانے میں گزرے۔ ڈنر کیے، موویز دیکھیں، ایک ٹرپ پر گئے۔ خوب باتیں بھی کیں۔ دل کھول کے ہنسے۔ لیکن آخر کب تک؟ حقیقت کی دنیا میں واپس آنا ہی تھا۔

اس شام دل کہیں ٹک نہیں رہا۔ اداسی تھی، بے کیفی تھی۔ ہر طرف ایک پراسرار خاموشی تھی۔ دل توڑنے والی سوگواری تھی۔ بچے گھر پر نہیں تھے۔ بیٹا اپنے فٹ بال میچ پر گیا تھا بیٹی اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ گروپ اسٹڈی کرنے گئی تھی۔ سونیا صوفے پر لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گئی۔

اچانک فہد کی گاڑی کی آواز آئی اور وہ اندر بھی آ گیا۔ اس کے پاس ابھی تک گھر کی چابی تھی۔ سونیا کا دل جانے کیوں زور سے دھڑکا۔ ”کچھ کتابیں، کپڑے وغیرہ لینے آیا ہوں“

”لے لو اور جاتے ہوئے چابی دے جاؤ۔ تم اب یہاں نہیں رہتے“ وہ سخت بے رخی سے بولی۔ فہد اپنے کمرے میں جا گھسا۔ بیگ اٹھائے واپس آیا۔ ”جا رہا ہوں۔ یہ لو چابی“ اس نے اس کی طرف چابی اچھالی۔ سونیا نے قہر آلود نظر اس پر ڈالی۔

”کیا کر رہی ہو؟“ وہ قریب آیا۔ ”اوہ فیس بک۔ ہممم۔ ذرا دھیان سے رہنا۔ نیٹ پر لوگ بڑی عمر کی اکیلی خواتین کو نشانہ بناتے ہیں۔ کیٹ فشنگ یو نو۔ کہیں لٹ مت جانا“

” بات یہ موہن پیارے کہ تم شدید احساس کمتری کا شکار ہو“ اس نے یونہی فقرہ اچھالا۔
” اوہ ہو۔ موہن پیارے؟ ہاہاہا۔ لگتا ہے پرانی انڈین فلمیں دیکھ رہی ہو۔ اپنے زمانے کی“
سونیا نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا۔
وہ ہنستا ہوا نکل گیا۔ سونیا نے اٹھ کر آئینے میں جھانک کر خود کو ٹٹولا۔
ایک دن وہ کلینک پر تھی کہ اچانک فہد کا میسج آیا۔ ”اداس ہوں۔ تھوڑا سا مل لو“

سونیا نے کافی بریک میں اسے بلا لیا۔ امیگریشن کا اہم کیس ہارا تھا اور بے حد اداس تھا۔ سونیا نے سوچا کہ اتنا اداس تو وہ اسے ہارنے پر بھی نہیں ہوا تھا خاموشی سے بیگ اٹھا کر چلا گیا تھا۔

”تم پر بھی کوئی سخت وقت آیا اپنے جاب میں؟“

سونیا نے بیمار بچوں کی بے چارگی کے اداس لمحوں کے بارے میں اسے بتایا۔ دونوں دیر تک اپنی اپنی اداسی پر بات کرتے رہے۔ اتنی قربت تو پہلے کبھی نہ تھی۔

”تمہارے لیے ڈونٹس بھی لایا ہوں“
” مجھے ڈونٹس سخت ناپسند ہیں“ ۔

” ہائیں؟ اچھا؟“ کس قدر وہ حیران ہو رہا تھا۔ ”مجھے علم ہی نہیں ہوا۔ تم نے کبھی بتایا ہی نہیں سویٹ ہارٹ“

” کتنے تم مجھ سے بے خبر رہے ہو سویٹ ہارٹ۔ پھر بھی تھوڑا سا کھا لیتی ہوں تمہارا دل رکھنے کے لیے ۔“
” اب مت رکھو میرا دل۔ واپس کر دو۔“ وہ ہنسا تو بھی ہنس دی۔
”کیوں کسی اور کو دینا ہے کیا؟“
” نہیں اب اپنے پاس رکھوں گا پیار محبت سے۔“ دونوں ہی کھلکھلا کے ہنس دیے۔

سونیا سوچ رہی تھی کہ اب اسے فہد کی باتوں پر غصہ نہیں آتا۔ کیا فہد کا لہجہ بدل گیا ہے یا اس کی برداشت بڑھ گئی ہے۔

ایک دن بنک کے کچھ معاملات طے کرنے تھے دونوں ملے پھر لنچ پر چلے گئے۔ برگر کھاتے فہد نے پوچھا۔ ”یار تم مجھے مس کرتی ہو؟“

”ہاں جب باتھ روم میں کوئی گیلا تولیہ زمین پر نہیں ہوتا تو تمہاری کمی کا احساس ہوتا ہے“ دونوں ساتھ ہنسے۔

”تم کیا مس کرتے ہو؟“
” تمہاری کوکنگ مس کرتا ہوں۔ “
”گھٹیا آدمی بس کوکنگ؟“
” اور جب کوئی پرانا گانا سنوں تو تم یاد آتی ہو مدھو بالا۔“ ۔
یہ مجھے میری عمر کا احساس کیوں دلاتا رہتا ہے؟
”تمہیں میری کون سی بات سب سے بری لگتی تھی؟“ وہ بولا
”جب تم ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول میرے ہاتھ سے لے کر چینل بدل دیتے تھے مجھ سے پوچھے بغیر“
”اوہ۔ تم نے کچھ کہا کیوں نہیں؟“
” اگر مجھ پر ایک نظر ڈال لیتے تو تمہیں اندازہ ہو جاتا۔“ فہد گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
” اور تمہیں میری کون سی بات کھٹکتی تھی؟“ وہ بھی پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔

” نہیں کوئی خاص بات نہیں۔ لیکن اب بے فکری سے کافی کا مگ جہاں چاہوں رکھ سکتا ہوں کوئی ٹوکتا نہیں کہ ارے یہاں مت رکھو نشان پڑ جائے گا۔ بڑے عیش ہیں اب“ وہ کرسی پر پھیل کر بیٹھ گیا۔

”بس اتنی سی بات؟ مجھے تو لگتا تھا تمہارے پاس ایک لمبی لسٹ ہو گی“
”نہیں بالکل نہیں۔ بس یہی ایک بات ہے“ ۔
سونیا کو ذرا بھی اعتبار نہ آیا۔
پت جھڑ کا موسم کیا آیا کہ اداسی چھا سی گئی۔

اسی اداسی کی کیفیت میں اس کی سالگرہ آ گئی۔ فہد کو تو کبھی یاد ہی رہتا تھا۔ رات کے کھانے کے بعد جب وہ بیکری سے خریدا کیک لاتی تو سب شرمندہ سے ہو جاتے۔ بیٹی چمک کر کہتی ”ماما آپ بتا دیا کریں نا ہمیں یاد نہیں رہتا“ ۔ بیٹا بھی سر کھجا کر رہ جاتا۔ فہد کوئی بات بناتا۔

” یار کوئی ہنٹ ہی دے دیا کرو۔ اچھا چلو کل ڈنر باہر کریں گے“

پھر رفتہ رفتہ یہ تکلف بھی ترک کر دیا۔ نہ کیک آتا نہ کوئی شرمندہ ہوتا نہ کسی کو کوئی بہانہ بنانا پڑتا۔ بچے بڑے ہو گئے تو فیس بک جوائن کرلی۔ بھلا ہو فیس بک کا جس کے سبب اپنے پرائے سب ہی جان جاتے ہیں آج فلاں کی سالگرہ ہے۔ رسمی پیغام آتے۔ سونیا کو اب اس سے بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔

صبح کام پر جانے لگی تو موسم نے مزید موڈ خراب کیا۔ شکاگو کی سردی اور تیز ہواؤں کو کوستی وہ اپنی کلینک پہنچی۔ سامنے میز پر ایک بڑا سا گلدستہ پڑا تھا۔ پھولوں کے درمیان ایک کارڈ بھی تھا۔ یہ فہد کی جانب سے تھا۔

” مبارک۔ ڈنر پر چلیں؟“

ساتھ تھا تو کبھی یاد ہی نہیں رہتا تھا اب پھول بھیج رہا ہے۔ وہ ذرا بھی متاثر نہ ہوئی۔ پھر اس کا میسج بھی آ گیا۔

” پھول اچھے لگے؟“
”نہیں“
اس پر فہد نے قہقہے والی ایموجی بھیجی ”کل شام سات بجے تیار رہنا۔ ڈنر کے لیے لینے آؤں گا“

ملتے تو وہ پہلے بھی رہے ہیں۔ کئی ضروری باتیں ڈسکس کر چکے تھے۔ گھر اس کا اور بچوں کا ہو گا۔ فہد نے کچھ نہیں مانگا۔ اس کا ایک پیانو تھا جسے اس نے بڑے شوق سے خریدا تھا اور کبھی کبھی بجاتا بھی تھا۔ سونیا نے کہا یہ لے جاؤ۔ اس نے کہا اپارٹمنٹ میں جگہ نہیں۔ کبھی بڑا گھر لیا تو لے جائے گا۔ کچھ ملاقاتیں بچوں کے بارے میں ہوتیں۔ بیٹے کو فٹ بال میچ پر کون لے جائے گا؟ بیٹی کو میوزک کنسرٹ پر جانے کی اجازت دی جائے یا نہ؟ چھٹیوں میں بچوں کو کہاں لے جایں؟ بیٹے کو سالگرہ پر نئی سائیکل دیں یا گٹار؟ بیٹی ٹیٹو بنوانے کی ضد کر رہی ہے کیا کرنا چاہیے؟ فہد ہر بات دھیان سے سنتا اور اپنی رائے دیتا۔ کبھی کبھی تو سونیا کو لگتا کہ وہ جدا ہو کر زیادہ ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔

شام ہوئی تو اس نے ڈنر پر جانے کی تیاری شروع کی۔ کالے رنگ کا سلیو لیس ڈریس نکالا۔ اس کا خیال تھا کہ ہو سکتا ہے فہد نے طلاق کے پیپرز بنا لیے اور آج ڈنر پر وہ یہ پیپر اسے دے گا ہیں کہ وہ بھی اپنے وکیل کو دکھا دے۔ اور وہ چاہے گا کہ یوں وہ دونوں اپنی آزادی منائیں۔

کالا ڈریس کچھ زیادہ اوور ہے کچھ اور پہنتی ہوں کوئی غلط سگنل نہ چلا جائے۔ اس نے ہلکے نیلے رنگ کا لباس نکالا۔ پہن کر دیکھا تو اپنا آپ بہت اداس اور افسردہ لگا۔

وہ فہد کے سامنے خود کو ڈیپرسڈ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسے کیوں تسکین ملے کہ میں اس کے فراق میں دل گرفتہ ہوں۔ اس نے سیاہ ڈریس ہی پہنا۔

ڈنر بہت اچھا رہا۔ دونوں نے ہی کھانا انجوائے کیا۔ بہت باتیں کیں۔ ایک دوسرے کے کام کے بارے میں پوچھا۔ دونوں یا تو واقعی مطمئن تھے یا اچھے اداکار تھے۔

” نئی شروعات کے لیے“
”ہاں نئی شروعات کے لیے“ ۔

دونوں نے گلاس ٹکرائے۔ فہد بار بار جیب میں ہاتھ ڈالتا لیکن ہاتھ خالی ہی باہر آ جاتا۔ کیا طلاق کے پیپرز ہیں جیب میں؟ دیتے ہوئے ہچکچا رہا ہے؟ کس اس قدر طول دے رہا ہے۔ ختم کرے اب سارے قصے کو۔ لگتا تھا کہ فہد کو کوئی جلدی نہیں وہ سونیا کا صبر آزمائے جا رہا تھا۔

وہ دنیا جہاں کی باتیں کر رہا تھا۔ بے تکان بول رہا تھا۔ سونیا اپنے فون سے کھیلنے لگی۔ ڈنر تمام ہوا۔ فہد نے بل ادا کیا۔ سونیا نے اتنی حسین شام کا شکریہ ادا کیا۔

دونوں ریسٹورنٹ سے باہر آ گئے۔
”کافی پینے کہیں اور چلیں یا تمہیں گھر چھوڑ دوں؟“ فہد نے پوچھا
” میں نے اسٹیو کو میسج کر دیا ہے وہ مجھے پک کرنے آ ریا ہے“
”اسٹیو؟“
” نیا ریزیڈنٹ ڈاکٹر آیا ہے۔ اچھا انسان ہے۔ مجھے جوان ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ “
He makes me feel young
فہد نے دیکھا ایک گاڑی آ کر رکی اس میں سنہرے بالوں والا ایک نوجوان مرد تھا۔ ”ہائے سونیا“

سونیا فہد کو شب بخیر کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ پھر اچانک گاڑی سے اتری۔ فہد کے پاس آئی۔ پرس کھولا اور چابی نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔ ”کبھی کبھی آتے رہو“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments