میں کلا ای کافی آں – عمران خان


پی ڈی ایم کی حکومت نے تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے جمع کرائے گئے استعفوں میں سے کافی سوچ بچار کے بعد 8 حلقوں کا انتخاب کیا اور ان کے ممبران اسمبلی کے استعفوں کو منظور کر کے الیکشن کمیشن کو بھیج دیا۔ الیکشن کمیشن نے ان حلقوں پر ضمنی الیکشن کا شیڈول جاری کر دیا۔ 16 اکتوبر کو ان 8 قومی اسمبلی کے حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوا جس میں سے 6 حلقوں میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جبکہ دو نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے علی موسیٰ گیلانی اور عبدالحکیم بلوچ کامیاب ہو گئے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ برسراقتدار نون لیگ ایک بھی قومی اسمبلی کی نشست نا جیت سکی اور ساتھ ساتھ اے این پی اور جے یو آئی کے امیدوار ہار گئے۔ نون لیگ کے لیے فیصل آباد میں عابد شیر علی کی نشست ہارنا بلاشبہ ایک دھچکا ہو گا کہ وہاں پر رانا ثنا اللہ اور عابد شیر علی کا گٹھ جوڑ بھی ان کو کامیاب نا کرا سکا۔

یہ ضمنی انتخابات بہت سے سوال پیدا کر گیا ہے۔ ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر ان سیاسی جماعتوں کے لیے جنہوں ان انتخابات میں حصہ لیا۔ ہر جماعت کو ایک بار بیٹھ کر ان انتخابی نتائج کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہو گا اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تلاش کر کے ان کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ اگر ایسا نا کیا گیا تو عام انتخابات بھی قریب ہیں اور نتائج کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ ان انتخابات کے حوالے سے سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ حکومت نے جن حلقوں کو محفوظ تصور کرتے ہوئے ان کے اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے وہاں پر نتائج مختلف کیسے آ گئے۔

کیا امیدواروں کا انتخاب ٹھیک نہیں تھا اگر یہ بات ہے تو لگے ہاتھوں اس کا جائزہ لے لیتے ہیں کہ عابد شیر علی، غلام احمد بلور، ایمل یار ولی اور مولانا قاسم کمزور نہیں بلکہ بہت اچھے اور مضبوط امیدوار تھے تو طے ہو گیا کہ امیدواروں کا انتخاب تو ٹھیک تھا پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کیسے جیت گئے۔ جبکہ حلقوں کے ووٹرز کو بھی علم تھا کہ عمران خان اسمبلی میں نہیں جائیں گے اور یہ نشستیں دوبارہ خالی ہوجائیں گی۔

کیا ان انتخابی نتائج سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت عوام میں عمران خان کا بیانیہ سرایت کرچکا ہے اور عوام کپتان کے بیانیے سے متفق ہے تو حالیہ انتخابی نتائج سے تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ ایسا ہی ہے کہ عمران خان کا بیانیہ مقبول ہو چکا ہے۔ اور عمران خان نے سوائے پاکستان پیپلز پارٹی کے نون لیگ، ایم کیو ایم، اے این پی اور جے یو آئی کو دھوبی پٹکا مار کے یہ دنگل جیت لیا۔ ملتان میں گو کہ عمران خان خود امیدوار نہیں تھے اگر وہ خود ہوتے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ نتیجہ کیا ہوتا جبکہ ملیر کی نشست پیپلز پارٹی کے ورکر سے ہارنا بلاشبہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو کمزور سمجھنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو چیلنج کرنے کے لیے ابھی کپتان کو مزید بہت سا وقت درکار ہے اور آئندہ عام انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی سندھ میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ اچھا پرفارم کرے گی۔

کے پی کے میں کپتان نے اپنی سیاسی اجارہ داری کو قائم رکھا ہے اور مردان، چارسدہ اور پشاور سے قد آور شخصیات کو شکست دے کر ثابت کر دیا کہ آئندہ عام انتخابات میں کے پی کے تحریک انصاف کا مضبوط گڑھ ہو گا اور یہاں پر دیگر سیاسی جماعتوں کو الیکشن جیتے کے لیے مزید محنت کرنی ہوگی وگرنہ کامیابی ملنا مشکل ہو گا جبکہ پنجاب میں فیصل آباد اور ننکانہ صاحب والی نشستیں ہارنے کے بعد نون لیگ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ کیا یہ شکست اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ نون لیگ سینٹرل پنجاب میں اپنی گرفت کمزور کر رہی ہے یا پھر پارٹی کے اندر کی گروپنگ اس کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ جو بھی ہے نون لیگ کو بہرحال سیاسی نقصان ہوا ہے اور شاید ان نتائج کے اثرات آئندہ عام انتخابات میں بھی نظر آئیں

حالیہ ضمنی انتخابات میں 8 سے 7 نشستوں پر امیدوار عمران خان تھے تو سوال یہ ہے کہ کیا اگر کپتان کے علاوہ کوئی اور امیدوار ہوتا تو کیا پھر بھی یہی نتائج ہوتے تو اس کا جواب میرے نزدیک یہ ہے کہ نہیں پھر نتائج ایسے نا ہوتے اس میں تحریک انصاف کم سے کم چارسدہ، مردان، پشاور اور فیصل آباد کی نشستیں ضرور ہار جاتی یا پھر بہت ہی معمولی فرق سے جیت پاتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی شخصیت اس کے پارٹی ورکرز کے نزدیک بہت اہمیت کی حامل ہے اور اس کے علاوہ اگر کوئی امیدوار ہوتا تو شاید دلچسپی اور کمٹمنٹ کا لیول کچھ اور ہوتا۔

ساری گفتگو کا خلاصہ یہ کہ ضمنی انتخابات کا حکومت نے غلط فیصلہ کیا۔ کسی حد تک یہ بات فائدہ دے سکتی ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں پر قابو پالیں تا ہم ان انتخابات کا سیاسی فائدہ بلاشبہ عمران خان کو ہوا ہے۔ دوسری بات یہ کہ حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کو اب انتخابی اتحاد پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا اگر یہ جماعتیں متفقہ امیدوار میدان میں لائیں گی تو کامیابی ہو سکتی ہے وگرنہ کپتان کی مقبولیت کے سامنے کمزور امیدوار پٹ جائے گا لہذا پی ڈی ایم کو آئندہ امیدواروں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا۔

سب سے اہم یہ کہ آئندہ عام انتخابات میں سیاست کا دنگل پنجاب میں ہو گا اور ن لیگ کو مزید بہتر تیاری کرنی ہوگی فی الوقت نون لیگ کا پنجاب کا کلیم بری طرح متاثر ہوا ہے۔ آخری بات کہ تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کا کہنا ہے کہ اگر پھر ضمنی الیکشن ہوئے تو امیدوار عمران خان ہی ہو گا کیونکہ کپتان کا اعلان ہے کہ میں کلا ای کافی آں اور حالیہ انتخابی نتائج سے یہ بات درست ثابت ہوئی ہے۔ کہ فی الوقت کپتان کا بیانیہ مقبول ہے۔ لہذا حکومت کو معیشت کی بحالی کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف دینے کے مقبول فیصلے کرنے پڑیں گے وگرنہ آئندہ کے نتائج نوشتہ دیوار ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments