ماحولیاتی انصاف کے مطالبے اور عالمی ماحولیاتی کانفرنس سی او پی 27


پاکستان میں سیلاب کی حالیہ تباہ کاریوں کی حوالے سے موسمیاتی ماہرین کے عالمی گروپ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کی جانب سے کی گئی ایک تحقیقی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں خاصی حد تک پاکستان میں ہونی والی بارشوں کی شدت میں اضافے کا سبب بنی ہیں۔ اس حوالے سے سندھ اور بلوچستان میں بارشوں کے پانچ روزہ غیر معمولی اسپیل کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔

دنیا کی 20 بہترین یونیورسٹیوں کے ماہرین کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق ان بارشوں کے اس اسپیل کی شدت میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے سبب 75 فیصد اضافہ ہوا۔ اور پورے خطے میں دو مہینے کے دوران ہونے والی بارشوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 50 فیصد شدت آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مختلف ماڈلز کی بنیاد پر اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ بارشوں کی شدت میں اضافے کا یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔

رپوٹ کے مطابق پاکستان جنوب ایشیائی مون سون خطے کے مغربی حصے میں واقع ہے اور ملک میں عام طور پر جون سے ستمبر کے درمیاں بارشیں ہوتی ہیں لیکن ان کی شدت اکثر بھارت میں ہونے والی بارشوں سے کم ہی رہتی ہے لیکن 2022 میں بحرالکاہل کے درجہ حرارت میں تغیرات کے ذریعے پیدا ہونے والے موسمیاتی مظہر لانینا اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مون سون ایک موسمیاتی سانحے کی شکل اختیار کر گیا۔ ملک میں مارچ سے ہی شدید گرمی کی لہر کا آغاز ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں آگے چل کر درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔

اس گرم موسم نے بحیرہ عرب میں ہوا کے کم دباؤ میں اضافہ کیا جو ان بارشوں میں شدت کا ایک سبب بنا۔ رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس سال سندھ اور بلوچستان کو خلیج بنگال سے اٹھنے والے ہوا کے کم دباؤ کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے کئی دفعہ جنم لینے والے بارشوں کے سلسلوں کا سامنا کرنا پڑا جو کہ تباہی کا سبب بنے

ان سائنسی شواہد کی بنیاد پر یہ بیانیہ زور پکڑ رہا ہے کہ پاکستان کے تین کروڑ سے زیادہ سیلاب متاثرین ماحولیاتی تبدیلیوں کے خوفناک نتائج کا سامنا کر رہے جبکہ ماحولیاتی بحران کو پیدا کرنے میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس حوالے سے 22 ستمبر کو پوری دنیا میں ماحولیاتی متاثرین کے ساتھ یکجہتی کے طور پر لاس اینڈ ڈیمیجز ڈے منایا گیا۔ جس کے تحت دنیا کے کونے کونے سے افریقہ کے قحط اور پاکستان کے سیلاب متاثرین کے نقصانات کے ازالے کے لیے آوازیں بلند ہوئیں۔

احتجاج کرنے والے ماحولیاتی کارکنوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور خاص طور پر نوجوانوں نے اس بات پر زور دیا کہ شمال کے ترقی یافتہ ممالک جو کہ تاریخی طور پر صنعتی انقلاب کے بعد گرین ہاؤس گیسز کے 92 فیصد اخراج کے ذمہ دار ہیں، پاکستان اور افریقہ کے ماحولیاتی متاثرین کو ان کے نقصانات کا معاوضہ ادا کریں۔ پاکستان کی وزیر ماحولیات شیری رحمان صاحبہ نے بھی گارجین اخبار کے لیے لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں ان سائنسی ماڈلز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اب یہ بات سائنسی طور پر عیاں ہو چکی ہے کہ ہمارے ملک میں آنے والے تباہ کن سیلاب اس ماحولیاتی بحران کا نتیجہ ہے جس کو پیدا کرنے کی ذمہ داری تاریخی طور پر زیادہ آلودگی پیدا کرنے والے امیر ممالک پر عائد ہوتی ہے۔

اس وقت پاکستان لاکھوں سیلاب متاثرین کی فوری بنیادی ضروریات پوری کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ کروڑوں لوگوں کی دوبارہ آبادکاری اور ان کے روزگار کے ذرائع کی بحالی کے لیے کثیر سرمایہ درکار ہے جس کے لیے عالمی برادری خاص طور پر امیر دنیا کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ جناب بلاول بھٹو صاحب بھی عالمی سطح پر پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے ماحولیاتی انصاف کا کیس مختلف عالمی فورمز پر اٹھا رہے ہیں۔

اس تناظر میں پاکستان سمیت پوری جنوبی دنیا کے کروڑوں ماحولیاتی متاثرین کی نظریں نومبر میں مصر میں منعقد ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس سی او پی 27 پر مرکوز ہیں جس کے لیے دنیا بھر کے ماحولیاتی کارکن بڑے عرصے سے تحریک چلا رہے ہیں کہ اس کانفرنس میں غریب دنیا کے لیے ماحولیاتی انصاف، ماحولیاتی متاثرین کے لیے معاوضے، شمال کے امیر ملکوں کی طرف سے ماحولیاتی بحران پیدا کرنے میں ان کی تاریخی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے غریب دنیا کے نقصانات کے ازالے اور ماحولیاتی بحران کے اثرات کے مقابلے کے لیے ترقی پذیر ملکوں کے قرضوں کی معافی جیسے معاملات پر سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کیے جائیں۔ اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ کانفرنس کی نائب صدارت پاکستان کے حوالے کی گئی ہے جس سے اس بات کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ اس کانفرنس میں پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے ماحولیاتی معاوضے کے مطالبے کو زیادہ پذیرائی ملے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments