رپورٹر ڈائری: ‘تین بچوں کے مرنے پر پانچ کلو آٹے کی امداد ملی’


(سدرہ ڈار) پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ صوبہ سندھ کے ضلع مٹیاری اور اس سے ملحقہ علاقوں میں رپورٹنگ کے بعد ہماری ٹیم نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ہمیں بدین کی جانب رخ کرنا چاہیے۔ سندھ بھر میں سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں کے دورے اور اس آفت سے پیدا ہونے والی مشکلات کو ہم کئی روز سے دیکھ رہے تھے۔

لیکن اب بھی ہمیں عام لوگوں کی خاص کہانیاں اپنی طرف بلا رہی تھیں۔ حیدر آباد سے بدین کی جانب صبح سویرے سفر کا آغاز ہوا تو دو گھنٹوں کے دوران جہاں جہاں انٹر نیٹ سگنلز ملتے گئے،میں سیلاب سے متاثرہ خبروں کو پڑھنے اور دیکھنے میں مگن ہوگئی کہ مجھے ایک اسٹوری دکھائی دی۔ اس اسٹوری کا ٹائٹل تھا کہ سندھ میں ایک بااثر سیاسی شخصیت نے سیلاب سے متاثرہ افراد کو اپنی بیٹھک میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔

ایک جانب لوگ امداد، راشن، ادویات کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے اس میں ایک خاص شخصیت کی مدح سرائی پر مبنی اسٹوری نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ان حالات میں بھی طاقت ور اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش میں ہے؟

اسی سوچ کے ساتھ ہم بدین میں داخل ہوگئے۔ بظاہر ایسا لگا کہ بدین شہر کو ابھی اس آفت کا اس طرح سامنا نہیں جیسے دادو، سکھر اور خیر پور کو ہے۔لیکن یہ شہر تھا اس لیے منظر ایسا تھا ورنہ قریبی دیہات کے مناظر دوسرے علاقوں جیسے ہی تھے۔

ہماری منزل بدین کا پریس کلب تھا جہاں ہماری ملاقات مقامی صحافیوں سے ہوئی۔ جن کی زبانی ہمیں بہت سی ایسی کہانیاں معلوم ہوئیں جنہیں سن کر اندازہ ہوا کہ وہ بہت کچھ لکھنا اور رپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔لیکن علاقے میں موجود بااثر اور طاقت ور شخصیات کے دباؤ کے سبب ایسا نہیں کر پا رہے۔

یہیں ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم علاقے کے مسائل دیکھتے ہیں اور میرپور خاص اور بدین کے قریب جہاں سیلاب زدگان ہزاروں کی تعداد میں موجود وہاں پہنچ کر لوگوں سے بات کرتے ہیں۔

اس جگہ پہنچنے سے قبل میں نے ارادہ کیا کہ کراچی سے بدین ہائی وے پر بیٹھے درجنوں سیلاب زدگان خاندانوں سے پہلے ملاقات کی جائے۔ یہ خیال آنے کی وجہ یہاں سے گزرتے ہوئے مجھے نظر آنے والی کچھ ایسی سہولیات تھیں جس نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی جن کا وجود میں پچھلے دو ہفتے کی رپورٹنگ میں کہیں نہیں دیکھ پا رہی تھی۔

مرکزی شاہراہ کے دونوں جانب چارپائیوں یا کچے راستے پر سرکنڈوں پر ترپال ڈالے سینکڑوں خاندان بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ کچھ فاصلے پر این جی اوز کی جانب سے ٹوائلٹس بنائے گئے تھے۔ ایک اور این جی او نے یہاں پانی کی ٹینکیاں رکھی ہوئی تھیں جس سے بچے ڈبے اور بوتلیں بھر رہے تھے۔

ان ٹینکیوں کو دن میں دو بار ٹینکر کی مدد سے بھرا جاتا تھا۔ ان عارضی خیموں کے اوپر جگہ جگہ لگے بانس پر لگے تار پر بلب لٹکے ہوئے تھے جو اندھیرا ہوتے ہی سولر کی مدد سے روشن ہو جاتے تھے۔

سیلاب کی تباہی اور بارشوں سے جہاں شہر کے شہر اور لاتعداد دیہات اپنے اصل حالتوں سے یکسر تبدیل ہوچکے تھے وہاں ان بلبوں، پانی کی ٹینکیوں، اوردرجن بھر سے زائد ٹوائلٹس کی موجودگی نے مجھے یہیں رکنے پر مجبور کردیا۔ مجھے اپنی جانب آتا دیکھ کر کئی مرد اور بچے جمع ہوگئے اور ان کا پہلا سوال تھا کیا آپ امداد دینے آئی ہیں؟

لیکن میرے یہ بتانے پر کہ میرا تعلق میڈیا سے ہے ان کے چہروں پر اداسی چھا گئی۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد میں نے ان سے پہلا سوال ہی وہی کیا جس نے مجھے ان کے پاس رکنے کا فیصلہ کروایا تھا۔ کیا یہ بلب رات کو روشن ہوتے ہیں؟ یہ ٹوائلٹس یہاں کب آئے؟

“یہ چار دن پہلے لگے ہیں جب ہمارے تین بچے مر گئے تھے جب بچو ں کا حادثہ ہوا تو ہم نے اسی شاہراہ پر احتجاج کیا پھرکچھ لوگ ایسی مدد کر گئے۔’ یہ جملہ ایک بوڑھے آدمی نے کہا جو زمین پر بیٹھا تھا اس سے پہلے میں کچھ کہتی اس آدمی کے برابر میں دوسرے بوڑھے آدمی نے رونا شروع کردیا۔ جس کے بعد دو مردوں اور مجھے سوال کا جواب دینے والے بزرگ نے انہیں سہارے سے اٹھایا اور قریب پڑی ایک چارپائی کی جانب لے گئے۔

میری آنکھوں میں سوال پڑھنے والے 50 سالہ میرداد نے جواب دیا۔ ـ”یہ میرے تایا ہیں اور نابینا ہیں ان کے تین پوتے پوتیوں کو ایک تیز رفتار ٹینکر نے کچل دیا تھا۔ اس حادثے کے بعد یہ سب کام ہوئے۔ یہ میرا تایا زاد ہے ان بدنصیب بچوں کا باپ جس کا گھر اجڑ گیا ہے باقی بات آپ ان سے کرلو۔’

میرے سامنے ایک ایسا شخص کھڑا تھا جس کی آنکھیں اور روح خالی تو کبھی زخمی معلوم ہوتی تھیں۔ یہ ایک باپ تھا جس کا نام منور علی تھا۔ سیلاب سے ان کا گاؤں جہاں ابھی وہ موجود تھے وہاں سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ہی تھا۔

تیز اور مسلسل بارشوں نے جب ان کے گھر کی دیوار کو گرایا تو انہوں نے اپنے پانچ بچوں، بیوی، بوڑھے نابینا باپ کے ساتھ نکلنے کا فیصلہ کیا۔ گھر سے صحن میں نکلنے تک ان کے سامنے ان کے گھر کی دوسری دیوار گری اور پھر چھت بھی زمین بوس ہوگئی۔

“میرا بیٹا سب سے بڑا تھا اس کی عمر 20 سال تھی ایک بیٹی 15 جب کہ ایک 12 سال کی تھی۔ جب گھر کی چھت گری تو میرے بیٹے نے مجھے اور اپنی ماں کو کہا، گھر مت دیکھو ماں یہ پھر بن جائے گا۔ ابھی جان بچانی ہے بس یہاں سے نکلو۔ میری بیوی، بیٹیاں روتی جاتیں وہ تسلی دیتا کہ جب سیلاب ختم ہوجائے گا تو میں گھر بنا دوں گا دل چھوٹا نہ کرو۔ میرا بیٹا گھر کا کفیل تھا وہ میرا دایاں ہاتھ تھا۔ ہم اپنی جان بچا کر اس سڑک کنارے آگئے کیوں کہ اور لوگ بھی یہاں آگئے تھے۔’

“اس روز دن میں کھیتوں میں کھڑے پانی سے ایک سانپ نکل کر ہمارے خیمے میں آگیا۔ یہاں موجود سب لوگ ڈر گئے جب رات ہوئی تو میری 15سال کی بیٹی نے مجھے کہا کہ ابا میں اندر نہیں سوسکتی مجھے سانپ سے ڈر لگتا ہے وہ دوبارہ نہ آجائے مجھے سڑک کے کنارے کچی جگہ پر سونا ہے۔ میں اس کے ڈر اور خوف کے سامنے مجبور ہو گیا پھر اس کی چھوٹی بہن ساتھ سوئی اور بھائی حفاظت کی وجہ سے ان کے قریب سو گیا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ یہ حادثہ ہوجائے گا۔ صبح سویرے ایک ٹینکر نے میرے تینوں بچوں کو کچل ڈالا۔ـ’

یہ سب بتاتے ہوئے منور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے اور ان کے ارد گرد موجود دیگر خاندان کے افراد سندھی زبان میں ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ اس کو رونے دو مت روکو کب تک دل پر بوجھ رکھے گا۔’

منور مجھے اپنے خیمے کی جانب لے گئے جو چاروں جانب سے کھلا ہوا تھا یہ چار بانسوں پر ڈلا ہوا ترپال تھا جس کی چھاؤں تلے ایک جانب برتن رکھے ہوئے تھے اور اس چھپر تلے کوئی دو درجن سے زائد عورتیں ایک غمزدہ ماں کے گرد خاموش بیٹھی تھیں۔

اس عورت کو دیکھ کر کوئی بھی پہچان سکتا تھا کہ دکھوں کی ماری یہی وہ عورت ہے جس کے جگر کے ٹکڑے اس سے جدا ہوچکے ہیں۔ مجھے ایک بوڑھی عورت نے بتایا کہ عقیدہ ابھی بھی صدمے میں ہے یا تو گھنٹوں بات نہیں کرتی یا پھر سڑک کو گھورتی رہتی ہے۔ نہ کھاتی ہے نہ پیتی ہے یہاں تک کہ وہ رونا بھی شاید بھول چکی ہے۔

مجھے ذہنی طور پر تیار کردیا گیا تھا کہ مجھے اس دکھی ماں سے شاید ہی کوئی جواب مل سکے۔ میں نے جب ان خواتین کو بتایا کہ میں ان کے درمیان بیٹھنا چاہتی ہوں تو یہاں بھی ان لٹے پٹے خاندانوں نے اپنی مہمان نوازی برقرار رکھتے ہوئے ایک مثال قائم کر ڈالی۔

میں مٹی پر نہ بیٹھوں تو ایک عورت کے کہنے پر بچی دوڑ کر ایک تکیہ لے آئی جو میری نشست کے لیے رکھا گیا۔ میں کافی دیر خاموش بیٹھی رہی۔ اس مجمع کے ہوتے ہوئے یہ خاموشی ایک کان پھاڑ دینے والا ایسا شور محسوس ہورہا تھا جس کو یا تو میں سن سکتی تھی یا پھر عقیدہ۔

عقیدہ تمہارے بچوں کے کیا نام تھے؟ ایک گہری خاموشی کے بعد یہ میرا پہلا سوال تھا کہ اچانک سب نے اس کی جانب دیکھا اور پھر مجھے۔ ایک عورت نے کہا یہ کہاں بول رہی ہے کچھ۔ میں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور پھر پوچھا بچوں کے نام کیا ہیں؟

چند منٹ کی خاموشی کے بعد رندھی ہوئی آواز میں جواب آیا ـ ـ “افسانہ، وسیمہ، عنایت۔میرا گھر ختم ہو گیا سب ختم ہوچکا ہمارے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے جیسے میرے بچے تڑپ تڑپ کے مرے ہیں ایسے ہی مارنے والے کے بھی تڑ پیں گے۔ میرے بچے ختم ہوگئے مجھے خبر بھی نہ ہوئی وہ اس دنیا سے چلے گئے مجھے کیسے خبر نہ ہوئی۔’

عقیدہ بول رہی تھیں اور اپنے بچوں کو یاد کر کے سر پیٹنے لگیں وہ کھل کر رو رہی تھی اور اس خیمے میں جہاں کچھ دیر قبل ایک خوفناک خاموشی تھی اب وہاں بیٹھی عورتوں کی سسکیوں کی آوازیں تھی۔

یہ میری زندگی کی سب سے مشکل تعزیت تھی۔ عقیدہ بہت دیر خاموش رہتیں جیسے اب بات نہیں ہو گی لیکن پھر وہ بولنے لگتیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرا جسم سُن ہو گیاہے کئی منٹ کے ریکارڈ پر ہوئے اس انٹرویو کے بارے میں، میں جانتی تھی کہ اس میں سے ایڈیٹنگ کے دوران خاموشی زیادہ، کپکپاتی آواز اور رندھے ہوئے لہجے کی فریاد کم ہی نکل پائے گی۔

لیکن رپورٹر ہونے کی حیثیت سے میرے لیے نہ جانے کیوں یہ ساٹ غیر اہم تھا۔ میرے لیے سب سے اہم یہ تھا کہ ایک ماں جو چار روز سے بھوکی پیاسی بیٹھی ہے۔ بات کرنا بھول چکی ہے وہ اب رو رہی تھی اپنا دل ہلکا کرنے کی کوشش میں تھی اس نے ایک گھونٹ پانی پی لیا تھا وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد یاد کرتی تھی کہ اس کے بیٹے عنایت کی شادی سیلاب سے پہلے طے تھی لیکن سیلاب آگیا تو اب تین ماہ بعد ہونے تھی۔

اسے اچانک یاد آتا تھا کہ عنایت نے ماں سے کیا وعدے کر رکھے تھے۔ اسے اپنی بیٹیوں کے لاڈ پیار یاد آنے لگتے تھے۔ وہ ٹوٹے پھوٹے لفظوں اور جملوں سے خود کلامی کر رہی تھی اور میں اسے دیکھ کر سوچے جارہی تھی۔ کہ ایک ماں کیسے اپنے بچوں کی جان بچا کر محفوظ مقام تک آن پہنچی لیکن موت اس کے بچوں کے تعاقب میں یہاں تک آ گئی۔

تمہارے بچوں کے مرنے کے بعد سرکار نے تمھاری کیا مدد کی؟ یہ روایتی سوال میں نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھ بیٹھی لیکن اس کے جواب نے میرے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ عقیدہ نے برتنوں کی جانب اشارہ کیا میں سمجھ نہ پائی۔ میں نے پھر زور دے کر پوچھا حکومت نے کچھ امداد کی؟ “ہاں مجھے پانچ کلو آٹا، دو کلو چاول اور دو کلو شکر ملی ہے وہ وہاں رکھی ہے۔پولیس والے آئے تھے انہوں نے کہا کہ ہم ٹینکر والے کو پکڑ لیں گے اور خیال کریں گے کہ اب ایسا حادثہ نہ ہو انہوں نے ہمیں پانچ کلو آٹا دیا ہے ہمیں امداد مل گئی ہے۔’

‘میرے تین بچے مرے ہیں تو امداد خود آگئی۔’ عقیدہ بار بار یہ جملہ دہرائے جارہی تھی وہاں تعزیت کے لیے دوسرے علاقوں سے آنے والی عورتوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور میں یہ سب سن کر سر جھکا ئے ایسے بیٹھی تھی جیسے منور علی اور عقیدہ کی مجرم میں ہوں۔

مرنے والے عنایت کی منگیتر علمہ جس کا جہیز سیلاب میں بہہ چکا تھا وہ اپنے منگیتر کی موت پر آنسوؤں کی جھڑی لگائے بیٹھی تھی میرے اٹھنے پر لڑکھڑاتے قدم پر اس لڑکی نے مجھے سہارا دیا جو خود اب بے سہارا ہوچکی تھی۔

میرے پاس اسے تسلی دینے کے الفاظ ختم ہوچکے تھے میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور باہر آکر خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ میرا کیمرامین مجھ سے پوچھ رہا تھا اب کہاں جانا ہے؟ لیکن میرے کانوں میں بار بار عقیدہ کا جملہ سنائی دے رہا تھا ـ ‘میرے بچے مر گئے تو مجھے پانچ کلو آٹا مل گیا وہ چلے گئے تو امداد آگئی لیکن میرے بچوں کی طرح بھوک بھی مر گئی ہے۔’

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments