پاکستان میں مذہبی سیاحت کا فروغ


وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مذہبی سیاحت کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے، ہندو اور سکھ برداری کے بعد بدھ مت مذہب کے پیرو کار پاکستان کا رخ کر رہے ہیں، یہاں آ کر مکمل آزادی اور سکون کے ساتھ وہ اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں اور مزید تحقیق اور سیاحت کے لئے پاکستان کے دیگر مقامات پر بھی جاتے ہیں، چند روز قبل بدھ مت کے پیروکاروں کا یہاں آنا ہوا، جنہوں نے یہاں اپنی مذہبی رسومات بہت اطمینان سے ادا کیں، جس پر انہوں نے حکومت پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا، آئیں پہلے جانتے ہیں یہ بدھ مت کیا ہے؟

دنیا میں چار ہزار سے زائد مختلف مذاہب ہیں، جس میں سے ایک ”بدھ مت“ بھی ہے جیسے دنیا کا پانچواں بڑا مذہب کہا جاتا ہے۔

بدھ مت مذہب کا بانی گوتم 563 قبل مسیح میں سدھارتھ ہمالیہ کی ایک ریاست میں پیدا ہوا،

پاکستان بدھ مت کی عظیم خانقاہوں، اسٹوپوں اور قدیم یونیورسٹیوں کا مسکن رہا ہے۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے علاقے خاص طور پر بدھ مت کے زرخیز تاریخی اور ثقافتی ورثے کے امین ہیں۔

پاکستان میں بدھ ازم کی تاریخ تقریباً 2، 300 سال قدیم ہے، مذہبی سیاحت کرنے والوں نے پاکستان میں متعدد جگہوں پر بدھ مذہب کے آثار دریافت کیے ہیں، شروع کرتے ہیں گلگت بلتستان سے جہاں

کئی جگہوں پر بدھ آثار ملتے ہیں جن میں منتھل بدھا کی چٹان اور ہنزہ کی مقدس چٹان سر فہرست ہیں۔

تخت بھائی، مردان:

تخت بھائی بازار سے 2 کلومیٹر دور ایک چھوٹی سی پہاڑی کے اوپر موجود گندھارا کی بہترین طرز تعمیر کی حامل بدھ خانقاہ اور اس کے آثار واقع ہیں جو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ تخت نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے اور بھائی (فارسی میں پانی کو کہتے ہیں ) اس لیے کہ اس کے ساتھ ہی ایک دریا بہتا تھا۔ تخت بھائی ضلع مردان کا سب سے زرخیز علاقہ ہے۔ اس زمین کی زرخیزی کے پیش نظر ایشیا کی پہلی شوگر مل برطانوی راج میں یہاں بدھ خانقاہ کے نزدیک بنائی گئی تھی

یہ جگہ بدھ مت کی قدیم تہذیب و تمدن کے بارے میں نہایت مفصل معلومات و شواہد فراہم کرتی ہے۔ اس گاؤں کی بنیاد ایک قدیم قصبے کی باقیات پر رکھی گئی تھی، وہ باقیات آج بھی عمدہ حالت میں موجود ہیں۔ یہاں پائے جانے والے قدیم زمانے کے سکوں سے پتا چلتا ہے کہ یہاں بدھ مت اور ہندو دھرم کے لوگ آباد تھے۔ یہاں تعمیر کی گئی عمارتیں جو راہبوں کے لیے بنوائی گئی تھیں، ہر لحاظ سے تمام تر ضروریات زندگی سے آراستہ تھیں۔ پہاڑی کے اوپر رہنے والوں کے لیے بھی فراہمی آب کا انتظام تھا۔

عمارتوں کی دیواروں میں ہوا کی آمد و رفت کے لیے روشندان اور رات میں تیل کے چراغ روشن کرنے کے لیے طاق بھی بنائے گئے تھے۔ کھدائی کے دوران یہاں جو چیزیں دریافت کی گئی ہیں، ان میں بدھ مت کی عبادت گاہیں، صومعہ، عبادت گاہوں کے کھلے صحن، جلسہ گاہیں، بڑے بڑے ایستادہ مجسمے اور مجسموں کے نقش و نگار سے مزین بلندوبالا دیواریں شامل ہیں

وادیٔ زیریں سوات: زیریں سوات کی وادی ضلع سوات، ضلع لوئر دیر اور مالاکنڈ پر مشتمل ایک اہم تاریخی علاقہ ہے جہاں آریائی لوگوں کے ابتدائی دور کے آثار موجود ہیں۔ دریائے سوات کی جنوبی وادی کئی ہزار سال سے حملہ آوروں کی آماجگاہ رہی ہے یہاں چکدرہ برج سے لے کر سیدو شریف تک گندھارا کے آثار، بدھ خانقاہیں اور شاہی عمارتیں بکھری ہوئی ہیں۔ زیادہ تر قدیم تاریخی جگہیں بریکوٹ سیدو شریف اور اوڈیگرام کے آس پاس ہیں۔

٭بری کوٹ، سوات: وادیٔ سوات کا دروازہ بریکوٹ، دریائے سوات کے کنارے آباد ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ سکندر اعظم کے بسائے گئے شہر ”بزیرہ“ کے آثاروں پر آباد ہے جسے ایک اطالوی ٹیم 1984 سے کھود رہی ہے۔ یہاں دریافت ہونے والی قابل توجہ اشیاء میں سے اپنے گھوڑے پر سوار، سدھارتھ بدھا کا بڑا سبز مجسمہ اور چٹان میں کھدی دو شیروں والے اسٹوپے کی شباہت شامل ہیں۔

لوئر دیر: لوئر دیر صوبہ خیبر پختونخوا کے اہم مرکزی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ یہ شہر گندھارا سلطنت کے آثار قدیمہ اور ہندوؤں کے قلعوں کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں دم کوٹ ہل کی چوٹی کی کھدائی سے ملنے والے برتن اور زیورات سوات کے سیدو شریف میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔ 65۔ 1962 میں احمد حسن دانی نے کھدائی کے دوران یہاں سے پہلی صدی کا قدیم بدھ اسٹوپا اور خانقاہ دریافت کیے ہیں۔ اس چٹان کے نیچے بھی کندہ بدھ عبارتیں ملی ہیں۔

صوابی: عزیز ڈھیرئی، ضلع صوابی میں ”گنگو ڈھیرئی“ نامی قصبے سے 3 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ جگہ 1976 میں دریافت کی گئی تھی لیکن اس کی کھدائی 1993 میں شروع کی گئی۔ عزیز ڈھیرئی چند وجوہات کی بنا پر بہت اہم ہے جیسے کہ یہاں آپ کو قدیم زمانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی سے بسائی گئی بستیاں ملیں گی۔ دوسرا یہ گندھارا تہذیب کی وہ جگہ ہے جو آپ کو بغیر کسی رکاوٹ کے، دوسری صدی ق م سے لے کر اسلامی سلطنت تک کی تمام ثقافتی تصویر پیش کرتی ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آثارقدیمہ کی مدد سے جب یہاں کی کھدائی کی گئی تو کئی چیزیں اور تہیں دریافت ہوئیں جو اس جگہ کی گندھارا سلطنت میں اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہاں ایک جگہ کو ”متبرک مقام“ کا نام دیا گیا ہے جہاں کئی اسٹوپے واقع ہیں جن کے درمیان ایک بارانی نالا بھی گزرتا ہے۔ یہاں مذہبی عبادت گاہوں کے ساتھ ساتھ رہائشی علاقے بھی دریافت کیے گئے ہیں۔

پشاور: صوبہ خبیر پختون کے دارالحکومت پشاور شہر کے نواح میں واقع یہ اسٹوپا دوسری صدی ق م میں کشان سلطنت کے حکم راں کنشکا نے بدھ مذہب کی باقیات کو محفوظ رکھنے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ کھدائی کے بعد بدھ مت کی متبرک اشیاء کو برما کے شہر ”مانڈلے“ منتقل کر دیا گیا۔ یہ اپنی طرز کا ایک منفرد اسٹوپا تھا جو مینار کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ اس جگہ کی کھدائی ڈیوڈ اسپونر کی زیرنگرانی 1908 میں شروع کی گئی اور اس کہ تہہ سے نہایت قیمتی چھ کونوں والا صندوقچہ برآمد کیا گیا۔ اس صندوقچے میں بدھا کی ہڈیوں کے تین حصے رکھے تھے جو برما کے شہر مانڈلے بھیج دیے گئے جبکہ صندوقچے کو پشاور میوزیم کی زینت بنا دیا گیا۔

پشاور میوزیم، پشاور: ذکر ہو گندھارا تہذیب کا اور پشاور کے عجائب گھر کو نہ یاد کیا جائے یہ ممکن ہی نہیں۔ دنیا میں بدھ ازم اور بدھ سلطنتوں سے متعلق قدیم اشیاء کا سب سے بڑا مسکن یہ میوزیم 1907 میں بنایا گیا تھا۔ پشاور شہر کا میوزیم اپنے اندر بدھا کے سیکڑوں نایاب مجسمے، قدیم اسٹوپے اور ان کی باقیات، سکے، تاریخی و نادر اشیاء جیسے برتن، مہریں، زیورات وغیرہ اور خانقاہوں کے کھنڈرات محفوظ کیے ہوئے ہے۔ یہاں آپ گندھارا گیلری میں خیبر پختونخوا کے کونے کونے سے دریافت کر کے لائے گئے مختلف حالتوں اور مراقبے میں بیٹھے بدھا کے مجسمے اور ان کے دربار کے مناظر دیکھ سکتے ہیں

ہری پور: ضلع ہری پور میں خانپور کے ساتھ بھامالا کے کھنڈرات واقع ہیں جو ایک زمانے میں ”بہامالہ بدھ کمپلیکس“ کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اس سائیٹ کو 1929 میں سر جون مارشل اور سر سفیان ملک نے مل کر کھودا تھا۔ اس کھدائی کو 2017 میں بند کر دیا گیا ہے۔ یہ جگہ بھی یونیسکو کی ”عالمی ثقافتی ورثہ“ کی فہرست میں شامل ہے۔ اس فہرست میں جگہ بنانے کے بعد یہاں بحالی کا بہت کام ہوا ہے اور بلاشبہ یہ ٹیکسلا وادی کی بہترین طریقے سے محفوظ کی گئی جگہوں میں سے ایک ہے۔

ٹیکسلا: راولپنڈی سے 22 میل دور ایک قدیم شہر ہے جس کے لفظی معنی ”کٹے ہوئے پتھر کا شہر“ کے ہیں۔ اس شہر کو بدھ مت کی تاریخ کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ یہیں راجا امبھی نے سکندر اعظم کی اطاعت قبول کی جس کے بعد سکندر راجا پورس سے لڑنے کے لیے جہلم کے کنارے پہنچا۔ باختر کے یونانی حکم ران دیمریس نے 190 ق م میں گندھارا کا علاقہ فتح کر کے ٹیکسلا کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ مہاراجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہر کی رونق پورے عروج پر تھی اور یہ بدھ تعلیم کا مرکز تھا۔

ساتویں صدی عیسوی میں مشہور چینی سیاح ”ہیون سانگ“ یہاں آیا تھا۔ اس نے اپنے سفرنامے میں اس شہر کی عظمت و شوکت کا ذکر کیا ہے۔ ٹیکسلا شہر سے دریافت ہونے والے کچھ کھنڈرات چھٹی صدی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں سے میورا سلطنت، ہند یونانی اور کشان سلطنت کے زمانے کی بھی کافی چیزیں دریافت کی گئی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ٹیکسلا کی یونیورسٹی دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی تھی۔

رحیم یارخان: سے جنوب میں ابوظبی محل روڈ پر تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر پتن منارہ واقع ہے جسے تاریخ داں ایک قدیم بدھ خانقاہ قرار دیتے ہیں۔ پتن منارہ تاریخ میں پتن پور کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بعض محققین کے مطابق پتن پور سکندر اعظم نے تعمیر کروایا تھا اور یہاں اک بہت بڑی درس گاہ تعمیر کی تھی، جب کہ کچھ کے نزدیک یہ شہر سکندر اعظم کے زمانے سے بھی پہلے کا آباد تھا اور صحرائے چولستان میں سے گزرنے والا ایک قدیم دریا ”ہاکڑا“ یا ”گھاگھرا“ پتن پور کے قریب سے بہتا تھا۔ سکندر اعظم نے اس شہر کو فتح کرنے کے بعد کچھ عرصہ اپنی فوج کے ساتھ یہاں قیام کیا تھا۔ اسی قیام کے دوران سکندر اعظم نے یہاں ایک مینار تعمیر کروایا، جس کا نام پتن منارہ تھا۔

نوابشاہ: یہ ایک منفرد قسم کا اسٹوپا (یا ٹھل) ہے جو ضلع نواب شاہ کے شہر دولت پور صفن سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر اور قاضی احمد شہر کے شمال میں واقع ہے۔ سندھ میں بدھ مت کا یہ واحد یادگار ٹھل یا اسٹوپا ہے جس کی چھت گنبد نما ہے۔ اس یادگار کی اونچائی 60 فٹ ہے اور یہ کچی اور پکی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔

میرپور خاص: میرپور خاص شہر سے کچھ فاصلے پر واقع یہ جگہ آج ایک بے آب و گیاہ قطعے کا منظر پیش کرتی ہے لیکن بلاشبہ اس کی مٹی میں آج بھی کہیں نہ کہیں تاریخ بسی ہوئی ہے۔ 30 ایکڑ پر محیط اس علاقے سے کھدائی کے دوران اسٹوپے، مٹی اور شیشے سے بنے گلدان، کندہ اینٹیں اور پتھر اور مختلف قدیم چیزیں دریافت ہوئیں جن میں سے کچھ کو کراچی میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ آج اس اسٹوپے کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ سیاحوں کے لیے یہاں اب کچھ نہیں بچا لیکن ماہرین آثار قدیمہ اب بھی یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔

سانگھڑ: برہمن آباد کا اسٹوپا ضلع سانگھڑ میں ٹنڈو آدم۔ سانگھڑ روڈ کے کنارے واقع ہے۔ مقامی لوگ اسے ”برہمن آباد جو ٹھل“ کے نام سے پکارتے ہیں۔ پرانے دور کا یہ متبرک اسٹوپا آج بھی خستہ حالت میں ریتیلے میدان میں ایستادہ ہے۔ پکی اینٹوں سے بنائے گئے اس اسٹوپے کی مرمت کا کام محکمہ آثار قدیمہ، حکومت سندھ کی زیر نگرانی جاری ہے۔

خیرپور: روہڑی ہلز کے کنارے واقع یہ بدھ آثار قدیمہ خیرپور سے سوراہ جانے والی سڑک کے نزدیک واقع ہیں۔ پتھر اور گارے سے بنے ان آثار کا ذکر سندھ کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا اور آج بھی بہت کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔

صوبہ بلوچستان میں بھی چند مقامات پر بدھ مت کے آثار پائے گئے ہیں۔ ان میں سرفہرست گوندرانی کے غار ہیں جو ضلع لسبیلہ میں بیلا شہر سے 20 کلومیٹر شمال کی جانب واقع ہیں۔ اس جگہ کو ”مائی گوندرانی کا شہر“ ، ”شہر روغان“ اور ”روحوں کا مسکن“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر کی تاریخ کیا ہے اور یہ قدیم غاریں کس نے اور کب بنائیں؟ تاریخ داں اس بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔ لیکن ان کا قیاس ہے کہ یہاں 8 ویں صدی میں ایک عظیم بدھ خانقاہ قائم تھی، چوں کہ تب یہ علاقہ بدھ سلطنت کا حصہ تھا سو اس قیاس کو سچ مانا جا سکتا ہے

حال ہی میں تھائی لینڈ کے 130 رکنی وفد نے تخت بائی (سوات) میں قائم بدھ مت کی تاریخی اور مذہبی مقامات کا دورہ کیا۔ جہاں اس وفد نے سوات میں قائم بدھ مت کے مختلف مذہبی مقامات پر مذہبی رسومات ادا کیں۔ اس موقع پر وفد کے اراکین نے سوات کے عوام اور حکومت کا شکریہ ادا کیا جو ان کے مذہبی مقامات کی اچھی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ وفد میں شامل اراکین نے کہا کہ سوات پرامن، خوبصورت اور پر فضا جگہ ہے۔ اور ہمیں سوات میں آ کر بہت اچھا محسوس ہو رہا ہے۔ وفد کے اراکین نے کہا کہ پاکستان اقلیتوں کے لئے ایک اہم ملک ہے۔ یہاں ہر سال مختلف مذاہب کے لوگ آزادی سے مذہبی رسومات ادا کرنے کے لئے باہر سے تشریف لاتے ہیں۔ یہ اس بات کی عکاس ہے کہ پاکستان میں مذہبی رواداری کو اہمیت دی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments