ناکام کارگل آپریشن اور مارشل لاء


یہ 9 اکتوبر 1999 کا دن تھا وزیراعظم نواز شریف جاتی امرء میں اپنے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کو کہتے ہیں کہ میں نے مشرف کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ شہباز شریف ان کا فیصلہ سن کر حیران رہ جاتے ہیں۔ جو اباً شہباز شریف کہتے ہیں اگر مشرف کو ہٹانا ہی تھا تو چار ماہ پہلے یعنی جون کے آغاز میں کیوں نہیں یہ فیصلہ کیا گیا جب کارگل کے ناکام آپریشن کی وجہ سے نیول چیف اور فضائیہ چیف مشرف کے خلاف تھے اور ہر روز شکایات کر رہے تھے؟

اس وقت ان کو ہٹانے کا نتیجہ خطرناک ہو سکتا ہے شاید مارشل لاء بھی لگ جائے۔ میاں نواز شریف اپنے بھائی کی بات سننے کے بعد کچھ نہ بولے شاید وہ خود کو ذہنی طور پر ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرچکے تھے۔ اب اس فیصلے سے متعلق میاں نواز شریف نے اپنے قریبی لوگوں کو اعتماد میں لینا شروع کر دیا۔ شہباز شریف کے بعد سب سے پہلے انہوں نے اپنے ملٹری سیکرٹری جاوید اقبال کے سامنے بھی اپنا فیصلہ دوہرایا۔ جاوید اقبال بھی شہباز شریف کی طرح حیران رہ گئے۔

انہوں نے وزیراعظم سے کہا سر آپ کو معلوم ہے ضیاء الحق ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کے پھندے تک لے گئے تھے۔ نواز شریف نے کہا قانونی اور آئینی طور پر یہ میرا اختیار ہے اس میں کون سی چیز غلط ہے۔ تو جاوید اقبال نے کہا سر جنرل مشرف اور ان کے جن ساتھیوں نے کارگل کا ناکام آپریشن کیا تھا وہ اس پر خاموش نہیں بیٹھیں گے وہ لازمی اس پر ردعمل دیں گے۔ وہ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ ان کو ریٹائرڈ کر کے ان کا کورٹ مارشل کیا جائے۔

جاوید اقبال نے وزیر اعظم کو بتایا کہ کارگل آپریشن کے مرکزی کردار راولپنڈی کے کور کمانڈر جنرل محمود کے انڈر ٹرپل ون برگیڈ ہوتی ہے جو مارشل لاء کی صورت میں وزیر اعظم ہاؤس، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر سب سے پہلے قبضہ کرتی ہے وہ ہرگز اپنے باس کی برطرفی برداشت نہیں کریں گے۔ یہ میٹنگ آدھا گھنٹہ جاری رہی۔ نواز شریف نے سینیئر صحافی نذیر ناجی کو وزیراعظم ہاؤس میں بلایا تھا تاکہ وہ ان کی آرمی چیف کو جنرل مشرف کو برطرف کرنے والی تقریر تیار کرسکیں جو اعلان ہونے کے بعد وزیراعظم نے پی ٹی وی پر کرنی تھی۔

وزیر اعظم نواز شریف آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے اور کارگل آپریشن کی ناکامی پر انکوائری کمیشن بنانا چاہتے تھے۔ 11 اکتوبر کو وزیر اعظم یو اے ای روانہ ہو گئے۔ جہاں انہوں نے شیخ زید بن النہیان سے ملاقات کرنی تھی۔ یو اے ای کے پاکستانی بینکوں میں 45 کروڑ ڈالر پڑے تھے شیخ زید ان کو اب یو اے ای منتقل کرنا چاہتے تھے۔ اس ملاقات کا بنیادی ایجنڈا بھی یہی تھا کہ ناکام کارگل آپریشن اور ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان معاشی بدحالی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔

میاں نواز شریف چاہتے تھے یو اے ای یہ ڈالر فی الحال پاکستانی بینکوں میں رہنے دے۔ میاں نواز شریف شیخ زید کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ نواز شریف معاشی مشکل حل کر کے پاکستان واپس آ گئے، اگلے دن انہوں نے ملتان کے علاقے شجاع آباد میں کسانوں سے خطاب کرنا تھا جہاں انہوں نے کسان پیکج کا اعلان کرنا تھا۔ وزیر اعظم نے جلدی سے اپنے تقریر مکمل کی اور اسلام آباد کی جانب روانہ ہو گئے۔ وزیراعظم کو اسلام آباد ائر پورٹ پر پہنچنے سے قبل اپنا سیکرٹری دفاع جنرل افتخار علی خان ہر صورت چاہیے تھا۔

سیکرٹری دفاع شدید بیمار تھے اس کے باوجود وہ ائر پورٹ پر پہنچ گئے۔ وزیراعظم نے اپنی گاڑی میں ہی جنرل افتخار کو بٹھایا اور بتایا کہ آپ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے کہ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ریٹائرڈ کر دیا گیا اور جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف بنا دیا ہے۔ سیکرٹری دفاع بھی حیران رہ گئے انہوں نے کہا سر اس فیصلے سے متعلق کابینہ کو آگا کر دیا؟ نواز شریف کہا اس کا کابینہ سے کوئی تعلق نہیں ان کو آگا کر دیا جائے گا۔

سیکرٹری دفاع نے کہا سر آپ کم از کم شہباز شریف اور چوہدری نثار سے مشورہ کر لیں۔ نواز شریف نے کہا جنرل صاحب مشورے کا وقت گزر چکا ہے۔ اس دوران وہ وزیر اعظم ہاؤس پہنچ گئے۔ نواز شریف نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری سعید مہدی سے کہا فوری ایک آرڈر جاری کریں کہ وزیراعظم نے کارگل پر انکوائری کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نواز شریف، سیکرٹری دفاع، سعید مہدی اور پی ایم ہاؤس کے چیف سیکیورٹی پرویز راٹھور وزیراعظم کے چیمبر میں موجود سائیڈ روم میں چلے گئے۔

اس وقت وزیر اعظم ہاؤس میں شہباز شریف اور چوہدری نثار بھی موجود تھے لیکن ان دونوں کو اس تمام صورتحال کے متعلق معلومات نہیں تھی۔ یہ دونوں کسی اور روم میں تھے۔ سعید مہدی نے بھی کہا سر شہباز شریف اور چوہدری نثار یہی موجود ہیں آپ ان سے مشورہ کر لیں۔ نواز شریف نے کہا مشورے کا وقت نہیں رہا۔ سعید مہدی نے آرڈر تیار کیا۔ نواز شریف آرڈر لے کر خود صدر پاکستان رفیق تارڑ کے پاس چلے گئے، جس پر صدر پاکستان نے دستخط کر دیے۔

اب آرڈر نواز شریف کے پاس تھا اور جو تقریر انہوں نے کرنی تھی وہ چیئرمین پی ٹی وی پرویز رشید کے پاس تھی۔ شیشے کے ایک طرف نواز شریف، پرویز رشید، حسین نواز اور نذیر ناجی کھڑے تھے جبکہ دوسری طرف شہباز شریف اور چوہدری نثار باہر والی سائیڈ پر کھڑے تھے ان کو معلوم نہیں تھا یہ سب کچھ کیا ہو رہا تھا۔ اسی دوران ملٹری سیکرٹری کو نواز شریف نے حکم دیا آئی ایس آئی چیف جنرل ضیاء الدین بٹ کو کہیں وزیراعظم نے آپ کو فوری بلایا ہے۔

جنرل ضیاء الدین بٹ وزیر اعظم ہاؤس پہنچ گئے، جب وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو ان کے ساتھ تقریباً 80 کے قریب کمانڈوز تھے۔ خیر کچھ ہی دیر میں ان کو آرمی چیف کے بیجز لگا دیے گئے۔ آئینی اور قانون عمل مکمل ہو گیا فوج کی کمان جنرل ضیاء الدین بٹ کے ہاتھ میں آ گئی۔ اب دوسری طرف جنرل مشرف اور ان کے ساتھ متوقع صورتحال کی پوری تیار کرچکے تھے۔ نئے آرمی چیف جنرل ضیاء الدین بٹ نے جی ایچ کیو کے ملٹری سیکرٹری جنرل مسعود کو فوج کیا اور اپنی نئی تعیناتی سے متعلق اطلاع دی۔

ساتھ ہی انہوں نے دو آرڈر جاری کرنے کہا ایک کور کمانڈر پنڈی جنرل محمود کو تبدیل کر کے ان کی جگہ جنرل سلیم حیدر اور دوسرے کارگل کے اہم کردار جنرل عزیز کی جگہ جنرل اکرم کو چیف آف جوائنٹ سٹاف مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا کہا۔ اس پر جنرل مسعود نے اوکے سر کہہ کے فون بند کر دیا۔ دوسری جانب چیئر مین پی ٹی وی پرویز رشید نے سوا پانچ بجے پی ٹی وی پر پرویز مشرف کی ریٹائرڈ منٹ اور جنرل ضیاء الدین بٹ کے نئے آرمی چیف کی خبر بریک کرا دی۔

جنرل مشرف نے سری لنکا روانگی سے قبل اپنے تین ساتھی جنرلز کو ہدایت کی تھی کہ ایسی خبر پر نظر رکھنی ہے۔ وہ جنرل محمود، جنرل عزیز اور جنرل شاہد عزیز تھے۔ لیکن ان تینوں نے یہ خبر نہیں دیکھی تھی۔ چند ہفتے قبل جو جنرلز نواز شریف کو فتح کشمیر کا لقب دے رہے تھے اب وہ حرکت میں آچکے تھے اور ان کو گرفتار کرنے پہنچ گئے۔ جاری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments